"KMK" (space) message & send to 7575

گنے کی فصل اور امریکہ کی ایسی کی تیسی

میں نے اس بات پر کافی غور کیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات بلکہ رشتے کو تمثیلی حوالے سے کس طرح واضح کیا جا سکتا ہے؟ اگر کوئی برا نہ منائے (ویسے اگر کوئی برا منا بھی لے تو اس عاجز کو کوئی فرق نہیں پڑتا) تو میرے خیال میں یہ رشتہ ایک زوردار چوہدری اور اس کے غلام جیسا ہے۔ چوہدری اسے نہ تو اس کی مرضی کے مطابق ماہانہ ادائیگی کرتا ہے اور نہ ہی اسے کسی اور جگہ کام کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ یہ اس کی ''غیرت‘‘ کے خلاف ہے۔ ادھر غلام کا یہ عالم ہے کہ وہ خود بھی اپنے بارے میں بے یقینی کا شکار ہے کہ وہ کام کی تلاش میں کہاں جائے گا؟ اس کی کسی گستاخی پر چوہدری جب چاہے اس کا ماہانہ ایک آدھ ماہ کے لیے بند بھی کر دیتا ہے مگر اسے کسی اور کے ڈیرے پر جانے کی اجازت بھی نہیں دیتا آخر چوہدری عام چوہدری نہیں‘ زوردار ہے۔
امریکہ کا دفاعی بجٹ چھ سو بلین ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ یہ دنیا کے کل دفاعی بجٹ کا قریب تینتیس فیصد یعنی ایک تہائی ہے۔ باقی دو تہائی چین‘ بھارت‘ سعودیہ‘ فرانس‘ برطانیہ‘ جاپان‘ جرمنی اور روس سمیت ساری دنیا کا دفاعی بجٹ ہے۔ اب اس بھاری دفاعی بجٹ کے ساتھ فی الوقت دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ ایک ایسا شخص جو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس سے کچھ بھی بعید نہیں اور یہ (کم از کم اس عاجز کے خیال میں) کوئی اتفاقیہ یا حادثاتی طور پر نہیں ہوا۔ یہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا طے شدہ پلان تھا کہ ایک فارغ العقل شخص کو دنیا کے طاقتور ترین صدر کے طور پر وائٹ ہائوس میں بٹھا کر اپنے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کروائی جا سکے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ایک مناسب سا کندھا درکار تھا جس پر وہ اپنی ناآسودہ خواہشات کی بندوق رکھ کر چلا سکے۔ یہ کندھا انہیں ٹرمپ کی شکل میں نظر آیا اور انہوں نے بڑے سلیقے سے اسے منتخب کروایا اور اب وہ اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔
افغانستان اور عراق پر حملے کے لیے انہیں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا شور شرابا اور اسامہ بن لادن کا پروپیگنڈہ تسلی بخش ثابت ہوا اور یہ کام انہوں نے بش سے لے لیا تاہم نسبتاً زیادہ نامعقول کاموں کے لیے انہیں بھی نسبتاً زیادہ نامعقول شخص کی ضرورت تھی سو یہ ضرورت اب ٹرمپ صاحب پوری کر رہے ہیں۔
شاہ جی نے پوچھا کہ کیا ٹرمپ حکومت پاکستان پر حملہ کر سکتی ہے؟ میرا جواب تھا کہ ٹرمپ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ویسے بھی امریکی حکمران ظالم ترین اور بے حس ترین حکمران ہیں دنیا میں صرف دو ایٹم بم گرائے گئے اور یہ دونوں ایٹم بم امریکیوں نے گرائے تھے۔ دنیا میں صرف ایک جنگ میں ڈیزی کٹر بم استعمال ہوئے اور یہ امریکہ نے استعمال کئے۔ دنیا میں ایک دن میں سب سے زیادہ میزائل داغنے کا تمغہ بھی امریکی حکمرانوں کے سینے پر چمک رہا ہے۔ ایٹم بم کے بعد دنیا کا سب سے بڑا بم جسے ''مدر آف آل بمز‘‘ قرار دیا گیا یعنی ''بموں کی ماں‘‘ وہ بھی امریکیوں نے ہی استعمال کیا۔ 
ملک خالد کے بقول کمیونسٹوں کے بارے مغرب نے بڑے ظلم و ستم اور بے رحمی کے افسانے تراشے اور پروپیگنڈہ بھی کیا لیکن روس نے کسی جنگ میں حتیٰ کہ افغانستان میں اپنی بتدریج شکست کے دوران بھی ایٹم بم استعمال نہ کیا۔ روس کو افغانستان میں شکست ہو گئی۔ روس ٹوٹ گیا لیکن اس نے ایٹم بم کی آپشن استعمال نہ کی۔ ادھر جنگ کے دوران امریکہ پر صرف ایک بار حملہ ہوا۔ وہ بھی امریکہ ''مین لینڈ‘‘ پر حملہ نہ تھا بلکہ جزائر ہوائی میں ایک امریکی اڈے ''پرل ہاربر‘‘ پر حملہ ہوا اور امریکہ نے جاپان کے دو شہروں‘ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرادیئے۔
امریکہ مین لینڈ کے اندر امریکی تاریخ کا واحد حملہ (اس حملے بارے بھی بے شمار شکوک و شبہات ہیں) مین ہیٹن نیویارک میں ٹوئن ٹاور پر ہونے والا جہازی حملہ تھا اور اس کے عوض امریکہ نے کھیتوں کھلیانوں اور پہاڑوں‘ میدان میں کام کرنے والے معصوم اور بے گناہ لاکھوں افغانوں کو آگ اور بارود کی بارش میں نہلا دیا۔دوسری طرف وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروںکی جھوٹی کہانی کے نام پر کئی لاکھ عراقیوں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ گزشتہ چار دہائیوں میں دنیا میں جتنا خون امریکہ نے بہایا ہے اس کی یکطرفہ نظیر تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ جنگ عظیم اول و دوم میں یقینا اس سے زیادہ کشت و خون ہوا ہے لیکن وہ دوطرفہ تھا۔ فریقین کا جانی نقصان لگ بھگ ایک جیسا ہی تھا۔ اتحادیوں اور نازیوں کا فوجی و غیر فوجی نقصان انیس بیس کے فرق کے ساتھ دوطرفہ تھا لیکن یہ کیسی جنگیں تھیں جو امریکہ نے لڑیں؟ یکطرفہ! ایک طرف نہتے افغان اور دوسری طرف ٹام ہاک میزائلوں کی بارش۔ افغان باراتوں پر ڈرون حملے‘ عام شہریوں پر ڈیزی کٹر بموں کی کارپٹ بمباری۔ یہی حال عراق کا تھا جس پر Weapons of mass Destruction کا الزام تھوپ کر حملہ کر دیا گیا۔ بغداد کا وہ حال کیا کہ ہلاکو کی روح بھی عالم بالا میں کانپ اٹھی ہو گی۔
امریکی حکمران دنیا کے سب سے ظالم اور بے حس حکمران ہیں اور اب ''چین آف کمانڈ‘‘ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جسے کسی چیز کی پروا ہے اور نہ ہی فکر۔ گفتگو سنیں تو سرشرم سے جھک جائے۔ رشتوں بارے خیالات کا اظہار سنیں تو حیا والوں کو پسینہ آ جائے۔ خواتین بارے ریمارکس سنیں تو زمین میں گڑ جانے کو دل کرے۔ امریکی حکمران کی بے حسی اور ظلم کی کہانیاں ایک طرف لیکن ایسا صدر؟ جس شخص کو محرمات اور بہنوں بیٹیوں کے رشتوں کا احترام نہیں بھلا اس سے کیا بعید ہے؟
شاہ جی نے پوچھا کیا پاکستان پر امریکی حملے کا امکان ہے؟ میں نے کہا امریکیوں سے سب کچھ ممکن ہے۔ پاکستان دنیا کی واحد مسلم ایٹمی قوت ہے اور یہ چیز عالم کفر کے سینے میں کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے۔ سارا عالم اسلام ایک طرف اور پاکستان ایک طرف ۔اسرائیل کو صرف اور صرف پاکستان کے ایٹم بم سے خطرہ ہے۔ اب بھلا کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل کو کسی چیز کا خوف ہو اور امریکہ اس خوف کو دور نہ کرے۔ کسی محدود کارروائی کا امکان رد بھی نہیں کیا جا سکتا مگر کیا پاکستان‘ افغانستان یا عراق ہے؟ ہرگز نہیں۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ دوسری طرف ہمارے حکمران زبانی کلامی جو مرضی کہیں‘ جب تک ان کے اللے تللے جاری ہیں‘ امریکی خیرات کے بغیر ان کا کام نہیں چل سکتا اور جب تک یہ خیرات کے طلب گار ہیں‘ غیرت مندی سے کوئی فیصلہ کرنا ممکن نہیں۔
ایک ہمارا ایٹمی پروگرام جسے ہماری اقتصادی ناکہ بندی کے ذریعے بلیک میل کر کے لپیٹنے کی تیاری کی جا رہی ہے تو دوسری طرف نئی علاقائی صف بندی میں چین اور روس کی طرف ہمارا جھکائو اور سی پیک کا منصوبہ۔ چوہدری اپنے غلام کو خرچہ دے یا نہ دے۔ کسی اور جگہ بھی کام نہیں کرنے دیتا۔ ہمارے حکمرانوں کا یہ عالم ہے کہ درمیان میں کہیں لٹکے ہوئے ہیں۔ لہٰذا سو جوتے بھی کھا رہے ہیں اور سو پیاز بھی۔ ورنہ ایٹمی قوت اور بیس کروڑ لوگوں پر مشتمل ملک کو پتھر کے زمانے میں کون دھکیل سکتا ہے؟ سارا امریکہ مل کر صرف ہماری گنے کی فصل کو اتنا برباد نہیں کر سکتا جتنا اس فصل کو اور کاشتکار کو ہمارے حکمرانوں کی نااہلی نے اس سال برباد کیا ہے۔ امریکہ کی ایسی کی تیسی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں