"KMK" (space) message & send to 7575

ملتان تو بس ایک استعارہ ہے

ملتان تو بس ایک استعارہ ہے۔ آپ سب لوگ اس میں اپنا اپنا شہر دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے گزشتہ دنوں ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ''ملتان مریخ پر تو واقع نہیں‘‘ میرا مطلب تھا کہ ملتان اسی مملکت خداداد پاکستان میں ہے‘ اسی کا حصہ ہے اور یہاں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ جب ملتان کے سیاستدانوں کی ذاتی کاموں کیلئے لاہور پر چڑھائی کا ذکر کرتا ہوں تو باقی سب شہروں کے رہنے والے اس میں اپنے اپنے علاقے کے سیاستدانوں کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ جب ملتان کی ٹوٹی سڑکوں سے حکمرانوں کی لاتعلقی اور لاپروائی کا ذکر کرتا ہوں تو اسے دراصل میرا آنکھوں دیکھا حال سمجھا جائے وگرنہ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ باقی علاقوں میں بھی یہی حال ہے۔ برادرم شوکت علی انجم کی بیٹی کی شادی میں شرکت میں ملتان سے ظفر وال جاتے ہوئے سڑک کی جو حالت تھی اس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ عرصہ درازسے رکن اسمبلی اور وزیر رہنے والے احسن اقبال کے حلقے کی اس اہم سڑک کا اتنا خراب حال تھا کہ یہاں کے رہائشیوں کے لئے دل میں ہمدردی کی اتنی زور دار لہر اٹھی کہ بیان کرنا ممکن نہیں۔
ملتان شہر کی صفائی پر جب رونا روتا ہوں تو وہ دن یاد آ جاتا ہے جب میں‘ عزیزم رؤف کلاسرا‘ برادرم بزرگ اعجاز احمد اور خالد تیزگام لاہور کی سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہوئے تا دیر لاہور کی صفائی کا ماتم کرتے رہے۔ جب ملتان شہر کے مٹتے ہوئے تہذیبی ورثے کا رونا روتا ہوں تو اس میں نندنا پہاڑی کے نزدیک البیرونی کی مشاہدہ گاہ کی تباہی کا ذکر بھی اسی میں آ جاتا ہے جہاں کھڑے ہو کر ابو ریحان البیرونی نے محض دو چھڑیوں کی مدد سے سورج کے ڈھلتے سائے کے مشاہدے سے زمین کا قطر معلوم کیا۔ محض میدان اور پہاڑ کے درمیان باہمی زاویے کی پیمائش سے ابوریحان کے آج سے ایک ہزار سال قبل زمین کے دریافت کیے گئے قطر اور جدید سائنسی آلات سے کی جانے والی زمین کی پیمائش میں ایک سو کلو میٹر سے بھی کم فرق نکلا۔ پنڈ دادنخان کے نزدیک البیرونی کی قدیم تجربہ گاہ کی بربادی ہو یا کھتی چور (نواح شہر) کبیروالہ کے نزدیک برباد ہوتا ہوا خالد ولیدکا مقبرہ‘ آہستہ آہستہ صحرا کا رزق بنتا ہوا قلعہ دراوڑ ہو یا جہلم کے نزدیک مٹی بنتا ہوا قلعہ روہتاس‘ ملتان میں صفحہ ہستی سے غائب ہو جانے والی ساون مل کی حویلی ہو یا وزیر آباد کی حویلی ثمن برج۔ گجرات (مظفر گڑھ) کے نزدیک گزشتہ چند عشروں کے درمیان بلند و بالا قلعے سے محض مٹی کا ٹیلہ بن جانے والا قلعہ محمود کوٹ ہو یا ضلع جامشورو میں واقع بتیس کلو میٹر پر مشتمل فصیل والا برباد ہوتا ہوا قلعہ رانی کوٹ۔ خیر پور کا فیض محل ہو یا ملتان میں واقع مائی مہربان کا مقبرہ۔ سب کی کہانی ایک جیسی ہے۔ کیا ملتان اور کیا باقی پاکستان؟
اسی لیے کہتا ہوں کہ ملتان تو بس ایک استعارہ ہے۔ اس کنائے میں پورا ملک سما سکتا ہے۔ اب یہ قاری کی مرضی ہے کہ وہ اسے صرف ایک شہر تک محدود رکھے یا اس آئینے میں اپنے شہر کا چہرہ دیکھے۔ اسے محض میری کہانی تصور کرے یا اسے اپنی روداد سمجھے۔ اس منظرنامے کو تنقید کی خورد بین سے دیکھیں یا اسے اپنے تصور کی دور بین سے ملاحظہ کریں۔ یہ آپ پر منحصر ہے۔ اب بھلا اگر میں اپنے اساتذہ کا ذکر کروں تو وہ صرف خالد مسعود کے اساتذہ کا تذکرہ کہاں ہے؟ یہ تو ہم سب کے اساتذہ کا تذکرہ ہے۔ ہر شخص کی زندگی میں ایسے ایک یا ایک سے زیادہ استاد پائے جاتے ہیں جنہوں نے ان کی زندگی سنوارنے میں ایک اہم کردار سر انجام دیا ہوتا ہے۔ استاد کسی ایک کی جاگیر ہو سکتا ہے؟ کسی ایک شہر کی نمائندگی قرار پا سکتا ہے؟ یہ تو وہ چیز ہے جو کائنات کا احاطہ کر سکتی ہے۔ بھلا زکریا یونیورسٹی کے پروفیسر کو صرف زکریا یونیورسٹی تک محدود کیا جا سکتا ہے؟ ایمرسن کالج کے حامد علی ہاشمی‘ خالد ناصر‘ اقبال عباس نقوی‘ ملک محمد یار‘ صفدر امام اور اے بی اشرف کو ایمرسن کالج کی دیواروں میں پابند کیا جا سکتا ہے؟ گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی کے استاد قادر بخش‘ عبدالمالک بھٹہ‘ فیض خان‘ نذیر احمد‘ محمد عالم‘ ظہور الحق اور منظور بٹالوی کی خوشبو کو صرف ملتان میں قید کیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! یہ وہ استاد ہیں جو ہر سکول میں‘ ہر کالج میں اور ہر یونیورسٹی میں پائے جاتے ہیں۔ جب میں اپنے پرائمری کے استاد ماسٹر غلام حسین کا ذکر کرتا ہوں تو ہر کوئی اپنی اپنی زندگی میں آنے والے ماسٹر غلام حسین کو میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں کے ماسٹر غلام حسین کی شخصیت میں تلاش کر سکتا ہے۔ بھلا یہ چیزیں صرف ملتان کی ملکیت کیسے ہو سکتی ہیں؟ یہ صرف میرا قصہ کہاں ہو سکتا ہے؟ کیا یہ صرف میری جنریشن کی کہانی ہے؟ میرے بچے بھی اپنے سکول کے کسی نہ کسی استاد کو ویسے ہی یاد کرتے ہیں جیسے میں آج باون سال بعد بھی ماسٹر غلام حسین کو یاد کرتا ہوں۔ بالکل ویسے جیسے میں پچپن سال بعد بھی ماسٹر اقبال عرف ماسٹر بالی کو نہیں بھول پایا۔
آج کا دن بھی ایسے ہی استاد کے گھٹنوں کو چھوتے ہوئے گزرا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ یہ اساتذہ کی اس قبیل سے تعلق رکھنے والا استاد ہے جو بس استاد ہوتے ہیں اور ان کا احترام کرنے کو جی کرتا ہے۔ ڈاکٹر خرم قادر تو میرے براہ راست استاد بھی نہیں تھے۔ میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں ایم بی اے کا طالب علم تھا اور ڈاکٹر خرم قادر وہاں تاریخ کے استاد تھے۔ کہاں حساب کتاب اور دنیا داری کا مضمون اور کہاں تاریخ جیسا آفاقی مضمون‘ لیکن ہماری دلچسپیاں اپنے مضمون سے کم تھیں اور ادب و تاریخ سے زیادہ‘ سو اِن سے فیض حاصل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہ ہوتا تھا۔ کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ اب ایسے استاد کہاں؟ میں کہتا ہوں کہ جب تک یہ دنیا کا کاروبار چل رہا ہے پیشۂ پیغمبری بانجھ نہیں ہوسکتا۔ بس فرق صرف اتنا آیا ہے کہ اب ہم اس ماحول کا حصہ نہیں۔ نہ اب میونسپل پرائمری سکول میری درسگاہ ہے اور نہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی۔ کیا خبر اب بھی وہاں کیسے کیسے استاد آتے ہوں؟
آج صبح کا آغاز ہی بڑا خوش کن تھا‘ رانا محبوب اختر کا کالم پڑھا جس میں اس نے کچھ اساتذہ کا ذکر کیا۔ یہ سب وہ اساتذہ تھے جنہیں میں جانتا تھا۔ یہ سب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے اساتذہ کا تذکرہ تھا۔ رانا محبوب اختر میرا سینئر تھا اور انگریزی ادب کا طالب علم۔ ڈاکٹر خرم قادر عرصہ ہوا زکریا یونیورسٹی سے ریٹائر ہو چکے ہیں مگر تحصیل ِعلم ان کا اب بھی اوڑھنا بچھونا ہے اور تقسیم ِعلم ان کا شوق ہے۔ جب کبھی ملتان آتے ہیں تو اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا وقت اس عاجز کو بھی بخشتے ہیں۔ کل فون پر آج کا دن ان کے ساتھ گزارنے کا وعدہ ہوا اور صبح صبح رانا محبوب کا کالم پڑھا۔ اس نے لکھا کہ ان اساتذہ کے طفیل تب ملتان ایتھنز سے اونچے مقام پر فائز تھا۔ ان اساتذہ میں ڈاکٹر خرم قادر کا نام نامی بھی تھا۔ میں نے ڈاکٹر خرم قادر کو ساتھ لیا اور ارادہ کیا کہ کہیں چل کر کافی پیتے ہیں۔ پھر یاد آیا کہ اگر رانا محبوب ملتان ہو تو یہ لطفِ دو آتشہ ہو سکتا ہے۔ رانا محبوب ملتان میں ہی تھا سو یہ لطف دو آتشہ سے بڑھ کر سہ آتشہ ہو گیا۔ جب ڈاکٹر صاحب علم و دانش کے موتی بکھیر رہے تھے تو میں چالیس سال پیچھے چلا گیا۔ ڈاکٹر خرم قادر ایک خوبرو اور سمارٹ نوجوان لیکچرار کے روپ میں ڈھل گیا اور میں بیس سال کے لڑکے کی صورت اختیار کر گیا۔
قارئین! ایمانداری سے بتائیں اگر آپ کو بھی کوئی ڈاکٹر خرم قادر چالیس سال بعد ملے اور آپ بھی بیس سال کے لڑکے بن جائیں تو اس میں ملتان کہاں آتا ہے؟ گو کہ میرے ساتھ یہ ملتان میں ہوا ہے لیکن یہ تو دنیا کے کسی بھی کونے میں آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا نا! کہ ملتان تو بس ایک استعارہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں