"KMK" (space) message & send to 7575

نو من تیل کی عدم دستیابی اور رادھا

اس ملک میں انصاف ملتا نہیں البتہ خریدا جا سکتا ہے۔اس دنیا کی عدالت کی جوابدہی سے تو انسان بچ سکتا ہے مگر اس عدالت میں کیا ہو گا جہاں انصاف تو سب کو ملے گا مگر خرید نا کسی قارون کے باپ کے بھی بس میں بھی نہیں ہوگا۔ جہانگیر ترین نے حلقہ این اے 154 میںانصاف حاصل کر کے اپنے اردگرد کے حلقوں این اے 153اور 148 میں قانون کی کسمپرسی پر سوال اٹھادیئے ہیں۔
ملتان کچہری میں چلے جائیں تو وکیل چہار جانب بکھرے پڑے ہیں۔ صرف ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبران کی تعداد چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ساڑھے آٹھ سو کے قریب وکلا چیمبرز ہیں اور ہر چیمبر میں تین سے چار وکیل ہیں۔ اس حساب سے ضلع کچہری ملتان میں حاضر وکلاء کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ ہے۔ سائلین کی تو پوچھیں ہی نہ۔ قریب پانچ ہزار سائل روزانہ یہاں کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے مارے پھرتے ہیں اور ان میں سے اکثر بے وسیلہ اور بے آسرا سائل ذلیل و خوار ہو کر اگلی پیشی کی تاریخ لے کر چلے جاتے ہیں۔ ساٹھ سے پینسٹھ کے قریب ماتحت عدلیہ والے منصف ہیں۔ سیشن جج سے لیکر سول جج اور مجسٹریٹ تک۔ سارا دن ایک افرا تفری کا سماں رہتا ہے اور صبح سے شام تک بھاگ دوڑ دیکھنے میں آتی ہے مگر شام کو انصاف کے طالب ہجوم کی اکثریت منہ لٹکائے اس نظام انصاف کی شان میں ''قصیدے‘‘ پڑھتی اپنے گھروں کو، گائوں دیہاتوں کو واپس چل پڑتی ہے۔ اگلا روز اسی طرح طلوع ہوتا ہے اور انصاف کی کسمپرسی کا جائزہ لے کر حسب معمول غروب ہو جاتا ہے۔ گمان غالب ہے کہ یہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا مگر سوال پیدا ہوتا ہے کب تک؟۔
ایک بات تو طے ہے کہ ہمارا نظام انصاف مکمل طور پر نا کام ہو چکا ہے۔ یہ ایک ایسی تعفن زدہ لاش ہے جسے ہم دفن کرنے کے بجائے اس کے سرہانے بیٹھے ہوئے اس سے اپنے مسائل کے مداوے کے طلبگار ہیں۔ اس نظام کو تبدیل کرنے پر فائز لوگوں نے ناک پر بے حسی کے کپڑے کا ڈھاٹا باندھ رکھا ہے۔ انہیں اس تعفن زدہ لاش سے اٹھتے ہوئے بو کے بھبھکوں کا رتی برابر احساس نہیں ہے۔ وہ مفت کے ٹکٹ ، ماہانہ تنخواہ، پارلیمنٹ لاجز میں رہائش، یوٹیلیٹی بلز کی سرکاری ادائیگی اور ترقیاتی فنڈز لیکر مست ہیں۔ قانون ساز اسمبلی میںان کا بہترین مشغلہ اونگھنا ہے اور ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھنے کی صورت میں انہیں کسی نہ کسی بات میں اپنے حقوق کی پامالی کا احساس یاد آجاتا ہے اور وہ کوئی نہ کوئی تحریک استحقاق پیش کر دیتے ہیں۔ اگر اپنے اس حق سے فرصت ملے تو انہیں اچانک یاد آتا ہے کہ ان کی تنخواہ اور الائونسز بہت کم ہیں اور اس میں اضافہ اس وقت ملک کی سب سے اہم ضرورت ہے تو وہ اس اضافے کے لیے اپنے تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس ملک میں مہنگائی سے جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے وہ ارکان اسمبلی وسینیٹ وغیرہ جیسا عسرت زدہ طبقہ اشرافیہ ہے۔ باقی سارا ملک خوشحالی کے سمندر میں غوطے کھا رہا ہے۔
الیکشن میں زور لگا کر، زور بازو دکھا کر، دھاندلی فرما کر اور قوم کے اربوں روپے لگا کر ہم جن لوگوں کو اسمبلی میں بھیجتے ہیں ان کا بنیادی کام قانون سازی ہے مگر اللہ کے فضل سے وہ یہی ایک بنیادی کام نہیں کرتے باقی ہر کام کرتے ہیں۔ اس ''ہر کام‘‘ سے مراد آپ جو بھی لے لیں درست ہے اور سچ ہے۔ اسمبلی کا کام قانون سازی کرنا ہے اور اسی بنیاد پر وہ سپریم ادارہ کہلاتا ہے مگر ہمارا یہ سپریم ادارہ اپنا بنیادی کام سرانجام دیے بغیر اپنی بالادستی کا دعویدار ہے۔ تین سو سینتالیس افراد کے باہمی مفادات کے تحفظ کو انہوں نے جمہوریت کے مقدس غلاف میں لپیٹا ہوا ہے۔ فریق ثانی ہر آٹھ دس سال بعد تین سو سینتالیس افراد کی انجمن امداد باہمی پر لپٹے ہوئے اس غلاف کو اتار کر فرد واحد کے گرد لپیٹ دیتی ہے تو سب لوگ جمہوریت کی اس بے توقیری اور بے عزتی پر واویلا مچا دیتے ہیں۔ اگر پارلیمنٹ اپنا اصل کام کرنے میں نا کام ہے تو اس پر اربوں روپے کا خرچہ کرنے کا کیا جواز ہے؟۔
کیا حکمرانوں، قانون سازوں، قانون کے محافظوں ، قانون دانوں اور قانون نافذ کرنے والوں کو کبھی یہ احساس ہوا ہے کہ اب تادیر اس مردہ نظام کو گھسیٹنا باقاعدہ جرم ہے کہ اس سے عام آدمی کو کچھ بھی حاصل وصول نہیں ہو رہا۔ طالب علم زین کے قاتل مصطفیٰ کانجو جیسے زور آور گواہ خرید لیتے ہیں۔ شاہ زیب کے قاتل وڈیروں کے بیٹے مدعی بٹھا لیتے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف گواہ نہیں ملتے۔ زور آور پولیس کو خرید لیتے ہیں۔ پولیس کا تفتیشی نظام صفر ہو چکا ہے۔ تھانے میں حصول انصاف نا پید ہو چکا ہے۔ تنخواہیں تین گنا ہو جانے کے باوجود ماتحت عدالتوں میں کرپشن کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔ ججوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے ریڈر، اہلمد اور چپڑاسی سائلوں سے زبردستی بخشیش لیتے ہیں۔ عدالتی حکم کی کاپی مفت نہیں ملتی۔ تاریخ لینے کا فکس ریٹ مقرر ہے۔ اپنی مرضی کی عدالت میں ضمانت دائر کروانے کے لیے ''فیس‘‘ طے شدہ ہے۔ فیصلہ لینے کے لیے ایک علیحدہ نظام ہے جو دولت کے دھکے سے چلتا ہے۔ شنید ہے کہ جہانگیر ترین نے اپنے حق اور انصاف کے حصول کے لیے اڑھائی کروڑ کا دھکا لگایا تھا۔ 
حلقہ این اے 154میں جہانگیر ترین نے نوٹوں کی بنی ہوئی پچ پر زور دار باولنگ کروائی لیکن اس نے بھی صدیق خان بلوچ کی وکٹ لینے میں دو درجن کے لگ بھگ پیشیاں بھگتیں یعنی دو درجن اوور کرائے۔ مسلسل دو سال تگ ودوکی اور بالآخر وہ اس حلقے میں کوئی فیصلہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ یکسوئی اور پختہ ارادے کے طفیل ممکن ہوا مگر یہ جہانگیر ترین کا پیسہ تھا جو ہر رکاوٹ کو عبور کرنے میں اس کا ممدو معاون بنا وگرنہ اس کے ساتھ والا حلقہ این اے 153بھی سب کے سامنے ہے اور دوسری طرف چند میل کے فاصلے پر موجود حلقہ این اے 148بھی۔ اگر انصاف سب کے لیے اور آسانی سے مل سکتا تو پھر ان دو مذکورہ حلقوں میں بھی فیصلہ آ چکا ہوتا۔ بھلے کسی کے حق میں ہوتا مگر کم از کم کوئی نتیجہ تو نکلتا۔ مگر نتیجہ ہنوزنا معلوم فاصلے کی دوری ہے کہ فیصلے کو بہتر کرنے کے لیے درکار پیسے کم از کم ان دو حلقوں میں دستیاب نہیں ہیں۔
حلقہ این اے 148 سے منتخب ہونے والے مسلم لیگ ن کے ممبر قومی اسمبلی ملک غفار ڈوگر جنہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پیشہ دودھ فروشی لکھا ہوا ہے‘ گزشتہ اڑھائی سال سے پیشیوں پر گزارا کر رہے ہیں اور مختلف حیلوں بہانوں سے کیس لٹکائے ہوئے ہیں۔ اس حلقے سے ناکام ہونے والے مخدوم شاہ محمود کی بھی کوشش ہے کہ کیس لٹکا رہے کہ خود شاہ محمود ملتان شہر کے حلقہ این اے 150 سے رکن اسمبلی بن چکے ہیں۔ حلقہ این اے 148 جو شاہ محمود کا پرانا آبائی حلقہ ہے ‘وہاں سے ان کے بیٹے زین قریشی کے فی الحال جیتنے کا کوئی امکان نہیں لہٰذا وہ بھی نہیں چاہتے کہ فیصلہ ہو اور وہاں دوبارہ الیکشن ہو اور ملی بھگت سے کیس کو اس طرح لٹکایا ہے کہ بالآخر 2018ء کے الیکشن کے بعد مجبوراً یہی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ نئے الیکشن ہو چکے ہیں۔ اس لیے مدعی کی درخواست غیر مؤثر ہونے کی بنیاد پر داخل دفتر کی جاتی ہے۔موصوف نے 2005ء کے بلدیاتی الیکشن میں اپنی تعلیمی قابلیت ایم اے عربی/ اسلامیات لکھی۔ اپنی اس اعلیٰ تعلیم کے ثبوت کے طور پر بڑی زور دار اور متاثر کن ڈگریاں لگائیں۔ قبلہ ڈوگر صاحب نے ''شہادہ العالمیہ فی علوم العربیہ و اسلامیہ‘‘ اور کشف الدرجات الشہادۃ العالمیہ کی ڈگریاں دیکھ کر اس عاجز کے ایک بار تو اوسان مکمل طور پر ہی خطا ہو گئے، غنیمت رہی کہ کچھ اور خطا نہیں ہوا۔ ان ڈگریوں میں درج مضامین کا ذکر کروں کہ ان میں بہت سے تو ایسے دقیق موضوعات پر ہیں کہ اس عاجز کو اپنی کم علمی اور نالائقی کا احساس دو چند نہیں ہزار چند ہوگیا۔ 
2013ء کے الیکشن میں موصوف نے ازراہ انکسار اپنی اعلیٰ تعلیم سے رضا کارانہ دستبرداری اختیار کرتے ہوئے اپنی تعلیم میٹرک لکھی اور ثبوت کے طور پر اپنی تعلیم ''شہاد ۃ ثانوی العامہ‘‘ کی سند لگائی اور ساتھ ہی اسے میٹرک کے مساوی بنانے کے لیے درکار ثانوی تعلیمی بورڈ کے تین مضامین انگریزی، اردو اور مطالعہ پاکستان کی سند لگائی اور انٹربورڈ کمیٹی آف چیئرمینز کا Equivalance Certificate لگا دیا۔ ساتھ ہی پروویژنل لیٹر لگایا کہ وہ ملتان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سے مذکورہ بالا تینوں مضامین پاس کر چکا ہے۔ آئی بی سی سی نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگائے ہوئے اپنے خط کے بارے میں لکھ دیا کہ ہمارا جاری کردہ نہیں ہے اور سراسر جعلی ہے۔ ساتھ ہی مدرسہ عربیہ دار العلوم الاسلامیہ ڈیرہ اسماعیل خان کے مہتمم نے اپنے مدرسے کے نام پر جاری کردہ شہادۃ ثانوی العامہ کی ڈگری کے بارے بھی ایسا ہی خط دے دیا۔ یعنی بنیادی ڈگری بھی جعلی ہے اور اس کا مساوی قرار دیا جانے والا خط بھی۔ اب بھلا اس کیس میں اور کیا رہ گیا ہے؟۔ مگرجیتنے اور ہارنے والا امیدوار مل کر باہمی رضامندی سے کیس لٹکائے ہوئے ہیں۔موصوف قومی خزانے سے مزے اڑا رہے ہیں۔ کئی بار جہاز پر اس طرح ملاقات ہوئی کہ موصوف سرکاری خرچ پر اور یہ عاجز اپنے خرچ پر سفر کر رہا تھا۔
حلقہ این اے 153میں دیوان عاشق حسین بخاری اسی طرح کے کیس میں نا اہل ہو کر الیکشن پر حکم امتناعی لے چکا تھا‘مگر گزشتہ روز عدالت نے اس حلقے میں دوبارہ الیکشن کا حکم دے دیا۔ 
سارا نظام انصاف مکمل اوورہالنگ کا متقاضی ہے۔ تعزیرات پاکستان، ضابطہ فوجداری، دیوانی قانون، قانون شہادت اور گواہی کا طریقہ کار۔ سب کچھ اپنی افادیت کھو چکا ہے اور نئی قانون سازی نا گزیر ہے مگر جعلی ڈگری یافتہ ممبران سے اس کی توقع عبث ہے۔ کیا یہ نظام تا دیر چل سکتا ہے ؟۔ جواب نفی میں ہے لیکن اس سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا موجودہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ارکان اسمبلی اس کام کی اہلیت رکھتے ہیں؟۔ اس کا جواب پہلی نفی سے زیادہ بڑی نفی میں ہے۔ 
یعنی نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں