"KMK" (space) message & send to 7575

سارے کردار اس بار بھی فرضی ہیں

چند روز پیشتر برادرم رئوف کلاسرا نے مرحوم سرائیکی دانشور محمود نظامی پر ایک شاندار کالم لکھا۔ یہ میری بدقسمتی ہے کہ میں کبھی محمود نظامی کو نہیں ملا تھا؛ تاہم میں محمود نظامی سے نہ ملنے کے باوجود اس کی شخصیت اور دانش سے مکمل طور پر نہ سہی کسی حد تک آگاہ ہوں۔ میرا محمود نظامی سے غائبانہ تعارف دو عشرے پہلے ہوا اور غائبانہ ہونے کے باوجود وہ ایسا مکمل اور جامع تعارف تھا کہ بنا اسے ملے اور بغیر اسے دیکھے اس کی پوری شخصیت میرے سامنے عیاں ہو گئی۔ کھرا بے لاگ، اشارے اور کنائے سے بخوبی آگاہ اور بات کہنے کے فن میں طاق‘ تب میں نے ایک کالم لکھا۔ اس کالم کا عنوان تھا: سارے کردار فرضی ہیں۔ استاد محمود نظامی کی یاد میں یہ کالم تھوڑے سے اختصار کے ساتھ دوبارہ پیش خدمت ہے۔
اختصار صرف اس حصے میں کیا ہے جہاں محمود نظامی قیام پاکستان کا بنیادی جواز ہندوؤں کی دال سے رغبت اور گوشت نہ کھانے کو بنا کر دال کی مذمت اور گوشت کی مدح سرائی کرتا ہے ۔ یہ سب کچھ رؤف کلاسرا تفصیل سے لکھ چکا ہے۔ اٹھارہ سال پرانا کالم مکرر تحریر کیا ہے۔ آپ یقین کریں یہ واقعہ سو فیصد حقیقی ہے تاہم خوفِ فسادِ خلق کے مارے سب کرداروں کے نام فرضی لکھ رہا ہوں۔ میں اس قصے کے راوی کا نام رئوف کلاسرا فرض کر رہا ہوں۔ اگر پاکستان میں کوئی رئوف کلاسرا ہے تو یہ محض اتفاق ہو گا اور اس فرضی رئوف کلاسرا کا اصلی رئوف کلاسرا سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ ویسے اس قصے میں کردار تین ہی ہیں۔ ایک راوی یعنی فرضی رئوف کلاسرا ہے۔ دوسرا کردار ایک سرائیکی دانشور ہے جس کا نام ہم محمود نظامی فرض کر لیتے ہیں جبکہ تیسرا کردار ایک سرائیکی قوم پرست رہنما ہے جس کا نام ہم تاج لنگاہ فرض کر لیتے ہیں۔ اس قصے میں ایک دیو بھی ہے۔ جہاں باقی سارے کرداروں کے نام فرضی ہیں تو ہم اس دیو کا نام بھی ملتانی دیو فرض کر لیتے ہیں۔
ایک روز استاد محمود نظامی سرائیکی قوم پرست لیڈر تاج لنگاہ کے گھر بیٹھا تھا۔ اچانک تاج لنگاہ نے پوچھا کہ نظامی! سرائیکی نیشنلزم کا کیا مستقبل ہے؟ (یہ ساری گفتگو سرائیکی میں ہو رہی تھی تاہم میں اس کا اُردو ترجمہ پیش کروں گا)۔ محمود نظامی نے جواب دینے کے بجائے تاج لنگاہ سے گولڈلیف کی سگریٹوں کا مطالبہ کردیا۔ تاج لنگاہ نے یہ مطالبہ سن کر پہلے تو استاد نظامی پر بڑی گرمی جھاڑی، اس کے ناجائز مطالبات کی پُرزور مذمت کی اور پھر اسے ہتھوڑا ٹائپ کی ایک سگریٹ پکڑا دی۔ استاد نظامی نے اس سگریٹ کو ایک دو بار الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر بادل نخواستہ اسے سلگا کر کش لگاتے ہوئے کھانس کر گھٹیا سگریٹوں کی شان میں قصیدہ کہا اور پھر کہنے لگا: لنگاہ صاحب! آپ نے سرائیکی نیشنلزم کا مستقبل پوچھا ہے تو میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں۔
استاد سنانے لگا کہ ہماری دادی ہمیں رات کو اپنی چار پائی پر بیٹھ کر کہانی سنایا کرتی تھی کہ ملک فارس کا ایک بادشاہ تھا، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ یہ بادشاہ بڑا عادل اور رحمدل تھا۔ رعایا اس سے بڑی محبت کرتی تھی۔ بادشاہ کی کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی ایک بیٹی تھی جس کا اصل نام تو نیلوفر تھا لیکن چونکہ اس قصے کے سارے کردار فرضی ہیں‘ لہٰذا مجبوراً اس شہزادی کا نام بھی ہم شہزادی گل رخ فرض کر لیتے ہیں۔ (شکر ہے کہانی میں استاد محمود نظامی نے بادشاہ کا نام نہیں بتایا تھا وگرنہ اسے بھی فرض کرنا پڑتا)۔ خیر بات ہو رہی تھی شہزادی گل رخ جو نہایت حسین و جمیل تھی۔ ایک روز وہ نہانے کے بعد بال سکھانے کی غرض سے اپنی ست ماڑی (سات منزلہ محل) کی چھت پر کھڑی تھی کہ اوپر سے ملتانی دیو گزرا۔ ست ماڑی پر اتنی حسین و جمیل شہزادی دیکھ کر دیو کا اس پر دل آ گیا اور وہ اسے اٹھا کر ملک پرستان لے گیا۔ بادشاہ اپنی بیٹی نیلوفر، میرا مطلب ہے گل رخ کی جدائی میں رو رو کے اندھا ہو گیا۔ ساری رعایا پریشان تھی کہ کیا کرے۔ جب شہزادی کے منگیتر عدن کے شہزادے کو یہ پتا چلا کہ دیو شہزادی کو اٹھا کر لے گیا ہے تو وہ اس کی تلاش میں عدن سے پرستان کی طرف چل پڑا۔ چلتے، چلتے، چلتے (فاصلے کو بہت زیادہ ظاہر کرنے کیلئے استاد محمود نظامی نے تقریباً دس بارہ بار چلتے چلتے استعمال کیا) شہزادہ اس سفر کے دوران ایک جنگل میں پہنچا تو اسے ایک نابینا فقیر ملا۔ فقیر نے شہزادے سے جنگل پار کروانے کی درخواست کی۔ شہزادے نے فقیر کو اپنے ساتھ گھوڑے پر بٹھایا اور جنگل پار کروا دیا۔ شہزادے نے فقیر کو کھانے کیلئے روٹی دی اور زادِ راہ کے طور پر دس اشرفیاں بھی پیش کیں۔ شہزادے کی غریب پروری اور سخاوت کو دیکھ کر فقیر نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور کہنے لگا: میں تمہیں آزما رہا تھا، تم امتحان میں پورا اترے ہو۔ یہ کہہ کر فقیر نے شہزادے کو ایک ٹوپی دی، جسے پہن کر لوگوں کی نظروں سے غائب ہوا جا سکتا تھااور ایک تلوار دی، جس سے دیو کو قتل کیا جا سکتا تھا۔ پھر فقیر نے شہزادے کو ملک پرستان اور دیو تک پہنچنے کا راستہ بتایا اور راستے میں پیش آنے والی مشکلات اور ان پر قابو پانے کے طریقے بھی سمجھائے۔
شہزادہ جنگلوں، صحرائوں، بیابانوں، پہاڑوں، میدانوں اور دریائوں کو پار کرتا بالآخر جادونگری میں داخل ہوا جہاں جنوں، بھوتوں اور چڑیلوں نے ڈرانے کی کوشش کی لیکن شہزادے نے جادوئی ٹوپی پہن لی اور تمام بلائوں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ جادو نگری کے بعد وہ کوہ قاف پہنچا اور نادیدہ طاقتوں سے بچ کر منزلیں طے کرتا ہوا پرستان جا پہنچا۔ کانے دیو سے ملتانی دیو کا پتہ دریافت کرکے جب وہ اس کے غار تک پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ غار کے منہ پر ملتانی دیو بیٹھا ہے، اس کے سامنے روٹیوں کا بڑا سا تھمب (ڈھیر) ہے اور ساتھ ہی ایک بہت بڑا دال کا کناں (دیگچہ) پڑا ہے اور وہ ایک ایک نوالے میں بیس بیس روٹیاں دال کے ساتھ کھا رہا ہے۔ اتنا کہہ کر استاد محمود نظامی خاموش ہو گیا۔
تاج لنگاہ نے محمود نظامی سے پوچھا: اگوں کیا تھیا؟ (آگے کیا ہوا؟)۔ محمود نظامی کہنے لگا: اگوں جو تھیا اونکوں تا بھا لا (آگے جو ہوا اس کو تو آگ لگا)۔ بئی قوماں دے دیہہ ہوندن، آدم بو! آدم بو کریندن، بندے کھاندن، خون پیندن، ساڈی ڈاڈی دی کہانی آلا دیہہ دال نال روٹی کھاندے (دوسری قوموں کے دیو ہوتے ہیں جو آدم بو! آدم بو کرتے آتے ہیں، انسانوں کو کھاتے ہیں، خون پیتے ہیں جبکہ ہماری دادی کی کہانی والا دیو دال روٹی کھاتا ہے) پھر تاج لنگاہ کو مخاطب کرکے کہنے لگا: لنگاہ صاحب! جس قوم دا دیہہ بندے پاڑن دی جاتے دال روٹی کھاندا ہووے تے لیڈر اپنے دانشوراں کوں گولڈلیف دی جاتے ہتھوڑے دا سگریٹ پلاوے۔ اتھاں سرائیکی نیشنلزم دا مستقبل کیا تھی سکدے؟ (لنگاہ صاحب! جس قوم کا دیو بندے چیرنے پھاڑنے کے بجائے دال سے روٹی کھائے اور لیڈر اپنے دانشوروں کو گولڈلیف کی جگہ ہتھوڑے کا سگریٹ پلائے بھلا وہاں سرائیکی نیشنلزم کا مستقبل کیا ہوگا؟) یہ کہہ کر محمود نظامی اٹھا اور بغیر کسی سے ہاتھ ملائے چل پڑا۔
قارئین! اس کالم کے چھپنے پر سرائیکی قوم پرستوں کو بڑا غصہ آیا مگر چونکہ اس کے سارے کردار فرضی تھے‘ وہ اپنا غصہ کس پر اتارتے؟ لہٰذا یہ سارا غصہ مجھ غریب پر اترا۔ اب بھی امید ہے کہ ان کا سارا غصہ مجھ پرہی اترے گا کیونکہ سارے کردار تو اب بھی فرضی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں