"KMK" (space) message & send to 7575

کنٹونمنٹ بورڈ کا نتیجہ اور مستقبل کا نقشہ

کالم تو کسی اور موضوع پر لکھنا تھا مگر کیا کروں‘ ان کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشنز نے رنگ میں بھنگ ڈال دی ہے اور درمیان میں آن کودے ہیں۔ ویسے تو پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور میں بھی پی ٹی آئی کو ان انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ اور راولپنڈی جیسے بڑے کنٹونمنٹ میں بھی مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی کو پچھاڑا ہے‘ لیکن جو برا حال ملتان میں ہوا وہ تو بذات خود جائے عبرت ہے۔ اب لاہور کینٹ کو دیکھیں تودس میں سے 7 نشستیں لے کر مسلم لیگ (ن) نے میدان مار لیا‘ لیکن بہرحال پی ٹی آئی نے تین نشستوں پر کامیابی سمیٹ کر اپنی موجودگی ثابت کر دی۔ ممکن ہے ایک دو سیٹوں پر پارٹی درست امیدوار کا انتخاب نہ کر سکی ہو لیکن دل کی تسلی یا خود کو کسی حد تک مطمئن کرنے کے لیے ایسے دلائل دیے جا سکتے ہیں‘ تاہم والٹن کینٹ لاہور اور راولپنڈی کینٹ کا کیا کیا جائے جہاں معاملہ بے حد خراب رہا اور پی ٹی آئی کو قریب قریب وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی حال ملتان کا ہے۔
ملتان میں کنٹونمنٹ بورڈ کی کل دس میں سے نو نشستوں پر آزاد امیدوار اور ایک نشست پر مسلم لیگ (ن) کا امیدوار کامیاب ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کو یہاں ایک سیٹ بھی نہیں مل سکی۔ اب اس کی جو مرضی وجوہات اور تاویلات پیش کی جائیں‘ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملتان کنٹونمنٹ سے پی ٹی آئی کا مکمل صفایا ہو گیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم تھی۔ اگر ٹکٹیں درست طریقے سے تقسیم کی جاتیں تو اتنا برا حال نہ ہوتا۔ ملتان کنٹونمنٹ کے لیے ٹکٹیں تقسیم کرنے کا کل اختیار ملتان شہر سے قومی اسمبلی کے رکن اور چیف وہپ عامر ڈوگر کے ہاتھ میں تھا اور اس نے اپنے اس اختیار کا کھل کر استعمال کیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
عامر ڈوگر نے ٹکٹیں تقسیم کرتے وقت زمینی حقائق اور امیدواروں کی اپنے علاقے میں مقبولیت کو سامنے رکھنے کے بجائے پسند ناپسند کی بنیاد پر ٹکٹیں تقسیم کیں۔ اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ کل کلاں کینٹ بورڈ بنتا ہے تو وہ کنٹونمنٹ بورڈ نہ ہو بلکہ ڈوگر کا ذاتی دوستوں اور تعلق داروں کا بورڈ ہو‘ یعنی گھر کا کنٹونمنٹ بورڈ۔ یہی وہ شوق تھا جو پی ٹی آئی کو ملتان میں لے ڈوبا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ملتان کنٹونمنٹ بورڈ کے دس کے دس وارڈ ملتان کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 میں اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 213 میں ہیں۔ قومی اسمبلی کا اس حلقہ سے رکن احمد حسین ڈیہڑ ہے اور صوبائی اسمبلی کا رکن وسیم خان بادوزئی ہے جبکہ عامر ڈوگر کا حلقہ این اے 155 ہے اور اس کا کنٹونمنٹ سے ٹکے کا بھی تعلق نہیں۔ حالیہ انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کا سارا اختیار ایک کمیٹی کے سپرد تھا۔ پہلے بننے والی کمیٹی کا چیئرمین عامر ڈوگر تھا جبکہ ارکان میں اس کا چھوٹا بھائی اور پی ٹی آئی کا سٹی صدر عدنان ڈوگر اور ساتھ میں عامر ڈوگر کا خاص آدمی عامر اعوان تھا۔ اس کمیٹی کا ایک ممبر رکن صوبائی اسمبلی وسیم خان بادوزئی تھا۔ بعد ازاں احمد حسین ڈیہڑ کے شور مچانے پر اس کمیٹی میں احمد حسین ڈیہڑ اور معین قریشی کو شامل کر لیا گیا۔ معین قریشی کا اس سارے حلقے سے کچھ لینا دینا نہیں تھا‘ صرف شاہ محمود قریشی سے رشتے داری کے طفیل اسے اس کمیٹی میں شامل تو کر لیا گیا مگر حیران کن بات یہ ہے کہ اس کمیٹی کا کبھی اجلاس ہی نہ ہوا اور عامر ڈوگر نے چار پانچ لوگوں کو اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت پی ٹی آئی کی ٹکٹیں جاری کر دیں جبکہ آدھے سے زیاد ہ وارڈ اوپن چھوڑ دیے تاکہ اپنی مرضی کے امیدواروں کو جتوایا جائے اور بعد ازاں اپنے گروپ کے زور پر بورڈ کو گھر کی لونڈی بنایا جائے‘ مگر ساری چالاکیاں ناکام ہوئیں اور ڈوگر کے نامزد کردہ امیدوار بری طرح شکست سے دوچار ہوئے۔
تفصیل میں جائیں تو وارڈ نمبر1 سے ڈاکٹر غلام فرید عامر ڈوگر کا امیدوار تھا۔ یہاں پی ٹی آئی کے اس امیدوار کو 198 ووٹ ملے جبکہ جیتنے والے رانا اشرف نے 719 ووٹ لیے اور دوسرے نمبر پر آنیوالے امیدوار کے ووٹوں کی تعداد 608 تھی۔ اسی طرح وارڈ نمبر3 سے پی ٹی آئی کے امیدوار(جو دراصل عامر ڈوگر کا امیدوار تھا) قلب عابد نے صرف 71 ووٹ لیے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اختر رسول نے یہاں سے 321 ووٹ لیے۔ وارڈ نمبر5 سے عامر ڈوگر کے نامزد کردہ امیدوار یعقوب شیرا کو 343 ووٹ ملے جبکہ اس کے مقابل دیگر تین امیدواروں نے بالترتیب 1229، 1115 اور 455 ووٹ لیے۔ پی ٹی آئی یعنی عامر ڈوگر کا امیدوار اس وارڈ میں چوتھے نمبر پر آیا۔ یہی حال وارڈ نمبر4 میں ہوا جہاں پی ٹی آئی (عامر ڈوگر) کے امیدوار سعید مونی نے 316 ووٹ لیے جبکہ جیتنے والے آزاد امیدوار نے 929 ووٹ لیے، یعنی پی ٹی آئی کے امیدوار سے لگ بھگ تین گنا۔
شاہ محمود قریشی تو اس سارے کھڑاگ کو دور سے دیکھتے رہے اور لطف لیتے رہے؛ تاہم احمد حسین ڈیہڑ نے عامر ڈوگر کو ملنے والے کلی اختیارات پر خاصا شور مچایا‘ لیکن اس کی کسی نے نہ سنی۔ عامر ڈوگر خدا جانے کن صلاحیتوں کی بنیاد پر عمران خان کی گڈ بکس میں ہے اور ملتان میں آج کل اس کی خاصی چل رہی ہے۔ کوئی زمانہ تھا‘ جب عامر ڈوگر کی فیملی گجر کھڈہ میں رہائش پذیر تھی اور اس کا آبائی گھر کنٹونمنٹ کے علاقے میں آتا تھا‘ اس نے اپنے اسی سابقہ استحقاق کو بطور حق شفعہ استعمال کرتے ہوئے کنٹونمنٹ بورڈ کی ٹکٹوں کی تقسیم کا اختیار سیف اللہ نیازی بوساطت خصوصی تعلق عمران خان حاصل کر لیا۔ اگر وہ یہاں کامیاب ہو جاتا تو اس کا سارا کریڈٹ وہ لے لیتا۔ اسی فرد واحد والے کریڈٹ کے چکر میں اب وہ اس ساری شکست کا واحد ذمہ دار ہے۔ اس الیکشن کے سلسلے میں عامر ڈوگر اور احمد حسین ڈیہڑ کا باہمی سیاسی اختلاف خاصا کھل کر سامنے آیا۔ یہ اختلاف تو ملتان کینٹ بورڈ کے انتخابات کے طفیل عوامی سطح پر سامنے آ گیا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملتان سے پی ٹی آئی کے چھ ارکان قومی اسمبلی ہیں اور دو لوگوں کے علاوہ کسی کی ایک دوسرے سے نہیں بنتی۔ ملتان شہر کے نواحی حلقہ این اے 154 سے رکن قومی اسمبلی احمد حسین ڈیہڑ کی اپنے ساتھ ملحقہ حلقہ این اے 155 اور 156 سے رکن قومی اسمبلی عامر ڈوگر اور شاہ محمود قریشی‘ دونوں سے نہیں بنتی اور موصوف وقتاً فوقتاً ہر دو حضرات کے خلاف بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ کسی زمانے میں عامر ڈوگر اور شاہ محمود قریشی کے درمیان گاڑھی چھنتی تھی اور اس کی واحد وجہ شاید یہ تھی کہ عامر ڈوگر حلقہ این اے 155 سے جاوید ہاشمی کے خلاف امیدوار تھا اور اس سے محبت کرنے کیلئے شاہ محمود کے نزدیک یہی ایک وجہ کافی تھی۔
حلقہ این اے 158 سے ابراہیم خان کی نہ شاہ محمود قریشی سے بنتی ہے اور نہ ہی ان کے گروپ سے۔ این اے 159 سے رکن قومی اسمبلی رانا قاسم نون ہے اور اس کا بھی یہی حال ہے تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ رانا قاسم نون، احمد حسین ڈیہڑ اور خود عامر ڈوگر کے متعلق شہر کے جاسوس ٹائپ حلقوں میں یہ بات سینہ بہ سینہ چل رہی ہے کہ یہ تینوں حضرات اگلے انتخابات میں اپنے سیاسی مستقبل کے لیے کسی اور طرف بھی دیکھ سکتے ہیں۔ این اے 159 میں دیوان عاشق بخاری اور لنگاہ گروپ کیا فیصلہ کرتا ہے؟ قاسم نون کا مستقبل اس سے وابستہ ہے۔ این اے 154 سے امیدواروں کا دارومدار اس بات پر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کس کو ٹکٹ دیتی ہے اور ہاں یاد آیا‘ میں نے کہا تھاکہ ملتان کے چھ ارکان قومی اسمبلی میں سے صرف دو ارکان قومی اسمبلی کی آپس میں بنتی ہے۔ اب یہ محض اتفاق ہے کہ این اے 155 اور این اے 156 سے دونوں ارکان قومی اسمبلی شاہ محمود قریشی اور زین قریشی آپس میں باپ بیٹا ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں