"KMK" (space) message & send to 7575

پیشہ ٔ پیغمبری اور مملکت خداداد پاکستان

اب کتاب کا حوالہ تو یاد نہیں لیکن واقعہ کے مندرجات خوب اچھی طرح یاد ہیں۔ اشفاق احمد نے یہ واقعہ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ تب اشفاق صاحب اٹلی میں تھے اور وہاں پڑھا رہے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک دوپہر میں اپنی گاڑی پر جا رہا تھا اور ایک چوک پر اوپرسے گھوم کر آنے کے بجائے راؤنڈ اباؤٹ سے شارٹ کٹ مارتے ہوئے مڑ گیا۔ دوپہر کا وقت تھا اور اٹلی کے ''قومی رواج‘‘ کے مطابق چوک پر متعین ٹریفک پولیس والا بھی نیم قیلولہ کرنے میں مصروف تھا۔ اس نیم قیلولہ سے مراد یہ ہے کہ وہ چوک کے ایک طرف کسی سایہ کے نیچے آدھی آنکھیں موندے آرام کر رہا تھا۔ اشفاق صاحب بڑے مزے سے اس نیم خوابیدہ سپاہی کی موجودگی کے باوجود ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چوک سے گزر گئے۔ بات شاید یہیں تک رہتی اور معاملہ اسی چوک میں ختم ہو جاتا مگر اپنی اس چالاکی اور دیدہ دلیری پر اشفاق صاحب پھولے نہ سمائے اور سپاہی کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے نہایت استہزائیہ نظروں سے دیکھا۔ یہیں سے معاملہ خراب ہو گیا۔
اشفاق صاحب جونہی فاتحانہ نظریں ٹریفک کانسٹیبل پر ڈال کر آگے نکلے نیم خوابیدہ سپاہی بادشاہ نے ان نظروں کو اپنے لئے چیلنج اور قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف سمجھا۔ ابھی اشفاق صاحب نے چوک کراس کر کے دوسری سڑک پر گاڑی موڑی ہی تھی کہ سنتری بادشاہ نے زور دار سیٹی ماری اور اشفاق صاحب کو رکنے کا اشارہ کیا۔ ممکن ہے اشفاق صاحب پاکستان میں ہوتے تو گاڑی روکنے کے بجائے دبائے چلے جاتے لیکن وہ بہرحال یورپ تھا جہاں ٹریفک کی خلاف ورزی خاصا سنگین جرم سمجھا جاتا ہے (اس ساری تحریر میں بہت سی باتیں خاص طور پر کمنٹس میرے ذاتی ہیں کیونکہ کتاب کا نام یاد نہیں اس لیے ساری تحریر محض یاداشت کے زور پر بیان کیا جانے والا واقعہ بن گیا ہے اور واقعہ بیان کرتے ہوئے ایسی باتیں بھی باقاعدہ حصہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کے لئے قارئین سے حالانکہ معذرت کا کوئی جواز تو نہیں بنتا مگر روایتاً یہ معذرت بھی قبول فرمائیں) اشفاق صاحب نے جونہی سیٹی سنی رک گئے اور ابھی چند لمحے پہلے جو ان کی فاتحانہ مسکراہٹ تھی غائب ہو گئی۔ ٹریفک کا سپاہی آیا اور اس نے چالان فرما دیا پھر اس چالان کی ٹکٹ اشفاق صاحب کے ہاتھ پکڑائی اور انہیں کہا کہ یا وہ جرمانے کی رقم ادا کریں یا عدالت میں پیش ہو کر اپنا کیس لڑیں۔ اشفاق صاحب نے عدالت جا کر اپنا کیس لڑنے کا عندیہ ظاہر کیا اور چالان ٹکٹ پکڑ کر چل پڑے۔
جس دن عدالت میں پیشی تھی اشفاق صاحب عدالت پہنچے اور ملزموں والے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اپنا بیان دینے لگے اسی دوران جج نے ان سے نام وغیرہ پوچھنے کے بعد ان کا پیشہ پوچھا۔ اشفاق صاحب نے بتایا کہ وہ استاد ہیں اور یہاں پڑھاتے ہیں۔ یہ سنتے ہی جج اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور اس نے با آواز بلند اعلان کیا کہ "Teacher in the Court" یعنی عدالت میں استاد موجود ہے۔ یہ سنتے ہی سارا عدالتی عملہ بھی کھڑا ہو گیا۔ پھر اشفاق صاحب کو کرسی پیش کی گئی اور ملزموں والے کٹہرے سے نکال کر اس کرسی پر بٹھایا گیا۔ عدالتی کارروائی جاری رہی لیکن ایک استاد کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے۔ اس عدالت میں اگر اشفاق صاحب کو ہتھکڑی لگا کر پیش کیا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ پورے ملک میں ایک کہرام مچ جاتا۔سارا نظام انصاف درہم برہم ہو جاتا اور جج اس کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیتا‘ لیکن ایسا وہاں ہوتا ہے‘ جہاں استاد کا مرتبہ اور درجہ ایک انتہائی محترم شخصیت کے طورپر لیا جاتا ہے‘ اسے معاشرے کا معمار سمجھا جاتا ہے۔لیکن ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے؟گزشتہ سے پیوستہ روز پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس سے چند روز پہلے سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری کو بھی ہتھکڑی لگا کر نیب عدالت میں پیش کیا گیا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ استاد کی اس تذلیل پر الفاظ نہیں مل رہے کہ اس کی کس طرح مذمت کروں؟ اس سے پہلے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کو بھی ہتھکڑی لگا کر عدالتوں میں گھمایا گیا اور مہینوں کی تفتیش کے بعد بھی پتا نہیں چلا کہ انہوں نے کتنی کرپشن کی تھی اور اس کرپشن میں سے کیا برآمد ہوا۔ یہ بات درست ہے کہ ڈاکٹر علقمہ کے دور میں سفارش اور میرٹ سے ہٹ کر کی جانے والی تقریروں کے طفیل یونیورسٹی کے انتظامی اور تعلیمی معاملات میں بے شمار خرابیاں پیدا ہوئیں‘ لیکن یہ ساری انتظامی خرابیاں تھیں جن پر ایکشن لینا حکومت وقت کا کام تھا‘ جس میں وہ ناکام رہی۔ وائس چانسلر نے ساری عمر پڑھانے سے سروکار رکھا ہوتا ہے اور انتظامی معاملات میں ہونے والی خرابیوں کا امکان بھی ہوتا ہے‘ لیکن ان کے اوپر مانیٹرنگ کرنے والے ادارے کیا کر رہے ہوتے ہیں؟
میں ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری سے ذاتی طور پر واقف ہوں۔ وہ ایک شاندار معلم اور صاحب علم ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی ایماندار ا ور صاف ستھرے کردار کے مالک ہیں۔ میں جب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کا طالب علم تھا تب وہ اسلامیہ یونیورسٹی میں استاد تھے۔بنیادی طورپر وہ مدرسے سے فارغ التحصیل تھے اور بعد ازاں ام القریٰ یونیورسٹی مکہ میں عربی زبان میں تخصیص حاصل کی۔ اردو‘ پنجابی اور سرائیکی پر دسترس تو خیر کوئی غیر معمولی بات نہیں‘ لیکن عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی پر ایسی دسترس اور مہارت کہ بندہ دنگ رہ جائے۔ عربی میں ایسی فصاحت و بلاغت اور روانی کہ مادری زبان عربی والے بھی اَش اَش کر اٹھیں۔1997ء میں پنجاب یونیورسٹی بطور پروفیسر و صدر شعبہ عربی چلے گئے۔ پنجاب یونیورسٹی میں بطور ڈین فرائض سرانجام دیتے رہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے لیے شارٹ لسٹ ہوئے اور انٹرویو کے لیے چانسلر یعنی گورنر کے روبرو پیش ہوئے۔ چانسلر جو ریٹائرڈ جنرل تھے کہنے لگے: آپ کے باقی معاملات تو شاندار ہیں لیکن ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ آپ کے والد صاحب جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔ ڈاکٹر اکرم چوہدری مسکرائے اور کہا: جناب! اب میں اس وائس چانسلری کے لیے اپنے والد صاحب کے مقام و مرتبے سے تو انکار نہیں کر سکتا اور نہ ہی تبدیل کر سکتا ہوں۔ گورنر صاحب کو یہ جواب پسند نہ آیا اور ڈاکٹر صاحب اس وائس چانسلری کے لیے ان کی پسند پر پورے نہ اتر پائے۔بطور وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی اُن کے دور میں جو حیران کن ترقی ہوئی اس پر میں عرصہ ہوا ایک کالم لکھ چکا ہوں۔ ممکن ہے انتظامی فیصلوں میں کچھ کمی کوتاہی رہ گئی ہو مگر فیصلوں میں تکنیکی غلطیاں نہ تو کرپشن ہیں اور نہ ہی بدعنوانی۔ ہاں ان غلطیوں کی آڑ میں مال بنایا گیا ہو یا اقربا پروری کی گئی تو قابل گرفت ہے۔ سرگودھا یونیورسٹی کے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ والے کیمپوں کا قیام سنڈیکیٹ کے فیصلوں کے تحت ہوا تھا جس کے ڈاکٹر اکرم چوہدری چیئرمین ضرور تھے‘ مگر محض ایک ووٹ کے حامل ممبر۔ میرے بہترین علم کے مطابق نہایت ہی ایماندار‘ میرٹ اور قواعد کا احترام کرنے والے اور روپے پیسے کی لو بھ سے کوسوں دور۔
نیب تفتیش کیلئے بلائے‘ تحقیقات مکمل کرے‘ جرم ثابت ہو تو بھلے ہتھکڑی لگائے یا پھانسی چڑھائے‘ مگر یہ کیا ؟محض الزام لگایا استاد کو ہتھکڑی لگا دی۔ الزام غلط ثابت ہو تو نیب کے افسران کے لیے کیا سزا ہے؟ ویسے بھی اب تک نیب نے کتنے جرم ثابت کیے ہیں؟ کرپشن ثابت ہونے سے پہلے مجرم بنا کر استاد کو ہتھکڑیاں لگانے کا جواز کیا ہے؟ ویسے بھی استاد کے جوتوں کے طفیل اونچے مرتبوں پر پہنچنے والوں کو استاد کو ذلیل کرتے ہوئے شرم سے ڈوب مرنا چاہئے‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسی شرم کی ہی تو کمی ہے وگرنہ استاد کو اس طرح رسوا کرنے کی جرأت کون کر سکتا ہے؟ ویسے بھی اس ملک میں صرف بے کس اور کمزور پر قانون کی طاقت چلتی ہے اور استاد سے کمزور اور بے کس اس مملکت خداداد پاکستان میں اور کون ہے؟ پیشہ پیغمبری کے ساتھ یہ سلوک صرف ہمارے ہاں ہی ہو سکتا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں