"KMK" (space) message & send to 7575

حکمت (علم) مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے!

کالم کا قاری بڑا آزاد پنچھی ہوتا ہے۔ جیسا چاہے کالم کا مفہوم نکال لے اور جیسا چاہے تبصرہ فرما دے۔ نہ کوئی روک تھام ہے اور نہ کوئی قدغن۔ اس کی مرضی اور موڈ پر منحصر ہے کہ وہ تحریر کو کس پہلو سے دیکھے اور پھر یہ اس کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس کو پسند فرماتے ہوئے کالم نگار کو دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بخش دے یا پھر تنقید کی تلوار سے اس کا تیاپانچہ کر دے۔ اگر یہ عاجز دیار غیر و عالم کفر میں بیٹھ کر کفار کی کوئی خوبی بیان کر دے تو بجائے اس خوبی سے سبق حاصل کرنے یا اسے اختیار کرنے کا سوچا جائے بعض قارئین اس سے یہ مطلب اور مفہوم نکالتے ہیں کہ کالم نگار عالم کفر کی چکا چوند سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ باقاعدہ مرعوب ہے اور اب وہ بقیہ راسخ العقیدہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی غرض سے یہ کہانیاں سنا رہا ہے۔ بعض قاری اس عاجز کی امریکہ یاترا کو بنیاد بنا کر طنز کے تیر چلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ لوگ امریکی یا مغربی معاشرے کی تعریف کرکے ان کا وہ احسان اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں جو انہوں نے آپ کو اپنے ملک کا ویزہ دے کر فرمایا ہے۔ پھر اپنی مرضی کا یہ مفہوم نکالنے کے بعد قاری اپنے جذبۂ ایمانی کی تلوار سونت لیتا ہے اور کالم نگار پر چڑھ دوڑتا ہے۔
آقائے دو جہان، خاتم النبیین رحمت عالمﷺ نے فرمایا کہ حکمت (علم) مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے، یہ جہاں سے ملے اسے حاصل کر لو۔ نہ تو یہ عاجز عالم دین ہے اور نہ ہی محدث، لیکن اس سادہ سی بات کی گہرائی تک پہنچنے کیلئے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ آپﷺ کے فرمان ایسے سادہ، قابل عمل اور زندگی سے قریب تر ہیں کہ سمجھنا انتہائی آسان؛ تاہم ہم نے ان پر عمل کرنا مشکل سمجھ لیا ہے۔ لہٰذا سب کچھ ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اس حدیث میں اس عاجز کو دو باتیں بہت ہی اہم لگتی ہیں اور ان کی گہرائی و گیرائی تک جائزہ لیں تو اپنی کم عقلی، کم مائیگی اور محدود سوچ پر افسوس ہوتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے حکمت (علم) مومن ہی کی چیز ہے جو اس سے کھو گئی ہے‘ اور دوسری یہ کہ یہ جہاں سے ملے، یعنی اس کیلئے یہ قید نہیں کہ آپ نے اپنی کھوئی ہوئی حکمت کس سے اور کہاں سے واپس حاصل کرنی ہے۔ اس میں مذہب، علاقہ، رنگ و نسل اور قوم کی کوئی پابندی نہیں۔ آپ کا میدان کل عالم ہے، ساری دنیا ہے۔
حکمت (علم) کیا ہے؟ یہ دانائی اور بھلائی ہے۔ یہ سراسر خیر کا نام ہے۔ اگر اس میں بھلائی اور خیر نہیں تو یہ علم نہیں، جہالت اور گمراہی ہے۔ اگر بندہ علم میں پوشیدہ خیر اور بھلائی سے محروم ہو جائے تو وہ ابوالحکم نہیں رہتا بلکہ ابوجہل بن جاتا ہے۔ علم اگر خیر، بھلائی اور آسانی نہیں دیتا تو وہ علم نہیں جہالت ہے۔ بقول حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ علم بغیر عمل بیکار ہے اور عمل بغیر خلوص آزار ہے۔
ہمارے مقررین اور محققین یہ لکھتے اور بیان کرتے ہوئے بہت فخر محسوس کرتے ہیں کہ جب قرطبہ کی گلیاں سرکاری طور جلنے والے چراغوں کی روشنی سے بقعہ نور بنی ہوئی تھیں تب لندن جیسے شہر کے گھر اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ یہ بات تاریخی طور پر سو فیصد درست ہے لیکن ابو عامرالمنصور کے زمانے کے قرطبہ کی روشنیوں پر ایک ہزار سال بعد فخر کرتے ہوئے اور پدرم سلطان بود کا نعرہ لگانے والے ہمارے مقررین یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ آخر کیا وجہ ہے‘ قرطبہ میں جلنے والے ہمارے چراغوں کو بجھے تو آج نو سو نوے سال ہو چکے ہیں لیکن لندن کی روشنیوں کی چکاچوند روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں کہ بو علی سینا، رازی، فارابی، ابن رشد اور جابر بن حیان کی جراحی، کیمیا، طبیعات، ریاضی اور فلسفے پر لکھی گئی کتابیں اور تحریریں صدیوں تک یورپ کی جامعات اور تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی رہیں اور انہی علوم کو بنیاد بنا کر یورپ نے مادی اور سائنسی ترقی کی لیکن ہمارے خطیب اور مقررین یہ نہیں بتاتے کہ ہم اس قعر مذلت میں کس طرح گرے؟ ہم نے اپنا سارا علم اور تحقیق مغرب کے سپرد کیا اور خود ہاتھ جھاڑ کر بیٹھ گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اپنی اس کھوئی ہوئی میراث کے دوبارہ حصول کی غرض سے کہ جس کا فرمان میرے آقا و مولاﷺ نے دیا ہے‘ چند حرف لکھے جائیں تو طعنہ ملتا ہے کہ یہ لوگ مغرب کی تہذیب سے مرعوب ہیں اور نہ صرف خود مرعوب ہیں بلکہ دوسروں کو بھی مرعوبیت کی تعلیم دے رہے ہیں۔ یہ مرعوبیت نہیں، بلکہ اپنی میراث کے کھو جانے کا افسوس ہے اور پھر اس میراث کے دوبارہ حصول سے پہلوتہی کا ملال ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اول تو اس میراث کے کھو جانے کا احساس ہی نہیں اور اگر یہ احساس کسی حد تک موجود ہے تو کم از کم اس کے دوبارہ حصول کا نہ تو کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی کوئی کوشش۔
قرطبہ کے عباس ابن فرناس نے آج سے ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پہلے اڑنے کی کوشش کی تھی۔ اس کا پروں والا مجسمہ آج بھی بغداد ایئرپورٹ کے باہر لگا ہوا ہے اور اس کے نام کی ایک سڑک قرطبہ میں اس ہوا باز (Aviator) کی یاد دلاتی ہے۔ برسوں پہلے میں فیاض بٹ کے ساتھ اس سڑک سے گزر رہا تھا تو میرے پوچھنے پر اس نے ہوا میں اڑنے کی اولین کوشش کرنے والے اس سائنسدان، ماہر علم کیمیا، طبعیات، منجم اور عربی کے بے مثل شاعر کے بارے میں تفصیل بتائی تھی‘ مگر آج یہ عالم ہے کہ عالم کفر سے خریدے ہوئے ہمارے ہوائی جہازوں کا معمولی سا پرزہ خراب ہو جائے تو باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔ ہمارا دعویٰ برحق کہ ہم مسلمان بارود کا اولین استعمال کرنے والوں میں سے تھے مگر آج یہ عالم ہے کہ ڈائنامائٹ کے موجد الفریڈ نوبیل‘ جس کے نام پر دنیا بھر میں سائنس اور ادب وغیرہ کے علاوہ امن کا سب سے انعام نوبیل پرائز بھی دیا جاتا ہے‘ کی قائم کردہ کمپنی نوبیل ڈائنامائٹ دنیا میں بارود بنانے کی سب سے قدیم اور معتبر کمپنی ہے‘ اور ہم اپنی ملکی دفاعی ضروریات کا بارود تک اس کمپنی سے حاصل کردہ ٹیکنالوجی اور لائسنس کے تحت بناتے ہیں۔ ہمارے ملک میں قائم ملٹی نیشنل آٹو موبائل انڈسٹری عشروں سے ہمیں لوٹ رہی ہے کہ سارے اہم پرزے اور انجن آج تک باہر سے ہی آ رہے ہیں۔ یہی حال دوا سازی کی صنعت کا ہے۔ ملک میں بننے والی ادویات کا خام مال سارے کا سارا عالم کفر سے درآمد کیا جاتا ہے اور بات کی جاتی ہے کہ ہمارے اجداد دواسازی اور میڈیسن کے بانیوں میں سے تھے۔ ہمارے ہاں مقامی طور پر ہاجمولہ، جوشاندے اور پھکی کے علاوہ شاید ہی کوئی شے ہو جس کا خام مال بھی ہم خود تیار کرتے ہوں۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا لیکن اجتماعی طور پر جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
اپنی میراث کے کھو جانے کا غم وہ کمترین درجہ ہے جو اس زیاں کا ردعمل ہوسکتا ہے۔ اب اس احساس سے گزر جانے کا مطلب ہے کہ ہم بے حسی اور لاتعلقی کی اس منزل پر پہنچ گئے ہیں جہاں اپنی میراث کے کھو جانے کا غم بھی رخصت ہو گیا ہے۔ اس میراث کے کھو جانے پر ملال نہ کرنا اور اس کے حصول کی کوشش نہ کرنا آقائے دو جہاںﷺ کے فرمان کی ایسی خلاف ورزی اور روگردانی ہے جو ہمیں دنیا میں بھی رسوا کئے ہوئے ہے اور آخرت میں بھی آپﷺ کے سامنے شرمندہ اور رسوا کرے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں