"KMK" (space) message & send to 7575

این اے 153 بمقابلہ این اے 154

حاشا و کلا! میرا مقصد رنگ میں بھنگ ڈالنا یا کسی کی جیت کا مزہ کرکرا کرنا نہیں ہے؛ تاہم جلالپور پیروالہ کے حلقہ این اے 153 ملتانVI سے مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا قاسم نون کی کامیابی پر بھنگڑے ڈالنے اور اسے تھوڑا ہی عرصہ پہلے بالکل ساتھ جڑے ہوئے حلقہ این اے 154 لودھراںI میں جہانگیر ترین کی جیت کا بدلہ قرار دینے والے چند حقائق کو بالکل نظر انداز کر کے تجزیہ پیش کر رہے ہیں۔ حلقہ این اے 154 میں جہانگیر ترین نے مسلم لیگ ن کے امیدوار صدیق خان بلوچ کو چالیس ہزار ووٹ سے شکست دی تھی جبکہ حلقہ این اے 153 میں رانا قاسم نون نے تحریک انصاف کے امیدوار غلام عباس کھاکھی کو پچھتر ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے۔ بظاہر یہ اعداد و شمار بڑے خوش کن ہیں مگر حقائق ویسے نہیں جیسا انہیں پیش کیا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار کا موازنہ کرتے ہوئے اگر ہم سابقہ نتائج اور دیگر عوامل کو دائیں بائیں کر کے نتائج پیش کرتے ہیں تو یہ بددیانتی اور بے ایمانی ہے۔ فی الوقت یہی ہو رہا ہے۔
حلقہ این اے 153 ملتان چھ سے رانا قاسم نون نے جو سیٹ جیتی ہے یہ مسلم لیگ ن کی ہی سیٹ تھی جو اس کے امیدوار دیوان عاشق حسین بخاری نے 2013ء کے الیکشن میں جیتی تھی۔ یعنی مسلم لیگ ن نے اپنی جیتی ہوئی سیٹ پر کامیابی حاصل کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اپنی سیٹ کو برقرار رکھا ہے جبکہ این اے 154 میں معاملہ اس کے الٹ تھا۔ تحریک انصاف کے امیدوار جہانگیر ترین نے یہ سیٹ مسلم لیگ ن سے چھین لی تھی۔ اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار صدیق خان بلوچ نے 2013ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدوار جہانگیر خان ترین کو گیارہ ہزار ووٹ سے ہرایا تھا۔ اگر ہم اعداد و شمار کو سامنے رکھیں تو صورتحال یوں بنتی ہے کہ جہانگیر ترین نے حلقہ این اے 154 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو چالیس ہزار ووٹ سے شکست دی‘ تو دراصل جہانگیر ترین نے اپنے گزشتہ حاصل کردہ 75814 ووٹوں کے مقابلے میں ضمنی الیکشن 2015ء میں 138573 ووٹ لیے یعنی اپنے ووٹوں میں 62759 ووٹوں کا اضافہ کیا۔ اپنا ووٹ بینک بھی بڑھایا اور مسلم لیگ ن سے سیٹ بھی چھین لی جبکہ این اے 153 میں ایسی کوئی بات نہیں۔
این اے 153 میں 2013ء کے الیکشن میں دیوان عاشق بخاری نے 94298 ووٹ لیے اور رانا قاسم نون نے 88553 ووٹ لیے‘ اب دونوں یکجا تھے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے گزشتہ الیکشن لڑنے والا رانا قاسم اور مسلم لیگ کا جیتا ہوا لیکن عدالت سے فارغ شدہ دیوان عاشق اب اکٹھے تھے۔ اگر الیکشن 2013ء میں ہر دو حضرات کے ووٹ جمع کیے جائیں تو وہ ایک لاکھ بیاسی ہزار آٹھ سو اکاون بنتے ہیں۔ رانا قاسم نے اب 109499 ووٹ لیے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں دونوں صاحبان کے اتحاد کے باوجود مشترکہ ووٹوں میں 73352 ووٹوں کی کمی واقع ہوئی ہے۔ رانا قاسم اور دیوان عاشق کے مشترکہ ووٹ گزشتہ الیکشن میں دونوں کے انفرادی ووٹوں کے مجموعے سے بہت کم ہیں‘ جبکہ یہاں پر تحریک انصاف نے شکست کے باوجود گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گزشتہ الیکشن 2013ء میں تحریک انصاف نے این اے 153 سے17931 ووٹ لیے تھے جبکہ اس بار 34451 ووٹ لیے ہیں۔ اس طرح تحریک انصاف نے اس حلقہ میں گزشتہ الیکشن کی نسبت 16620 ووٹ زیادہ لیے ہیں۔
اس حلقے سے تحریک انصاف اپنی بے پناہ کوششوں کے باعث ہارنے میں کامیاب ہوئی‘ وگرنہ امکانات تھے کہ وہ جیت بھی سکتی تھی۔ مسلم لیگ ن نے اس حلقہ میں اپنا کام الیکشن سے کئی ماہ پیشتر شروع کر دیا تھا اور رانا قاسم کو گھیرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ دوسری طرف ہر بار دوسری پارٹی سے الیکشن لڑنے کا وسیع تجربہ رکھنے والا رانا قاسم بھی ہوا کا رخ پہچان چکا تھا۔ گزشتہ الیکشن بالکل تھوڑے مارجن سے ہارنے والے رانا قاسم نون کو الیکشن کے نتائج سے یہ پتا تو چل چکا تھا کہ اب پیپلز پارٹی میں مزید وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور دیوان عاشق کے ہوتے مسلم لیگ ن میں جانا فضول ہے‘ لہٰذا اس نے فوری فیصلہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی کشتی میں چھلانگ لگا دی کہ اب وہی دوسری بڑی پارٹی رہ گئی تھی جس میں قسمت آزمائی جا سکتی تھی۔ اسی دوران دھرنے وغیرہ کی ناکامی اور دیوان عاشق بخاری کی نااہلی نے رانا قاسم کے لیے مسلم لیگ ن کی اہمیت ایک بار پھر بڑھا دی۔
ادھر یہ عالم تھا کہ پی ٹی آئی کے کرتا دھرتا بالکل بے فکر ہو کر بیٹھے تھے اور جنوبی پنجاب کے معاملات کا نگران شاہ محمود قریشی بھی ٹھنڈ کروا کر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے بہت پہلے لکھ دیا تھا کہ رانا قاسم نون مسلم لیگ ن میں جانے کے لیے پر تول رہا ہے‘ مگر شاہ محمود قریشی سیاسی لیڈر کے بجائے گدی نشین بن کر بیٹھا رہا کہ مرید خود ہی آ کر ہاتھ چومیں گے اور نذرانہ پیش کریں گے‘ لیکن مریدوں میں اور سیاسی ورکروں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کے سیاسی معاملات کے نگران خواب خرگوش میں تھے‘ جبکہ مسلم لیگ ن والوں نے اس سلسلے میں پوری بھاگ دوڑ لگائی ہوئی تھی۔ رانا قاسم کو مسلم لیگ ن میں گھسانے کا سب سے زیادہ کریڈٹ میرے حساب سے سعود مجید کو جاتا ہے کہ اس نے شجاعباد کی ساری لوکل قیادت کی مخالفت کے باوجود اپنا کام جاری رکھا‘ اور بالآخر رانا قاسم کو مسلم لیگ ن کا امیدوار بنوانے میں کامیاب ہو گیا۔
یہ ضمنی الیکشن محض ایک ماہ کی گیم تھی اور اس میں پہلے پندرہ دن شاہ محمود قریشی اینڈ کمپنی گھر میں بیٹھی انتظار کرتی رہی کہ رانا قاسم نون ان کے پاس ٹکٹ لینے آئے جبکہ انہی پندرہ دنوں میں رانا قاسم کو مسلم لیگ ن میں لے جانے والوں نے پورا زور لگایا اور مقامی مسلم لیگی قیادت بشمول دیوان عاشق‘ جاوید علی شاہ ایم این اے‘ رانا اعجاز نون ایم پی اے‘ نغمہ مشتاق لانگ ایم پی اے اور مہدی عباس لنگاہ ایم پی اے‘ سب کے سب رانا قاسم نون کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دینے کے مخالف تھے مگر حمزہ شہباز اور سعود مجید اس بات پر یکسو تھے کہ مسلم لیگ ن اب مزید کسی ضمنی الیکشن میں ہارنے کا رسک لینے پر تیار نہیں‘ رانا قاسم نون کو ہی اس سیٹ پر کھڑا کرے گی کہ صرف اسی صورت میں پی ٹی آئی کی طبیعت صاف کی جا سکتی تھی۔ مسلم لیگ ن کے پاس دو امیدوار تھے اور وہ ان میں سے زیادہ مضبوط امیدوار کی تلاش میں تھی۔ اگر عام حالات ہوتے تو مسلم لیگ ن رانا قاسم نون کو شاید پوچھتی بھی نہ مگر یہاں یہ معاملہ تھا کہ اگر قاسم نون کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہ ملتا تو وہ پی ٹی آئی کا مضبوط امیدوار ہوتا۔ مسلم لیگ ن نے سیاسی دائو کھیلتے ہوئے ایک ہی تیر سے دو شکار کھیلے۔ ایک یہ کہ مسلم لیگ (ن) کو ایک عدد مضبوط امیدوار مل گیا‘ اور دوسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی بھی مضبوط امیدوار نہ رہا۔
اب اصل کہانی شروع ہوئی۔ رانا قاسم نون کے خلاف سارے شجاعبادی اور جلالپوری مسلم لیگی اکٹھے ہو گئے۔ پہلے پہل تو خود دیوان عاشق بخاری نے علم بغاوت بلند کر دیا اور اپنے بیٹے دیوان عباس بخاری کو آزاد امیدوار کھڑا کر دیا۔ حمزہ شہباز نے ایک طرف دیوان عاشق بخاری کو یقین دلایا کہ وہ اس کے بیٹے دیوان عباس بخاری کو ضلع کونسل ملتان کا چیئرمین بنوا دیں گے‘ اور دوسری طرف سعود مجید اور مہر اشتیاق کے ذریعے دیوان عاشق بخاری کے فنانسر‘ سپورٹر اور کافی بڑے ووٹ بینک کے مالک ملک لعل خان جوئیہ کو دیوان سے توڑ کے لاہور بلوا لیا۔ لعل خان جوئیہ نے مسلم لیگ ن میں شامل ہو کر رانا قاسم نون کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ دوسری طرف انہوں نے پی ٹی آئی کے 2013ء میں صوبائی امیدوار ایوب گھلو کو توڑ لیا۔ خاص طور پر ملک لعل خان جوئیہ کے علیحدہ ہوتے ہی دیوان صاحبان کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ 
رانا قاسم نون کی مخالفت میں پیش پیش ایم این اے جاوید علی شاہ نے حمزہ شہباز سے ملاقات کی اور اسے کہا کہ رانا قاسم نون کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دینے کی صورت میں شجاعباد اور جلالپور پیروالہ کی مسلم لیگ میں دراڑیں پڑ جائیں گی اور پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ اس سے مسلم لیگ ن کو بطور سیاسی جماعت بہت نقصان ہو گا اور پارٹی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ راوی معتبر ہے اور اس کی بات پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ حمزہ شہباز نے مسکرا کر جاوید علی شاہ کی طرف دیکھا اور کہا: شاہ جی! جب آپ ق لیگ سے ن لیگ میں آئے تھے اور مسلم لیگ ن کے امیدوار بنے تھے کتنے لوگوں نے پارٹی چھوڑی تھی؟ کتنے لوگوں نے دلبرداشتہ ہو کر مسلم لیگ ن سے علیحدگی اختیار کی تھی؟ شاہ صاحب خاموش ہو گئے اور یہ آخری نشانہ بھی بری طرح خطا گیا۔ اس طرح مسلم لیگ ق سے آزاد امیدواری اور وہاں سے پیپلز پارٹی اور پھر تحریک انصاف کے راستے مسلم لیگ ن کے امیدوار بننے والے رانا قاسم نون کے خلاف پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ن سے مسلم لیگ ق سے دوبارہ مسلم لیگ ن میں آنے والے مسلم لیگ ن کے نہایت ''وفادار اور جانثار‘‘ ہمدرد سید جاوید علی شاہ کی مسلم لیگ ن کو انتشار اور ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کی کاوشیں ناکام ہو گئیں۔ رانا قاسم نون کو مسلم لیگ کا ٹکٹ ملنے پر مسلم لیگ ن میں نہ کوئی انتشار پھیلا اور نہ ہی ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔ نہ کوئی دلبرداشتہ ہوا اور نہ کسی نے پارٹی چھوڑی۔ سب نے حسب معمول سابقہ تنخواہ پر دل و جان سے نوکری کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا اور راوی اب چین لکھتا ہے؛ تاہم آخر میں آپ کو دوبارہ یاد کروا دوں کہ حلقہ این اے 153 میں مسلم لیگ کی کامیابی کو پی ٹی آئی کی حلقہ این اے 154میں کامیابی کا جواب قرار دینا نہایت ہی احمقانہ موازنہ ہے کہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ سے این اے 154 کی سیٹ چھینی ہے اور ووٹ بینک میں تریسٹھ ہزار ووٹ کا اضافہ کیا ہے جبکہ این اے 153 مسلم لیگ کی ہی سیٹ تھی جو انہوں نے برقرار رکھی ہے اور اصولاً مسلم لیگ کے اجتماعی ووٹوں میں 73000 ووٹوں کی کمی ہوئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں