"KMK" (space) message & send to 7575

میئر کے الیکشن اور خمیرہ مروارید عنبری جواہر دار

بلدیاتی الیکشن تو ختم ہوئے مگر ابھی تک اس کی حقیقی شکل و صورت پردۂ غیب میں ہے۔ نام کی جمہوریت میں حکمران اپنی گرفت ہر طرح سے مضبوط رکھنے کی خاطر ہر جمہوری قدر کی جی بھر کر تذلیل کرتے ہیں اور ہر دوچار سال بعد اس بنیادی جمہوریت کی بنیاد ہلا کر رکھ دی جاتی ہے۔ عجب بنیادی جمہوریت ہے جس میں جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو حسب منشا پامال کیا جاتا ہے۔ ابھی تک حکمران فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ میئر ٹیکنو کریٹ سیٹوں پر منتخب ہونے والے ارکان میں سے ہو گا یا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے چیئرمینوں میں سے ہو گا؟ ہائوس کے ارکان میں سے ہو گا یا اوپر سے براہ راست نازل ہو گا؟ عوامی نمائندہ ہو گا یا سکائی لیب ہو گا؟ یہ عجب جمہوریت ہے جس میں جمہوریت کا فیصلہ عوامی رائے یا عوامی نمائندوں کی منشاء کے بجائے آرڈیننس کے ذریعے کیا جائے گا۔
چالیس پچاس لاکھ تک کا خرچہ کرنے کے بعد چیئرمینوں اور ان کے سرپرست ارکان اسمبلی وغیرہ کی جان نکلی پڑی ہے کہ کہیں اوپر سے فرشتے نازل نہ ہو جائیں۔ ایک اور افواہ جس نے سیاسی کھڑپینچوں کی ہوا نکال رکھی ہے ‘یہ ہے کہ ارکان اسمبلی وغیرہ کے بہن بھائی اور بچوں کو میئر یا ضلع ناظم وغیرہ نہیں بنایا جائے گا۔ ایک مسلم لیگی چیئرمین ملا تو کہنے لگا آپ میرا نام نہ لکھیں مگر اپنے کالم میں یہ ضرور پوچھیں کہ میاں نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم ہیں‘ان کا سگا چھوٹا بھائی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے‘ان کا سمدھی ملک کا وزیر خزانہ ہے‘ان کا سگا بھتیجا لاہور سے ایم این اے ہے‘بیٹی یوتھ پروگرام کی انچارج ہے‘ داماد ایم این اے ہے‘بیگم کا بھتیجا بلال یٰسین ایم این اے ‘ عابد شیر علی پانی و بجلی کا وزیر مملکت ہے ‘اور میاں صاحب کے ہم زلف چوہدری شیر علی کا بیٹا ہے۔ اس کے علاوہ کافی سارے سسرالی عزیز سیاست کے میدان میں ہیں۔ ابھی دو عزیز الیکشن ہار کر اسمبلی سے باہر ہیں ۔داماد کا بھائی طاہر علی حلقہ این اے21کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کا امیدوار تھا تاہم ''خوش قسمتی‘‘ سے ہار گیا اور دوسرا امیدوار ابھی ابھی تازہ تازہ لاہور کے صوبائی حلقہ پی پی147سے ہارنے والا محسن لطیف ہے جو میاں صاحب کی اہلیہ کا بھتیجا ہے۔ اوپر سے یہ ہم کو سبق پڑھا رہے ہیں کہ رشتہ داروں کو میئر یا ناظم ضلع نہیں بنایا جائے گا۔ کیا سارا نزلہ ہم غریبوں پر گرنا ہے؟ کیا اصولوں اور قاعدوں ضابطوں کا اطلاق اپنی فیملی پر نہیں ہوتا؟ کیا اصول صرف دوسروں کے لیے ہیں؟ پھر دوبارہ تاکیداً کہنے لگا ‘میرا نام نہیں لکھنا۔
ادھر ملتان میں بھی باقی شہروں کی طرح ''گھڑمس‘‘ مچا ہوا ہے۔ کبھی کوئی اکیلا گروپ بناتا ہے اور کبھی دو چار گروپ مل کر بڑا گروپ بناتے ہیں اور اپنی عددی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ سب ہی اندر سے ڈرے ہوئے ہیں اور اوپر سے کسی سگنل کے منتظر ہیں۔ کل پرسوں اپنے بیٹے کی ملتان کے میئر کی امیدواری کے لیے کوشاں ایم پی اے حاجی احسان الدین قریشی نے بیان دیا ہے کہ ملتان کا میئر منتخب نمائندوں سے ہونا چاہیے۔ ملتان کے عوام اوپر سے مسلط کردہ امیدوار قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے یہ بیان تو دیا ہے لیکن مجھے یقین کامل ہے کہ اگر اوپر سے کوئی امیدوار مسلط ہوا تو میرے دوست حاجی احسان الدین قریشی سب سے پہلے لپک کر اس مسلط کردہ امیدوار کی نہ صرف بیعت کر لیں گے بلکہ ان کے ساتھ چل کر دوسروں سے بھی بیعت کروائیں گے ۔ملتان میں یہی کچھ ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا۔ اپنے دوست احسان الدین قریشی کے بارے میں مجھے یقین کامل ہے کہ وہ میرا کالم تو کجا اخبار بھی نہیں پڑھتے تاہم اس کالم کی وساطت سے میں ان کو ایک پرانا واقعہ یاد کروانا چاہتا ہوں۔ میں یہ واقعہ برسوں پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر ان کا دعویٰ سن کر دل کہتا ہے کہ یہ واقعہ ایک بار پھر لکھوں۔ امید ہے کہ کوئی نہ کوئی کالم پڑھنے والا یہ واقعہ حاجی احسان الدین کو سنا ضرور دے گا۔ بس اسی امید پر دوبارہ لکھنے کی مشقت اٹھا رہا ہوں
کہ شاید اس یاددہانی سے انہیں یہ بھی یاد آ جائے کہ ان کے ساتھ سترہ سال پہلے کیا ہوا تھا۔
یہ غالباً 1998ء کا ذکر ہے جب ملتان میں باقی ملک کی طرح بلدیاتی الیکشن ہوئے۔ ملتان میں الیکشن کے بعد صورتحال یہ ہوئی کہ منتخب کونسلروں کی غالب اکثریت نے سعید چوہان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور اسے ملتان کے میئر کے لیے اپنا امیدوار بنا لیا۔ ملتان شہر میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں اور صوبائی اسمبلی کی چار نشستیں تھیں۔ ایک ایم این اے طاہر رشید اور دوسرا حاجی بوٹا تھا۔ دونوں مسلم لیگ ن کے ارکان قومی اسمبلی تھے۔ صوبائی اسمبلی میں بھی چاروں ارکان مسلم لیگ کی طرف سے ہی کامیاب ہوئے تھے۔ یہ حافظ اقبال خاکوانی‘ احسان الدین قریشی‘ مولوی سلطان عالم انصاری اور رانا نور الحسن تھے۔ تب موجودہ گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ سینٹ کے ملتان سے اکلوتے ممبر تھے۔ اب صورتحال یہ ہوئی کہ ملک رفیق رجوانہ سینیٹر‘ حاجی محمد بوٹا ممبر قومی اسمبلی ‘ حاجی اقبال خاکوانی ممبر صوبائی اسمبلی‘ احسان الدین قریشی( جنہوں نے پرسوں دعویٰ کیا ہے کہ اوپر سے مسلط کردہ میئر قبول نہیں کیا جائے گا) مولوی سلطان عالم‘ رانا نور الحسن اور ملتان کے تقریباً اسی فیصد سے زائد منتخب کونسلر سعید
چوہان کے ساتھ تھے اور اسے ملتان کا میئر بنانا چاہتے تھے۔ سعید چوہان کی بطور میئر ملتان کامیابی یقینی تھی۔ میرے جذباتی دوست حافظ اقبال خاکوانی نے جو تب صوبائی وزیر بھی تھے سعید چوہان کا ساتھ دینے کا قرآن پر حلف بھی اٹھایا ہوا تھا۔ وہ یہ حلف اٹھانے والے اکیلے نہیں تھے۔ تقریباً سبھی نے حلف اٹھایا ہوا تھا۔ تب ہوا یہ کہ ملتان شہر سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی طاہر رشید کے والد مرحوم شیخ محمد رشید نے جو خود بھی سابق ممبر قومی اسمبلی تھے اپنے دوسرے بیٹے طارق رشید کے لیے میاں نواز شریف کے والد مرحوم میاں محمد شریف سے میئر ملتان کا وعدہ لے لیا اور نامزدگی کے وقت یہ وعدہ یاد دلایا۔ میاں صاحب نے والد صاحب کے حکم پر ملتان کے میئر کے لیے طارق رشید کو نامزد کر دیا۔ سعید چوہان نے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا اور اس کے ساتھ حلف اٹھانے والوں نے بھی تھوڑی سی مزاحمت کا ارادہ کیا۔ سرکار نے سعید چوہان کو ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا اور سب ارکان اسمبلی و سینیٹر صاحب کو حکم فرمایا کہ بلا تاخیر طارق رشید کو ووٹ ڈلوانے کے لیے کونسلروں سے رابطہ کریں اور سب کو لے کر میونسپل کارپوریشن پہنچیں۔ حافظ اقبال خاکوانی نے کہا کہ جناب ہم نے حلف اٹھایا ہوا ہے۔ جواب ملا یہ آپ کا سر درد ہے ہمارا نہیں۔ سو حافظ صاحب نے بمعہ دیگر مخالفین کے حلف توڑنے کا کفارہ ادا کیا اور شتابی سے دیگر کونسلروں کو پکڑا اور کارپوریشن میں لے جا کر ان کے ووٹ طارق رشید کو ڈلوا کر اسے کامیاب کروایا۔حافظ اقبال خاکوانی نے ایک دوست کی شادی کی تقریب میں مجھ سے کلمہ پڑھ کر وعدہ کیا کہ اگر طارق رشید کومیاں صاحبان نے میئر بنوایا تو وہ وزارت سے مستعفی ہو جائے گا۔ طارق رشید میئر بن گیا۔ میں نے ایک کالم کے ذریعے
حافظ اقبال خاکوانی کو یاد بھی کروایا کہ اس نے استعفیٰ دینا تھا مگر اس نے استعفیٰ نہ دیا۔ ممکن ہے اسے اپنا وعدہ یاد نہ رہا ہو‘ ممکن ہے کہ اس نے میرا کالم نہ پڑھا ہو اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس کو کسی نے میرے کالم بارے بتایا بھی نہ ہو۔ دوستوں کے بارے میں بندے کو حسن ظن رکھنا چاہیے۔
کافی عرصہ ہوا ‘ملتان کی ایک تقریب میں احسن اقبال مسلم لیگ ن میں جمہوری کلچر کی سربلندی پر تقریر فرما رہے تھے۔ میں نے کھڑے ہو کر یہ سارا واقعہ بیان کر دیا۔ طارق رشید وہاں موجود تھا اور اس سے کافی عرصہ کے بعد بول چال شروع ہوئی تھی وہ دوبارہ بند ہو گئی اور پھر کافی عرصہ بند رہی۔ اسی روز احسن اقبال بھی مجھ سے ناراض ہو گئے اور کئی سال تک اس بات کو دل میں رکھا مگر یہ عاجز کیونکہ اپنی انہی حرکات کے باعث آدھے شہر سے تعلقات خراب کرنے کے بعد اس قسم کے ردعمل کا عادی ہو چکا تھا لہٰذا اس کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑا۔ گمان غالب ہے کہ اس کالم کے بعد دوبارہ کئی لوگوں سے تعلقات خراب ہونگے تاہم حسب معمول یہ فقیر اپنی ذات میں مست رہے گا۔ یہ سارا قصہ تو میئر ملتان کے حوالے سے تھا تاہم گمان غالب ہے کہ سب شہروں میں تقریباً یہی حال ہے۔ مظفر گڑھ میں عبداللہ بخاری کافی بندے اکٹھے کیے بیٹھا ہے ‘تاہم شنید یہی ہے کہ وہ بس بیٹھا ہی رہے گا۔
ملتان میں ضلعی نظامت کے لیے شجا عبادی زور لگا رہے ہیں مگر ان کی امید بھی کم ہے کہ میاں صاحبان کو ان کے سلسلے میں کافی تحفظات ہیں۔ تاہم شجاعباد میں جوڑ توڑ زوروں پر ہے کہ یہ اس علاقے کی سیاسی روایت ہے۔ فی الحال اتنا ہی کافی ہے ‘باقی کبھی آئندہ کالم میں سہی۔ اپنے تئیس امیدوار بننے والوں کو چاہیے کہ وہ دل کے ضعف کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے خمیرہ مروا رید عنبری جواہر دار کثرت سے استعمال کریں جلد ہی کام آئے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں