"KMK" (space) message & send to 7575

بے چارہ کالم نویس کیا کرے؟

قاری کے پاس بہر حال کالم نویس سے زیادہ آپشنز موجود ہوتے ہیں۔ پسند نہ آیا تو ساتھ والا کالم پڑھ لیا۔ وہ بھی پسند نہ آیا تو دوسرا اخبار اٹھا لیا لیکن کالم نویس کے پاس اتنے زیادہ متبادل نہیں ہوتے۔ آپ کا کیا خیال ہے میرا دل نہیں کرتا کہ اس فضول سیاست سے ہٹ کر لکھا جائے؟ نہ صرف یہ کہ دل کرتا ہے بلکہ بہت زیادہ کرتا ہے۔ لیکن کیا کریں‘ جس معاملے پر لکھنا شروع کریں چار سطروں کے بعد بال سیاست کی کورٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ ہر خرابی اور بگاڑ کا ''کھرا ‘‘ سیاسی رہنماؤں کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ اب ملتان میں گرین بیلٹس کی کہانی لکھوں تو وہی معاملہ آن پڑتا ہے۔ لکھیں تو مصیبت اور نہ لکھیں تو ضمیر ملامت کرتا ہے۔ اب ضمیر کی بات چلی تو کیا عرض کریں‘اگر ہمارا ضمیر ارکانِ اسمبلی کی مانند ہوتا تو مزے تھے۔ کبھی اِدھر سے نوٹ پکڑے اور ووٹ دے دیا‘ کبھی ضمیر جاگا تو اُدھر سے ٹکٹ کی ضمانت پر ووٹ ڈال دیا۔ سینیٹ کی سیٹ پر اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ کاسٹ کر دیا اور اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو اپنی پارٹی کے لیڈر کو ووٹ عطا کر دیا۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کا معاملہ آیا تو ایسا حیران کن تختہ کیا کہ ہارنے والا اپنی شکست پر اب تک حیران ہے۔ لیکن ہم ٹھہرے عام آدمی۔ ہمارا ضمیر بھی وہی عام سا ضمیر ہے جس کا ترجمہ لغت وغیرہ میں درج ہوتا ہے۔ وہی پرانا‘ گھسا پٹا اور متروک قسم کا ضمیر۔
اب مثال کے طور پر ایک واردات دیکھیں۔ ملتان میں نئے اڈے کے ساتھ والی گرین بیلٹ پر بہت سے صاحبانِ اقتدار کی نظر ہے۔ پہلے یہ علاقہ مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے غفار ڈوگر کی عملداری میں تھا۔ اڈوں سے بھتہ خوری‘ قبضہ مافیا اور لاوارث یا جھگڑے والی زمینوں پر ہاتھ صاف کرنے کے سارے واقعات موصوف کی چھتری تلے ہوتے تھے۔ بلکہ چھتری بھی کیا تھی؟ براہ راست ہی سارا کام چلا لیا جاتا تھا۔ اِدھر سے پار چلے جائیں تو ہمارے دوست رانا محمود الحسن جو آج کل سینیٹ کے رکن ہیں اور ملتان سے دو بار رکن قومی اسمبلی اور ایک بار رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں ان کے قریبی عزیز یہی کام کرتے تھے اور ان کو انتخابی سیاست میں 2013ء میں انہی عزیزوں کے کارناموں کے باعث نہ صرف شکست ہوئی بلکہ 2018ء میں تو انہیں ان کے آبائی حلقے سے قومی اسمبلی کی ٹکٹ بھی نہ ملی اور انہیں صوبائی اسمبلی پر الیکشن لڑنا پڑا۔ اب دونوں حضرات اپوزیشن میں ہیں‘ اس لیے ان کا تو مندا چل رہا ہے‘ اب ان کی جگہ موجودہ حکمران پارٹی کے ارکان یا ان کے چمچہ گیر لے چکے ہیں۔
نئے اڈے کے ساتھ والی گرین بیلٹ پر ایک عدد لنگر کیلئے جگہ گھیر لی گئی اور اس لنگر کا افتتاح ایک وفاقی وزیر نے کر دیا۔ سرکاری جگہ کے ساتھ ساتھ فٹ پاتھ بھی اس گھیرے میں آ گئی۔ اردگرد اور سامنے والی سڑک پر اڈوں نے ساری گرین بیلٹ‘ فٹ پاتھ اور سوئی گیس کی پائپ لائن کے اوپر اپنے اڈے بنا رکھے ہیں۔ سوئی گیس کی پائپ لائن کے اوپر اڈے ہمہ وقت سیفٹی کو داؤ پر لگانے والا معاملہ ہے مگر کیا کیا جائے‘ ان اڈوں کی سرپرستی ملتان شہر کے موجودہ اور سابقہ ارکان اسمبلی کے چمچے کڑچھے کر رہے ہیں‘ تاہم یہ سب لوگ محض فرنٹ مین ہیں اور ان کے اصل قابضین کے بارے میں بچے بچے کو پتا ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت بدلنے کے ساتھ ہی قبضہ گروپ بدل جاتا ہے‘ تاہم یہ قبضہ ایک ہی قوم کے نام سے منسوب رہتا ہے۔
چلیں اب دوسری واردات سن لیں۔ ملتان شہر میں ایک عرصے سے ویگنوں کے اڈے قائم تھے۔ ڈیرہ اڈہ کسی زمانے میں ملتان سے مظفر گڑھ‘ ڈیرہ غازی خان‘ راجن پور‘ لیہ‘ تونسہ‘ جھنگ‘ بھکر اور میانوالی کی طرف چلنے والی بسوں کا مرکزی اڈہ تھا۔ پھر بسوں کو ملتان شہر سے باہر نکال کر نئے اڈے پر منتقل کر دیا۔ ملتان شہر کے اندر مختلف روٹس پر چلنے والی بسوں کیلئے تین اڈے تھے۔ ایک تو یہی ڈیرہ اڈہ تھا دوسرا خانیوال اڈہ کہلاتا تھا اور تیسرا جو سب سے بڑا اڈہ تھا وہ چودہ نمبر چونگی والا اڈہ کہلاتا تھا۔ باقی دو اڈے تو مکمل بند ہو گئے لیکن ڈیرہ اڈہ پر بسوں کا اڈہ ختم ہوا تو یہاں ویگنوں کے اڈے قائم ہو گئے۔ ظاہر ہے ان کے پیچھے سیاسی مافیا تھا۔ اب کس کس کا نام لیں۔ اس میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں۔
خیر اب پرانی تفصیل کو کیا دہرانا۔ ان اڈوں کے باعث شہر کا یہ مرکزی چوک مسلسل ٹریفک جام اور لڑائی جھگڑوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ انتظامیہ نے بارہا ان اڈوں کو شہر سے باہر نکالنے کی کوشش کی مگر طاقتور ٹرانسپورٹ مافیا ہر بار حکم امتناعی لے آتا تھا۔ گزشتہ ایک عشرے کے لگ بھگ عرصے سے یہ اڈے صرف اور صرف حکم امتناعی کے زور پر چلے آ رہے تھے۔ بالآخر خدا خدا کر کے یہ معاملہ رفع ہوا اور اڈوں کو شہر سے باہر نکالنے کے حکم پر عملدرآمد ہو گیا۔ اب ایک نئی کشمکش شروع ہو گئی کہ ان اڈوں کو جس نئی جگہ پر منتقل کیا جا رہا ہے وہ کس کے کنٹرول میں ہوگی؟ ظاہر ہے ایسی جگہوں پر کسی عام تام آدمی کی تو نہیں چلتی۔ میرے جیسے بندے نے تو بہاولپور جانا ہو تو اڈے میں مسافروں کو شکرے کی طرح دبوچنے کے ماہر ہاکر اسے زبردستی جلالپور پیروالہ کی ویگن میں بٹھا دیتے ہیں۔ اب ایسے میں کوئی ان کا بھی اوپر والا جوڑ ہو تو بات بنے گی۔ سو اب اس نئے ویگن اڈے پر شہر کے ایک ایم این اے کی اشیرباد سے اس کے زیر سایہ پرورش پانے والے اڈہ مافیا نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں اور ملتان کی دو تین سب سے پرانی اور بڑی ویگن سروسز جو گزشتہ چالیس پینتالیس سال سے اس اڈے پر کام کر رہی تھیں سپریم کورٹ سے ضلعی انتظامیہ کے حق میں فیصلہ ہونے کے بعد پرانے اڈے سے بے دخل کر دی گئی ہیں‘ لیکن انہیں نئی جگہ کیلئے نہ اجازت مل رہی ہے اور نہ ہی جگہ مل رہی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے ملتان سے ایم ان اے نے ضلعی انتظامیہ کی مکمل مدد کے ذریعے شہر کے ساتھ کائیاں پور میں اپنے زیر سایہ اڈہ بھی قائم کر لیا ہے اور سارا انتظام بھی سنبھال لیا ہے جبکہ ان سے کہیں پرانی ویگن سروسز والے یوسف بے کارواں بنے ہوئے دھکے کھا رہے ہیں۔
ادھر مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کے لشاری جنگل میں تیسری بار آگ بھڑک اٹھی ہے اور اب تک پانچ ہزار ایکڑ کے لگ بھگ جنگل جل کر برباد ہو چکا ہے۔ اس کے پیچھے پرانے اور نئے قابضوں کی باہمی جنگ ہے۔ پہلے اس جنگل کی تیس ہزار کنال اراضی پر ہنجراؤں نے شکارگاہ بنا رکھی تھی اب وہ اقتدار سے فارغ ہوئے ہیں تو تحریک انصاف کا ایم پی اے‘ جو پنجاب کی ایک بہت بڑی شخصیت کے قریبی آدمی ہونے کا دعویدار ہے‘ اس جنگل پر قبضے کا متمنی ہے اور اسی کے آدمی اس جنگل کو بار بار آگ لگا رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ ایک نیک نام‘ نجیب اور نہایت ہی صاف ستھرے افسر ہیں‘ انہوں نے اس جنگل کے سابقہ قابضوں سے گزشتہ کئی سال کے بقایا جات ادا کرنے کا نوٹس بھی دیا ہے اور اس جنگل کو کسی نئے قبضہ گروپ سے بچانے کیلئے بھی کوشاں ہیں لیکن ایسے کاموں کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ ملتان کا ڈپٹی کمشنر بھی اسی قسم کی جرأت آمیز حرکتوں کی بنا پر فارغ ہو گیا ہے۔ اس ملک میں بڑے لوگوں کو غلط کاموں سے روکنے کا انجام ایک حقیقت ہے لیکن کئی لوگوں کے سر میں ابھی تک ایمانداری‘ میرٹ اور ضابطے کا سودا سوار ہے۔ یہ ملتان کا قصہ تھا لیکن یہاں ہر شہر ملتان ہے اور ہر جگہ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اللہ ہم ملتانیوں پر اور آپ سب غیر ملتانیوں پر اپنا کرم کرے۔ میں نے پوری کوشش کی تھی کہ یہ کالم سیاسی نہ ہو لیکن ان حالات میں میری کوشش کی کیا مجال ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں