"KMK" (space) message & send to 7575

قصہ ایک انٹرویو کا جو سرے سے ہو نہ سکا!

آج ایک عرصے کے بعد مجھے مشہور صحافی اور مصنفہ اوریانا فلاسی (Oriana Fallaci) کی ایک کتاب Letter to a Child Never Born‘ جس کا اردو ترجمہ ''خط اس بچے کے نام جو پیدا نہ ہو سکا‘‘ کے نام سے عرصہ ہوا چھپی تھی‘ یاد آ گئی۔ عشروں بعد اس کتاب کے یاد آنے کی وجہ اپنے پیارے عثمان بزدار صاحب کا کامران خان صاحب والا وہ شہرہ آفاق انٹرویو ہے جو سرے سے ہو ہی نہ سکا۔ یہ دنیا کی صحافتی تاریخ کا وہ انٹرویو ہے جس نے وقوع پذیر نہ ہونے کے باوجود دھوم مچا دی ہے اور اپنی مقبولیت کے جھنڈے چہار دانگ عالم میں گاڑ دیئے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک ایسا انٹرویو تھا جو پہلے سے ہی آئوٹ کر دیا گیا تھا مگر بارتھی کے ببرشیر نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے اندازہ لگایا کہ فی الوقت زمانہ میڈیا کا ہے اور اس میں اصل چیز ریٹنگ اور شہرت ہے سو اگر انٹرویو دیا جائے اور وہ خراب ہو جائے تو اس طرح شہرت کو داغدار کرنے سے ہزار درجے بہتر ہے کہ بندہ انٹرویو نہ دے کر وہ ریٹنگ اور شہرت حاصل کر لے جو انٹرویو دے کر بھی کبھی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا وہی ہوا جو بزدار صاحب کا اندازہ تھا۔ انٹرویو بھی نہیں ہوا اور شہرت بھی ایسی ملی ہے کہ خدا کی پناہ۔ ہر جگہ اسی انٹرویو کی دھومیں ہیں جو وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار نے سرے سے دیا ہی نہیں۔ ایسا سیاسی چھکا مارنا کسی کسی کے ذہن میں ہی آ سکتا ہے۔
اس انٹرویو کے سوالات بعد ازاں کامران خان صاحب نے اپنے پروگرام کے دوران بزدار صاحب کی عدم شرکت کے باعث اکیلے ہی بیٹھ کر ناظرین کوسنا دیئے۔ دیگر کئی سوالات کے علاوہ کامران خان کا ایک سوال تھا ''دو سال میں ہمیں بتائیے وہ پراجیکٹس جو آپ نے شروع کیے یا چلیں وہ جو تکمیل تک پہنچ گئے جن پر آپ فخر کر سکیں؟‘‘ اب باقی سوالوں کے بارے میں تو مجھے پتا نہیں؛تاہم یہ جو اوپر والا سوال ہے کم از کم مجھے یقین ہے کہ میرے پیارے بزدار صاحب اس سوال کا بڑا شافی اور سکہ بند قسم کا جواب دے سکتے تھے۔ لیکن اب چونکہ یہ انٹرویو سرے سے ہو ہی نہیں سکا‘ اس لیے ''تو مان نہ مان، میں تیرا مہمان‘‘ کے مصداق میں ایسے ہی خواہ مخواہ اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں‘ آخر بزدار صاحب میرے وسیب کے باسی ہیں۔ مجھ سے چند سال بعد ہی سہی، مگر میری مادر علمی ایمرسن کالج ملتان اور بعد ازاں بہائوالدین زکریا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے ناتے سے میرے ہم مکتب ہیں لہٰذا ان کی طرف سے تھوڑی بہت صفائی دینا میرا فرض بھی ہے اور حق بھی بنتا ہے۔
سنی سنائی کے بارے میں زیادہ کہنے کی تو پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اب آپ لوگوں کو یہ بتاتا پھروں کہ ڈیرہ غازی خان کے لیے اربوں روپے کے منصوبوں کی شفافیت کا کیا حال ہے؛ تاہم یہ ضرور پتا ہے کہ ان منصوبوں میں کون کس کا فرنٹ مین ہے اور یہ کہ ان میں سے کون بااعتبار ہے اور کون سا بے اعتبار ہے۔ ایگریکلچر گریجوایٹس کو الاٹ کردہ زمینوں پر کس نے قبضہ کر رکھا ہے اور ان قابضین کی پشت پناہی کون کر رہا ہے؟ کس موضع میں اشتمال کے نام پر کس زورآور نے جعلی کھاتے میں زمینیں اپنے نام منتقل کروائی ہیں اور کون کون سا رشتے دار اس بندر بانٹ میں شامل ہے؟ تاہم اس پر چند روزبعد۔ فی الحال میں ملتان میں دوسال کے دوران پنجاب حکومت کی جانب سے کیے جانے والے ترقیاتی کاموں کے بارے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ یہ وہ ترقیاتی کام ہیں جن کا نہ صرف یہ کہ میں عینی شاہد ہوں بلکہ ان سے براہ راست فیضیاب ہونے والا شخص بھی ہوں۔
میرا گھر ملتان میں زکریا ٹائون میں ہے۔ گھر جانے کے لیے دو متبادل راستے ہیں۔ بوسن روڈ سے میں گھر جانے کے لیے پہلے زکریا ٹائون والی مین سڑک استعمال کرتا تھا‘ پھر یہ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تو میں نے گلشن مہر کالونی والی سڑک سے آنا جانا شروع کر دیا؛ تاہم تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہ حالت ہو گئی کہ یہ والی متبادل سڑک بھی ناقص میٹریل اور ٹھیکیداری معیار کے باعث جگہ جگہ سے ٹوٹنا شروع ہو گئی۔ چار پانچ سال پہلے اس کی تھوڑی بہت مرمت کروائی گئی مگر دو چار بارشوں نے حال پہلے سے بھی خراب کر دیا۔ اب یہ فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہو گیا کہ گھر جانے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے۔ کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ گلشن مہر والا راستہ بہرحال اس حساب سے نسبتاً بہتر ہے کہ اس پر ٹریفک کم ہوتی ہے اور کسی جگہ پر پھنس جانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے لہٰذا اسے استعمال کیا جائے۔ میں گزشتہ کئی سال سے گلشن مہرکالونی والا راستہ استعمال کررہا ہوں۔ اب راستہ کتنا بھی خراب حال کیوں نہ ہو؟ بندے نے گھر تو جانا ہی ہوتا ہے۔
بیس پچیس دن پہلے زکریا ٹائون مین روڈ اور بوسن روڈ کے مقام اتصال پر پتھروں کے ڈھیر اور سڑک کی تعمیر میں استعمال ہونے والی مخصوص مٹی کے ٹرک ان لوڈ ہوتے دیکھے۔ میری گلی کے چوکیدار نے شام کو بتایا کہ زکریا ٹائون کی مین سڑک بن رہی ہے۔ حیرت اور خوشی سے میرا براحال ہو گیا۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران ملتان میں کسی نے ایک دھیلے کا ترقیاتی کام نہیں کیا۔ جس سے پوچھا‘ پتا چلا کہ حکومت کے پاس فنڈز ہی نہیں ہیں۔ ہم جنوبی پنجاب والے گزشتہ کئی عشروں سے تخت لاہور والوں کو برا بھلا کہتے آ رہے ہیں اور اس کی وجہ اور کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ہمیں ترقیاتی فنڈز میں اس تناسب سے حصہ نہیں مل رہا جوہمارا حق ہے۔ سب کچھ لاہور میں اور باقی بچاکھچا بھی وسطی اوراپر پنجاب میں لگ جاتا تھا۔ لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ اشک شوئی ہوجاتی تھی۔ جب سے اپنے بزدار صاحب وزیراعلیٰ بنے ہیں ملتان میں دو پیسے کا کام نہیں ہوا۔ میں یہ بات کسی مبالغہ آمیزی کے رنگ میں نہیں کررہا‘ واقعتاً دو سال کے دوران ملتان میں دو پیسے کا ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ ایسے میں زکریا ٹائون کی سڑک کا بننا ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ اچنبھے کا باعث بھی تھا۔
ہفتے دس میں سڑک مکمل ہو گئی۔ ایک عرصے بعد میں اس سڑک سے گزرا تو آغاز میں ہی بائیں طرف سڑک کی افتتاحی تختی لگی ہوئی تھی۔ اس پر حلقے کے ایم این اے ملک عامر ڈوگر، ایم پی اے ظہیرالدین علیزئی اور درجن بھر سے زیادہ دیگر لوگوں کے نام درج تھے جنہیں میں جانتا تک نہیں؛ تاہم میں ان سب کا دل سے مشکور تھاکہ ان کی کاوشوں کے باعث ملتان میں اس سڑک کا بننا ایسا ہی تھا جیسے سورج مغرب سے نکل آیا ہو۔ لیکن کل افتخارالحسن نے ایک بات بتائی جس سے سارا مزا کرکرا کر دیا ہے۔
افتخار بتانے لگا کہ گزشتہ ماہ بزدار صاحب اپنے کسی دوست کے ہاں تعزیت کے لیے زکریا ٹائون آئے اور سڑک کی خستہ حالی پر بڑے پریشان ہوئے تھے۔ وہ ملتان کی انتظامیہ کو حکم دے گئے کہ یہ سڑک فی الفور تعمیرکروائی جائے۔ پھر افتخار نے مجھے نہایت رازدانہ لہجے میں بتایا کہ آپ کو شاید علم نہیں، اسی سڑک پر آگے بزدار صاحب کی ایک قریبی عزیز کا گھر مبارک بھی ہے۔ خیر مجھے اس سے کیا کہ کیوں بنوائی گئی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بزدار صاحب نے اپنے دو سالہ دور حکومت میں جو یہ دو کلومیٹر کی سڑک تعمیر کروائی ہے اسے وہ خان صاحب کے پروگرام میں اپنے کارنامے کے طور پر بیان کر سکتے تھے‘ مگر افسوس کہ ایک ایسے انٹرویو کے طفیل جو سرے سے ہوا ہی نہیں تھا ان کا یہ عظیم کارنامہ دنیا کے سامنے نہ آ سکا؛ تاہم یہ میرا اخلاقی اور وسیبی فرض تھا کہ میں یہ کام دنیا کو بتاتا۔ الحمدللہ آج یہ کالم لکھ کر میرے سینے سے بوجھ اتر گیا ہے۔آخر ہم وسیب ہونے کا کچھ تو حق ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں