"KMK" (space) message & send to 7575

جنگل کی محبت اور خواری…(2)

پاکستان میں درختوں کی تعداد اور آبادی کی رفتار میں تناسب معکوس ہے۔ ہر گزرتے ہوئے دن یہ تناسب مزید خراب ہو رہا ہے۔ اللہ مجھے کسی فتوے سے محفوظ رکھے مگر آبادی کے غبارے میں جس بری طرح ہوا بھری جا رہی ہے یہ کسی روز بڑے زور سے پھٹے گا اور میرا مالک کرم فرمائے‘ اس کام میں زیادہ دیر نظر نہیں آ رہی۔ موٹروے ایم سولہ سے چکدرہ اترے اور پھر مسلسل آبادی اور نہ ختم ہونے والے بازار سے ہی گزرتے رہے۔ یہی حال تھانہ سے مینگورہ تک تھا اور پھر چل سو چل۔ مینگورہ اور فضا گٹ بلکہ منگلور تک لگتا تھا کہ مینگورہ ہی چلتا جا رہا ہے۔ درمیان میں کہیں کہیں باغات وگرنہ مکان اور دکانیں۔ پینتالیس سال قبل جب میں اور منیر چودھری ادھر آئے تھے تب چکدرہ موڑ پر ایک آدھ دکان تھی۔ یہ دکان بھی صرف بسوں کے رکنے پر سواریوں کیلئے سگریٹ اور بوتل جیسی عیاشی کے کام آتی تھی۔ یہاں سے سوات اور دیر جانے کا راستہ الگ ہوتا تھا۔ مالاکنڈ درگئی سے آگے جو سڑک دائیں مڑتی تھی وہ مینگورہ چلی جاتی تھی اور سامنے دریائے سوات کو پل کے ذریعے پار کر کے دیر کی جانب چلے جاتے تھے۔ دیر سے آگے چترال اور کافرستان کیلئے بھی یہی واحد زمینی راستہ تھا۔ چکدرہ سے تھوڑا پہلے بائیں ہاتھ پر اوپر پہاڑی پر ایک بڑے سے پتھر پر سفید چونے سے Churchill Hill لکھا نظر آتا تھا۔ برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل مالاکنڈ کے شہرہ آفاق محاصرے کے دوران پہاڑی کے اوپر اس چھوٹی سی پوسٹ پر مقیم رہا۔
26جولائی 1897ء کو شروع ہونے والا یہ آپریشن دواگست کو اختتام پر پہنچا اور انگریز فوج کو درہ مالاکنڈ اور چکدرہ کا مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا۔ یہاں بڑی خونریز جنگ ہوئی اور دونوں اطراف سے بھاری جانی نقصان ہوا۔ یوسف زئی قبیلے کو اس جنگ میں شکست ہوئی۔ اس محاصرے کے دوران چرچل نے بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ اپنی یاداشتیں بعد میں ''ڈیلی دی ٹیلی گراف‘‘ میں پانچ پونڈ فی کالم کے معاوضے پرلکھیں۔ ان کالموں کا مجموعہ چرچل کی یہ اولین کتاب کی صورت میں The Story of the Malakand Field Forceکے نام سے شائع ہوا۔ پہاڑی کے اوپر یہ چھوٹی سی پتھر سے بنی ہوئی برجی نما پوسٹ سڑک سے گزرتے ہوئے اوپر سر اٹھائیں تو نظر آتی تھی۔ ایک دو بار سوچا کہ اوپر جا کر اسے دیکھا جائے مگر پتا چلا کہ یہ جگہ ممنوعہ ایریا میں شامل ہے۔ عرصہ بعد جب اس قابل ہوئے کہ یہاں جا سکیں تب اتنی اونچائی پر جانے کی ہمت نہ رہی۔ اس بار باوجود کوشش کے یہ پوسٹ کہیں نظر نہ آئی۔ نئی سڑک کا راستہ پہلے راستے سے بہت مختلف تھا اور موٹروے درہ مالاکنڈ کی چڑھائی چڑھے بغیر تین سرنگوں کے طفیل نیچے ہی نیچے سے چکدرہ پہنچ گئی۔ ایک زمانہ تھا کہ جب چکدرہ پہنچنے کیلئے مردان سے تخت بھائی، شیر گڑھ، سخا کوٹ اور درگئی کے راستے سے بٹ خیلہ سے ہوتے ہوئے چکدرہ پل سے پہلے ہی مینگورہ کی طرف مڑ جاتے تھے۔ چکدرہ گاؤں دریائے سوات کے پل کے دوسری طرف رہ جاتا تھا۔ درگئی سے گزرتے ہوئے دائیں طرف شاید پاکستان کا سب سے پرانا ہائیڈل پاور پروجیکٹ مالاکنڈ درگئی پن بجلی گھر نظر آتا تھا۔ یہ وہ بجلی گھر تھا جس کا ذکر ہم ہائی سکول میں معاشرتی علوم کی کتاب میں پڑھتے تھے۔ اب نئی موٹروے کے طفیل سفر مختصر، آسان اور آرام دہ ہو گیا ہے لیکن سخاکوٹ کا بندوقوں بھرا بازار، مالاکنڈ درگئی پن بجلی گھر اور چرچل ہل اس دوران نظر کی دسترس سے نکل گئی ہیں۔
مینگورہ سے بحرین کی سڑک کھلی ہو گئی ہے لیکن درمیان میں آنے والے شہروں اور بازاروں نے سڑک کے کھلے ہونے کے باوجود اس کے ثمرات کو کسی حد تک زائل کر دیا ہے۔ اسی طرح درمیان میں چار جگہوں پر انتہائی تنگ پہاڑی موڑوں کو سیدھا کرنے کی غرض سے ہونے والے کام کے باعث یہاں کافی دیر تک ٹریفک میں پھنسے رہے؛ تاہم امید ہے کہ جب یہ کام مکمل ہو جائے گا تو مزید آسانی ہو جائے گی لیکن سفر کی یہ آسانی جہاں ایک طرف نعمت ہے تو دوسری طرف ایک مصیبت بھی ہے اور یہ کہ سفر کی آسانی نے بے تحاشا سیاحوں کی آمد کا جو دروازہ کھولا ہے اس نے علاقے کا سارا قدرتی حسن اور ماحول تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ مردان سے سوات پہنچتے ہوئے کبھی گھنٹوں لگ جاتے تھے۔ اس دوران سخاکوٹ سے بٹ خیلہ تک کا پہاڑی موڑوں سے بھرا ہوا سفر چکرا کر رکھ دیتا تھا۔ اب سفر تو آسان ہے لیکن گندگی اور آلودگی نے سارا حسن اور خوبصورتی برباد کر کے رکھ دی ہے۔
قارئین! اسے میری مجبوری سمجھ کر معاف کر دیجئے گا۔ میں ماضی سے جڑا ہوا شخص ہوں۔ مجھے اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ میں غلط زمانے میں پیدا ہوا ہوں ‘مگر کیا کروں؟ اس زمانے کا انتخاب میں نے از خود نہیں کیا۔ دورانِ سفر میں ہر چیز کو ماضی کی نظر سے دیکھتا ہوں اور موازنہ کرتا ہوں۔ اس سے اندازہ لگاتا ہوں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اسے میری بدقسمتی کہیں کہ صورتِ حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں اور جس چیز کا بھی ماضی سے موازنہ کرتا ہوں سوائے دکھ، کوفت اور جھنجھلاہٹ کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
میں خدانخواستہ ٹورازم کے بڑھنے کے خلاف نہیں مگر ٹور ازم بڑھانے سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ سیاحوں کی تعداد تو بڑھائی جائے مگر باقی سارے معاملات جوں کے توں رہنے دیں۔ ایک بڑا پرانا آفاقی قانون ہے کہ قدرت کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں لیکن ادھر صورتِ حال یہ ہے کہ دریائے سوات کے اندر تجاوزات کی بھرمار ہو چکی ہے۔ ہوٹلوں نے دریا کے اندر تک اپنی حدود بڑھا لی ہے۔ ہوٹلوں کا سارا سیوریج اور گند اس دریا میں جا رہا ہے۔
میں آپ سے اپنے ماضی سے جڑے ہونے کی پہلے ہی معذرت کر چکا ہوں۔ راستے میں جب بحرین سے گزرے تو میں نے شوکت کو کہا کہ وہ مجھے بازار کے شروع میں اتار دیں اور خود بازار کے پار جا کر گاڑی میں میرا انتظار کریں۔ میں اس بازار سے پیدل گزرنا چاہتا ہوں اور اس بازار کو پینتیس سال بعد دوبارہ اسی نظر سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ تب بازار تھاہی کتنا؟ بڑی توپ چلائیں تو کہہ لیں ستر اسی گز لمبائی ہوگی کل بازار کی۔ بازار کے عین درمیان میں ایک پل تھا اور اوپر سے ایک پہاڑی نالا آ کر دریائے سوات میں ملتا تھا۔ یہ درال نالا تھا۔ درال ڈنڈ سے شروع ہونے والا ایک صاف شفاف اور پتھروں سے سر ٹکراتا جھاگ اڑاتا ہوا تندو تیز نالا۔ بازار والی سڑک کے نیچے سے گزر کر یہ نالا ایک حیران کن حد تک عظیم الجثہ پتھر سے ٹکراتا تھا اور پھر دو حصوں میں تقسیم ہو کر دریا میں مدغم ہو جاتا تھا۔ اس پتھر کے بائیں طرف پانی گزرنے کا راستہ تھوڑا چھوٹا تھا اور دائیں طرف والا راستہ کافی بڑا تھا۔ بایاں راستہ کنکریٹ سے بند کر کے اسے بازار سے ملا دیا گیا تھا اور اس پر مسجد تعمیر کر دی گئی تھی۔ اس جگہ کے بند ہونے سے پورے نالے کا رخ ہی تبدیل ہو گیا اور اس وجہ سے چند سال پہلے سیلاب آیا تو سب کچھ بہا کر لے گیا۔ نیچے دریا کی جگہ پر پتھر ڈال کر پارکنگ بنائی گئی تھی۔ پل کے ساتھ والی گلی میں جا کر آبشار ہوٹل کا دریافت کیا تو پتا چلا کہ ہوٹل کو اسی سیلاب میں کافی نقصان پہنچا تھا اور تب سے بند ہے۔ یادوں کا ایک ریلا آیا اور دل اداس ہو گیا۔
صاف ستھرا اور چھوٹا سا گاؤں نما بحرین بے ہنگم اور بلا منصوبہ بننے والی دکانوں اور ہوٹلوں کے باعث ایک ناقابلِ یقین حد تک گنجان آباد کثیر المنزلہ ناقابل رہائش قصبے میں بدل چکا تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں