"KMK" (space) message & send to 7575

ہم سے بڑھ کر نالائق کون ہو سکتا ہے؟

بقول شاہ جی یا تو ہمارا مقدر خراب ہے یا پھر ہمارا مقدر ہی خراب ہے‘ یعنی اس مقدر کی خرابی سے کسی صورت مفر ممکن نہیں۔ شاہ جی مزید فرماتے ہیں کہ لوگوں کے تو صرف حکمران نالائق ہوتے ہیں ہمارے ہاں نالائق حکمرانوں کے مشیر بھی نالائقی میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ نالائق حکمران اپنی حکومت کو ممکنہ حد تک بہتر چلانے کی غرض سے کم از کم برائے مشاورت تو چنیدہ لوگوں کا انتخاب کرکے اپنی نالائقی، کم عقلی اور تکنیکی معاملات میں اپنی لاعلمی کا کوئی حل نکال لیتے ہیں‘ لیکن ہم وہ بدقسمت ہیں‘ جن کے حکمران نہ صرف یہ کہ خود معاملاتِ حکومت سے نابلد ہوتے ہیں بلکہ اپنی مدد کیلئے جن مشیروں کا تقرر کرتے ہیں ان کے بارے میں بھی پوری تسلی کر لیتے ہیں کہ وہ نہ صرف نالائق ہوں بلکہ ان سے زیادہ نالائق ہوں تاکہ وہ ان پر بھی اپنی تبحر علمی کا رعب ڈال سکیں، انہیں متاثر کر سکیں اور ان سے اپنی عقلمندی اور ہوشیاری کی داد بھی وصول کر سکیں۔
اب گزشتہ حکومتوں کا ذکر تو جانے ہی دیں کہ اس سے ایک طویل بحث شروع ہو جائے گی اور لکھنے لکھانے کا ایک بہت ضخیم دفتر کھل جائے گا جس کو سمیٹنا کم از کم کالم میں تو ممکن نہیں رہے گا؛ تاہم حالیہ حکومت نے نہ صرف اس روایت کو برقرار رکھا ہے بلکہ اسے مزید چار چاند لگائے ہیں۔ کس کس کا ذکر کریں؟ کام کا تو کسی بھی علم نہیں تھا؛ البتہ ٹیکا لگانے میں، مال بنانے میں، ادھر ادھر ہاتھ مارنے میں، اپنی ذات کا خیال رکھنے میں اور پھر خاموشی سے کھسک جانے میں کسی بھی حالیہ دور حکومت والے مشیروں کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ خان صاحب کے منتخب کردہ مشیروں کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں۔ کسی کو اول تو اپنے کام کا درست علم و ادراک ہی نہیں تھا، جن کو تھوڑا بہت علم تھا انہوں نے اس ادھورے علم کو عوام کی فلاح و بہبود اور آسانیوں کیلئے استعمال کرنے کے بجائے اپنے لئے مال پانی بنانے میں استعمال کیا۔ جب ان کی نالائقیوں اور بدنیتیوں کا شہرہ ہوا تو انہوں نے پرانی کہانیوں والے فقیر بادشاہ کی طرح اپنا کشکول اور چوغہ سمیٹا اور چمپت ہو گئے۔
اب بھی یہی حال ہے۔ کسی کو اپنے کام کی بنیادی چیزوں کا ہی علم نہیں اور حساب کتاب جیسی تہمت سے اس طرح پاک و مبرا ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ آخر یہ لوگ کس مرض کی دوا ہیں؟ یہ تو علم ہے کہ ملک میں گیس کی نہ صرف یہ کہ کمی ہے بلکہ ہر سال یہ کمی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی‘ طلب ہر سال بڑھ رہی ہے اور دوسری‘ رسد ہر سال کم ہو رہی ہے۔ اس رسد سے میری مراد گیس کی ملکی پیداوار ہے۔ ہمارے گیس کے قدرتی ذخائر سالانہ نو فیصد کی شرح سے کم ہو رہے ہیں اور اس حساب سے ہماری ملکی گیس یوں سمجھیں کہ اگلے عشرے ڈیڑھ عشرے میں جواب دے جائے گی۔ ہمارے پاس دیرپا اور آسان حل کے طور پر دو ممکنہ متبادل تھے۔ ایک ایران سے لائی جانے والی گیس پائپ لائن تھی جو امریکی دبائو کے تحت پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔ دوسرا منصوبہ ترکمانستان سے گیس پائپ لائن بچھا کر ملکی ضرورت پوری کرنے کا تھا۔ اس میں بنیادی رکاوٹ راستے میں آنے والے ملک افغانستان میں امن و امان کی خراب صورتحال تھی۔ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد اس معاملے پر پیشرفت ہوسکتی ہے؛ تاہم اس عاجز کے پاس بہرحال اس بارے میں کوئی مستند اطلاع نہیں کہ بات کہاں تک پہنچی‘ اور کیا پیشرفت ہے۔ اس مسئلے کا تیسرا اور موجودہ صورتحال میں واحد قابل عمل حل یہ ہے کہ ملک میں گیس کی کمی کو ایل این جی درآمد کرکے پورا کیا جائے۔ ملک میں صرف اٹھائیس فیصد کے لگ بھگ آبادی کو مقامی طور پر پیدا ہونے والی قدرتی گیس کی سہولت میسر ہے۔ باقی عوام کو یہ سہولت حاصل نہیں اور اس کیلئے متبادل کے طور پر ایل این جی کی درآمد ناگزیر ہے۔ ملک میں ایل این جی کی طلب اور رسد کا حساب لگانا ظاہر ہے راکٹ سائنس نہیں کہ انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہو۔ یہ بڑا آسان سا کام تھا اور اس کام کی حد تک تو بات ٹھیک چل جاتی ہے۔ اب اس سے آگے کا کام یہ ہے کہ اس طلب کے مطابق رسد کا بندوبست کیا جائے۔ بس یہاں آکر ہماری ساری منصوبہ بندی، پیش بندی اور حساب کتاب صاف جواب دے جاتا ہے۔ کبھی ہم بروقت ٹینڈر کرنا بھول جاتے ہیں، کبھی وقت پر اشتہار دینا یاد نہیں رہتا، کبھی ایل این جی اس وقت خریدنا یاد نہیں رہتی جب عالمی سطح پر اس کے ریٹ نچلی سطح پر آئے ہوتے ہیں۔ کبھی ہم ٹینڈر کینسل کر دیتے ہیں اور کبھی ملک میں گیس کی طلب کا گراف ہماری سمجھ میں نہیں آتا‘ اور انتہائی طلب والے پیریڈ سے پہلے گیس کا بندوبست کرنے کے بجائے ان انتہائی طلب والے مہینوں کے سر پر آ جانے پر یاد آتا ہے کہ ہمیں تو ان مہینوں میں زیادہ گیس کی ضرورت تھی۔ الغرض جو خرابیاں اس سارے معاملے میں ممکن ہو سکتی ہیں وہ ہم اکیلے کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک گیس کے بحران کا شکار ہے۔ گھروں میں جو حالت ہے اسے تو چھوڑیں‘ ایکسپورٹ انڈسٹری تک کو اس کی مطلوبہ گیس نہیں مل رہی۔ ایسی صورت میں ملکی صنعت نے خاک چلنا ہے اور ہماری برآمدات میں 'کھیہ تے مٹی‘ اضافہ ہونا ہے۔
دوسری طرف حساب کتاب کی اعلیٰ کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ ملک میں تیل صاف کرنے کی کئی ریفائنریاں محض اس لئے بند کرنا پڑ رہی ہیں کہ ان کے پاس اب کروڈ آئل میں سے نکلنے والے فرنس آئل کو ذخیرہ کرنے کی مزید گنجائش باقی نہیں بچی۔ گزشتہ دنوں بائیکو آئل ریفائنری کو اسی بنیاد پر بند کرنا پڑا۔ ان کے پاس سینتیس ہزار ٹن فرنس آئل اکٹھا ہوگیا تھا اور مزید گنجائش نہ ہونے کے باعث مجبوراً ریفائنری کا آپریشن بند کرنا پڑا۔ یہی حال نیشنل ریفائنری کا ہے جس کی فرنس آئل کی سٹوریج اپنی آخری حد تک پہنچنے والی ہے۔ پاکستان ریفائنری لمیٹڈ بھی اسی وجہ سے کئی دن بند رہنے کے بعد دوبارہ چلائی گئی تھی۔ پارکو اپنا فرنس آئل کا سٹاک برآمد کی غرض سے بندرگاہ پر پہنچا کر بمشکل اپنا آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ یاد رہے کہ فرنس آئل ایکسپورٹ کرنا خسارے کا سودا ہے؛ تاہم یہ ساری باتیں حیران کن نہیں ہیں۔ اصل حیران کن اور پریشان کن بات یہ ہے کہ ادھر ملک میں فرنس آئل کا بھاری ذخیرہ موجود ہے اور ہماری ریفائنریاں اس بھاری ذخیرے کے باعث بند ہورہی ہیں۔ دوسری طرف ہم باہر سے مہنگا فرنس آئل درآمد اور اس پراپنا قیمتی زرمبادلہ خرچ کررہے ہیں۔ ہم ملک میں موجود اس وافر اور سرپلس فرنس آئل کا ذخیرہ استعمال کرنے کے بجائے ایک لاکھ بیس ہزار ٹن فرنس آئل باہر سے منگوا رہے ہیں۔ حال یہ ہے فرنس آئل کے دو ٹینکر گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے لگ بھگ عرصہ سے بندرگاہ پر لنگر اندازہیں کیونکہ ہمارے پاس اس فرنس آئل کی سٹوریج میسر نہیں اور ان پر روزانہ بیس ہزار ڈالر سے زائد ڈیمرج ادا کیا جا رہا ہے۔ ملکی فرنس آئل سستا برآمدکیا جارہا ہے اور مہنگا درآمد کیا جارہا ہے جبکہ ملک میں ضرورت سے کہیں زائد فرنس آئل موجود ہے اور ہم باہر سے فرنس آئل درآمد کررہے ہیں۔ ملکی ریفائنریوں میں پڑا ہوا فرنس آئل ہمارا مذاق اڑا رہا ہے اور بندرگاہ پر کھڑے جہازوں میں پڑا ہوا درآمد شدہ فرنس آئل ہماری حرکتوں پر زیر لب مسکرا رہا ہے۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہم نالائقی کی سب سے بلند مقام پر فائز ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں