"KMK" (space) message & send to 7575

قصہ ایک شہرِ قدیم کا …(5)

بات دمدمے کی ہو رہی تھی۔ یہ دمدمہ ملتان شہر کا شاید سب سے بلند مقام ہے۔ یہاں سے سارا ملتان آپ کو اپنے قدموں پر پڑا دکھائی دیتا ہے۔ اس دمدمے سے بلند عمارت صرف اس کے شمال میں واقع قریب ہی رکن الدین عالم کا مزار ہے جس کا ذکر میں گزشتہ سے پیوستہ کالم میں کر چکا ہوں۔ اس دمدمے پر چڑھنے کیلئے نہایت ہی کشادہ سیڑھیاں تھیں جو آخر میں جا کر دائیں بائیں‘ دو حصوں میں بٹ جاتی ہیں۔ اس دمدمے سے ملتان شہر کا نظارہ عجب لطف دیتا تھا۔ دن کو اور طرح کا منظر نظر آتا تھا اور رات کو اور طرح کا۔ پرانا دمدمہ خاصا خستہ ہو چکا تھا اور اس کی شمالی دیوار خطرناک حد تک کمزور ہو گئی تھی۔ بارش ہوتی تو دمدمے کا فرش بیٹھ جاتا تھا۔ اس کو طریقے سے مرمت کیا جا سکتا تھا مگر یار لوگوں نے سارا دمدمہ گرا کر نئے سرے سے بنانے کا فیصلہ کیا۔ ممکن ہے یہ فیصلہ درست ہی ہو کہ خستگی اس نہج پر پہنچ گئی ہو کہ مرمت ممکن نہ ہو‘ مگر نئی تعمیر بھی انہی بنیادوں اور انہی خطوط پر ہونی چاہئے تھی جو اس قدیم دمدمے کو اس قلعے کے منظر نامے پر ابھارتی تھیں۔ لیکن ہوااس کے بالکل برعکس! قدیمی دمدمہ ڈھلوان دار دیواروں والا ایسا بلند برج تھا جو نیچے سے اوپر جاتا ہوا بتدریج چھوٹا ہوتا جاتا تھا۔ دیواروں کے درمیان سہارا دینے والے اضافی پشتے تھے اور یہ دمدمہ قلعے کی دیواروں اور فصیلوں کی موجودگی کے بغیر بھی اپنی طرزِ تعمیر کے باعث اس برباد شدہ قلعے کے ایک حفاظتی حصار کے طور پر اپنی موجودگی ظاہر کرتا تھا۔ قلعے ایسے ہی دمدموں کی موجودگی کے باعث قلعے نظر آتے ہیں۔ یہ دمدمہ اس قلعے پر باقی بچ جانے والی واحد ایسی شے تھی جو اس مٹی کے بلند و بالا ٹیلے پر برج کی صورت موجود تھی جس نے اس نام نہاد قلعے کو معتبر کیا ہوا تھا۔
سارا دمدمہ گرا دیا گیا اور ایک نیا دمدمہ تعمیر کیا گیا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو یہ دمدمہ‘ دمدمہ نہیں بلکہ دمدمے کے نام پر تہمت ہے۔ اس چوکور اور سیدھی دیواروں والی بے تکی اور بدوضع سی عمارت نے قلعے کی رہی سہی معمولی سی شناخت بھی برباد کر دی ہے۔ یہ نیا دمدمہ اپنی شکل و صورت اور تعمیر کے حوالے سے نہ تو قلعے کے منظرنامے سے میل کھاتا ہے اور نہ ہی قلعے کے روایتی تصور سے جڑا ہوا کوئی حفاظتی برج دکھائی دیتا ہے۔ کنزرویشن کے نام پر ہونے والی اس بربادی پر سر پیٹنے کو دل کرتا ہے مگر پھرسوچتا ہوں کہ اگرایسی باتوں پر سر پیٹنا شروع کر دیا تو پھر کوئی اور کام تونہیں ہوسکے گا۔ بقیہ ساری عمر سر پیٹتے ہی گزر جائے گی۔
اس عاجز نے اپنے بچپن میں رکن الدین عالم کے مقبرے کی کنزرویشن کا کام ہوتے دیکھا ہے۔ غالباً یہ کام آغا خان فاؤنڈیشن نے سرانجام دیا تھا۔ اس کام کیلئے اینٹوں کا ایک خصوصی بھٹہ لگایا گیا اور اس میں عین اسی سائز کی اینٹیں پکائی گئیں جو اس مقبرے میں استعمال ہوئی تھیں۔ مقبرے کی دیوار کیلئے چھوٹے سائزکی اینٹیں‘ فرش کیلئے بڑی اینٹیں۔ مقبرے کی مرکزی عمارت کیلئے اینٹوں کا سائز مختلف تھا۔ نیلی ٹائلوں کی تیاری کیلئے کاشی گربلائے گئے۔ مقبرے میں استعمال ہونے والے لکڑی کے شہتیر اسی لکڑی اور سائز کے استعمال کئے گئے جو صدیوں پہلے لگائے گئے تھے۔ ایک اینٹ نکالی گئی تواس کی جگہ اسی سائز کی ایک اینٹ لگائی گئی۔ سال ڈیڑھ سال کے مسلسل کام کے بعد مقبرہ دیکھا تو صرف اتنا محسوس ہوا کہ ہراینٹ چمکا دی گئی ہے اور ہر نیلی ٹائل دمکا دی گئی ہے۔ اصل پرانی تعمیر اور تعمیر ِنو میں بال برابر فرق نہیں تھا۔
یہی حال ملتان کی قدیمی عیدگاہ میں ہوا ہے۔ عیدگاہ کے ساتھ باہر والی سمت ایک چبوترہ تھا ‘میں نے وہ چبوترہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اب مجھے چبوترے پر موجود قبروں کی صحیح تعداد تو معلوم نہیں مگر چبوترے کے سائز سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں چار‘ چھ قبریں ضرور ہوں گی۔ اس جگہ پر احمد سعید کاظمی صاحب کی وصیت کے برعکس‘ ان کو دفن کر کے مزار بنا دیا گیا۔ ورثاء کا منصوبہ تھا کہ اس طرح دو کام ہو جائیں گے‘ ایک تو یہ کہ مقبرے کے برلب سڑک ہونے کے باعث مریدین کو آنے جانے کی آسانی ہوگی‘ مقبرہ زیادہ آباد رہے گا اور چڑھاوا کثرت سے وصول ہو گا۔ دوسری یہ کہ اوقاف کی یہ مسجد اس مقبرے کے طفیل کاظمی خاندان کی آبائی جائیداد بن کر رہ جائے گی اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ مسجد مکمل طور پر کاظمی صاحبان کی دسترس میں آ گئی۔ اس حد تک کہ قدیم اور تاریخی عیدگاہ کی مرمت وغیرہ کا کام بھی مسجد کے متولین نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور سرکاری اداروں کی اجازت یا منظوری کے بغیر ساری مسجد کی از خود مرمت کر دی گئی اور وہ بھی اس طرح کہ پرانی نیلی ٹائلوں کی جگہ جدید رنگدار چکنی ٹائلیں لگا کر عمارت کا سارا حسن برباد کر دیا۔ مسجد کے اندر گنبدوں کے نیچے کاظمی صاحبان نے اپنے جد امجد اور دادا حضور کے نام پینٹ کروا دیے۔ اصل عمارت کا حسن اور قدامت کا ستیاناس کر کے رکھ دیا۔ محکمہ آثارِ قدیمہ اور اوقاف والے سوئے رہے اور مغل بادشاہ محمد شاہ کے زمانے میں ملتان کے گورنر نواب عبدالصمد خان کی 1735ء میں تعمیر کردہ اس قدیمی شاہی عیدگاہ کا سارا حسن‘ شان و شوکت اور دبدبہ ختم ہو گیا۔ نہ کسی کو اس بربادی کا احساس ہے اور نہ ملال۔
جب ملتان کے تاریخی ورثے کی بحالی یا مرمت کیلئے کہیں سے پیسے آتے ہیں‘ فنکاراپنا اپنا تیر کمان لے کراسے شکار کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسے کہنہ مشق شکاری اپنے شکار کو پھنسانے کیلئے چارہ لگاتے ہیں قلعہ کہنہ قاسم باغ ان شکاریوں کاایسا ہی چارہ ہے جسے لگا کر وہ شکار گھیرتے ہیں۔ ایک‘ دواین جی اوز پھراس شکار کیلئے اپنے تعلقات اور تجربے کے ساتھ اس شکار کا ہانکا شروع کرتی ہیں اور شکار کو گھیر کر مار لیتی ہیں۔ قلعہ کہنہ قاسم باغ ایسا چارہ ہے جس کی بنیاد پر شکار پھانسا جاتا ہے۔ ساری فزیبلٹیوں میں دو قسم کے ''لاوے‘‘ لگائے جاتے ہیں۔ یہ ''لاوا‘‘ کیا ہوتا ہے؟ بٹیروں یا تیتروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور بلانے کی غرض سے شکاری اپنے ساتھ جو ''بلارے‘‘ بٹیر یا تیتر لاتے ہیں انہیں شکاری اپنی زبان میں ''لاوا‘‘ کہتے ہیں۔ قلعہ کہنہ قاسم باغ پر دو قسم کے لاوے لگائے جاتے ہیں ایک مذہبی اور دوسرا لبرل لاوا۔ مذہبی لاوے کے طورپر بہاء الدین زکریا اور رکن الدین عالم کے مقبرے اور لبرل لاوے کے طور پر مسمار کیا جانے والا پرہلاد مندر۔ اب دونوں فریق راضی ہو جاتے ہیں اور اس باہمی رضامندی کے رومال کے نیچے سے فنکار اپنا کبوتر نکال لیتے ہیں اور تماشائیوں کو پتا ہی نہیں چلتا کہ ہاتھ کی صفائی کہاں دکھائی گئی ہے۔
والڈ سٹی کیلئے ورلڈ بینک سے ملنے والے حالیہ قرضے کو ایک بار پھر انہی دو مزاروں‘ پرہلاد مندر اور قلعے کی تزئین نو کیلئے لاوے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے حالانکہ ہر دو مزارات کی تعمیر و مرمت کیلئے وہاں پڑے ہوئے اوقاف کے چندے والے صندوق بھی موجود ہیں اور مخدوم شاہ محمود قریشی کو ملنے والے نذرانوں کی دولت بھی موجود ہے؛تاہم ان کی تزئین نو کیلئے ورلڈ بینک سے قرضہ لیا جا رہا ہے جسے آنے والے دنوں میں ہماری اولاد نے ادا کرنا ہے۔ ہماری نسل تو ان قرضوں کی غتر بود دیکھنے کیلئے زندہ ہے۔ ویسے بھی ہر دو مزارات الحمد للہ نہایت اچھی حالت میں ہیں‘ گمان ہے کہ اگر کنزرویشن والوں کے ہاتھ لگ گئے تو مزارات کی شکل اور فنکاروں کی مالی حالت دونوں تبدیل ہو جائیں گی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں