"KMK" (space) message & send to 7575

وائس کپتان بھی رخصت ہوگئے

وائس کپتان ہم سے رخصت ہو کر اپنے مالکِ حقیقی کے ہاں حاضر ہو گئے۔ اس جہانِ فانی سے عالم حقیقی کی طرف روانگی ایک ایسا اٹل قانون ہے جس سے کسی کو بھی استثنا نہیں مگر اس کے باوجود اس ابدی حقیقت پر اعتبار آتے تھوڑا وقت لگتا ہے۔اس وقت امریکہ میں میری یہی کیفیت ہے۔ سرفراز شاہد کے ساتھ گزرے تینتیس سال ایک فلم کی مانند آنکھوں کے سامنے چل رہے ہیں۔ میں نے سرفراز شاہد کے ساتھ اَن گنت مشاعرے پڑھے۔ آخری مشاعرہ تو محض ایک ماہ تین دن قبل مورخہ 23 نومبر کو پڑھا۔ اس مشاعرے اور مزاح پر ہونے والی کانفرنس کا اہتمام پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز نے کیا تھا۔ بحیثیتِ ممبر بورڈ آف گورنرز‘اکیڈمی آف لیٹرز پاکستان کے نہایت فعال اور متحرک چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے اس کانفرنس اور مشاعرے کا انعقاد میرے ذمے لگایا تھا؛ تاہم میں نے اس بھاری پتھر کو اٹھانے کی ساری ذمہ داری برادرِ عزیز محمد عارف کے سپرد کر دی۔ اسے صرف اتنی ہدایت دی کہ اس کانفرنس اور مشاعرے کی صدارت سرفراز شاہد کریں گے باقی وہ جو مناسب سمجھے‘ کرے۔ اس تقریب کے صرف چھ دن بعد میں امریکہ روانہ ہو گیا اور سرفراز شاہد کی بھی یہ آخری تقریب تھی۔ وہ اس مشاعرے اور کانفرنس کے ایک ماہ تین دن بعد مورخہ 26 دسمبر کو اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے۔
میری سرفراز شاہد سے پہلی ملاقات 1988ء میں پی ٹی وی کے اولین مزاحیہ مشاعرے ''کشتِ زعفران‘‘ میں ہوئی تھی۔ یہ میرا پاکستان ٹیلی وژن پر پہلا مشاعرہ تھا۔ یہ پاکستان ٹیلی وژن کی تاریخ کا پہلا باقاعدہ مزاحیہ مشاعرہ تھا۔ اس سے قبل پی ٹی وی پر مزاحیہ شعرا انفرادی طور پر تو اپنا کلام سناتے رہتے تھے؛ تاہم گیارہ‘ بارہ شعرا کے ساتھ ہونے والا یہ مکمل مزاحیہ مشاعرہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا‘ اس مزاحیہ مشاعرے کے پروڈیوسر نذیر عامر تھے۔ نذیر عامر پی ٹی وی کے سنہرے دور والے پروڈیوسروں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے کام میں کاملیت کیلئے کوشاں رہتے تھے۔ اُردو اور فارسی شاعری کے رسیا اور نہایت ہی صاحب ِذوق‘ نذیر عامر مرحوم نے اس مشاعرے کے شعرا کے انتخاب کیلئے بڑی بھاگ دوڑ اور تگ و دو کی۔ اس سے قبل کیونکہ مزاحیہ مشاعرے کا رواج نہیں تھا اس لئے ایسے شعرا کی کوئی باقاعدہ فہرست یا نام ٹی وی والوں کے پاس نہیں تھے۔ اس کام کیلئے مرحوم نذیر عامر نے پبلک مشاعرے پڑھنے والے شعرا سے رابطہ کیا اور ان سے مزاحیہ شاعری کرنے والے شعرا کے نام پوچھے۔ اس سلسلے میں عطا الحق قاسمی‘ امجد اسلام امجد‘ مرحوم حسن رضوی اور مرحوم اجمل نیازی نے نذیر عامر کو شعرا کی فہرست مرتب کرنے میں بڑی مدد دی۔ نذیر عامر مرحوم کی اس محنت کے طفیل گیارہ بارہ شعرا پر مشتمل یہ مشاعرہ پی ٹی وی سے نشر ہوا اور پھر اس کا ایسا رواج پڑا کہ بعد میں ہونے والے کئی مشاعرے کشتِ زعفران کے نام کے ساتھ نمبر لگا کر نشر کرتے رہے۔ اس اولین مشاعرے کی صدارت سید ضمیر جعفری مرحوم نے کی تھی۔ بابا عبیر ابوذری‘ مجذوب چشتی اور میرے علاوہ کئی شعرا کی پہلی بار ٹی وی پر رونمائی ہوئی۔ سرفراز شاہد سے پہلی ملاقات اسی مشاعرے کے دوران ہوئی۔
دھیمی طبیعت کے سرفراز شاہد سے پہلی ہی ملاقات میں ایک ایسے تعلق کی ابتدا ہوئی جو آنے والے دنوں میں دوستی میں بدل گئی۔ ہم نے مذاق میں مزاحیہ شعرا کی اس ٹیم کو ''مزاح الیون‘‘ کا نام دے دیا تھا اور جناب انور مسعود کو اس ٹیم کا کپتان مقرر کر رکھا تھا۔ میں نے اسی دوران سرفراز شاہد کو وائس کپتان کا خطاب عطا کردیا جو آنے والے دنوں میں خاصا مستحکم ہو گیا۔ اس اولین مزاح الیون کے بہت سے کھلاڑی رخصت ہو چکے ہیں۔ اس مشاعرے کی صدارت کرنے والے سید ضمیر جعفری‘ دلاور فگار‘ امیر الاسلام ہاشمی‘ نیاز سواتی‘ ضیا الحق قاسمی‘ بابا عبیر ابو ذری‘ مجذوب چشتی‘ اطہر شاہ خان جیدی اور اب سرفراز شاہد بھی ہم سے رخصت ہو گئے ہیں۔ میں نے ایک دن مذاق میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے کہا: اب اس مشاعرے کے پندرہ شعرا میں سے ہم چار شاعر زندہ ہیں۔ اللہ انور مسعود، سرفراز شاہد اور آپ کو لمبی زندگی عطا کرے۔ سرفراز شاہد کی رخصتی کے بعد اب اس مشاعرے کے حیات شعرا کی فہرست مزید مختصر ہو گئی ہے۔
سرفراز شاہد ان مزاحیہ شعرا میں نمایاں ترین مقام رکھتے تھے جن کے دم سے مزاحیہ شاعری کی آبرو ہے۔ پاکستان میں کی جانے والی مزاحیہ شاعری بھارت میں ہونے والی مزاحیہ شاعری سے ہزار درجہ بہتر اور معیاری ہے۔ مزاح اور پھکڑ پن میں جو باریک سی حدِ فاضل ہے پاکستان میں اس کا بہت خیال رکھا جاتا ہے اور اسے عبور کرنے سے ہر ممکنہ حد تک پرہیز کیا جاتا ہے جبکہ بھارت میں بہت سے مزاحیہ شعرا کا تو سارا کام ہی پھکڑ پن پر چل رہا ہے۔ جن لوگوں نے پاکستان میں مزاحیہ شاعری کو اعتبار بخشا اور اسے عوامی سطح پر اس حد تک مقبول کیا کہ آپ یہ مزاحیہ شاعری اپنے گھر کے افراد کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں سرفراز شاہدان لوگوں میں نہ صرف یہ کہ شامل تھے بلکہ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سرفراز شاہد اس قسم کی معیاری اور ہر قسم کی ذو معنویت سے پاک شاعری کو فروغ دینے اور اسے مقبول عام بنانے والوں کے سرخیل تھے۔
سرفراز شاہد شاعری کے معیاری اور مشاعروں میں اپنے مقام اور حفظِ مراتب کے بارے میں بڑے حساس تھے اور اس سلسلے میں کسی اونچ نیچ پر دکھی ہو جاتے تھے؛ تاہم تہذیب کا دامن کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑتے تھے خواہ وہ ان کی شاعری ہو یا شاعری میں کسی سے اختلاف۔ میں بہت کم ایسے لوگوں سے واقف ہوں جنہوں نے اپنے شوق کو اس حد تک عزیز رکھا ہو جیسا کہ سرفراز شاہد نے اپنی مزاحیہ شاعری کو عزیز رکھا ہوا تھا۔ اپنے اس شوق کی تکمیل کی غرض سے سید ضمیر جعفری مرحوم کی ادارت میں چھپنے والے رسالے ''اُردو پنچ‘‘ میں ان کی معاونت کرتے رہے۔ انہوں نے مزاحیہ شاعری کی تاریخ پر نہایت ہی معتبر اور محققانہ کام کرتے ہوئے اس کی تاریخ مرتب کی۔ اسی دوران انہوں نے بابا عبیرابو ذری کا ممکنہ حد تک اغلاط سے پاک کلام اکٹھا کیا اور اسے شائع کیا۔ ان کی ساری توجہ مزاح لکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے فروغ پر بھی تھی۔
سرفراز شاہد نے اپنے شوق کی تکمیل کے لیے اپنی ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ پیشے کے اعتبار سے ماہر موسمیات اور سائنسدان ہونے کے باوجود علم و ادب سے ان کی محبت عام آدمی کے لیے نہایت حیران کن تھی۔ نہایت اعلیٰ سرکاری عہدے سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کے بعد انہوں نے اپنی ساری زندگی مزاحیہ شاعری اور مزاحیہ ادب کے لیے وقف کردی تھی۔ وہ اس سلسلے میں مزاحیہ ادب اور شاعری پر مشتمل رسالہ ''خوشنما‘‘ بھی نکالتے تھے اور اس کام پر وہ اپنے پلے سے رقم بھی لگاتے رہے۔ بھلا آج کے دور میں ایسے ادبی رسالے کو چلانا جس کے لیے آپ اشتہار بھی نہ مانگیں کس طرح ممکن ہے‘ مگر وہ اس کام کو ممکن بناتے رہے۔ درجن بھر کتابوں کے مصنف سرفراز شاہد نظم‘ غزل‘ قطعہ‘ جسے وہ چوکا‘ اور چھ مصرعوں پر مشتمل مسدس نما قطعہ‘ جسے وہ چھکا کہتے تھے‘ پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ اللہ رحیم و کریم سرفراز شاہد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے کہ انہوں نے ساری زندگی مخلوق خدا کے چہروں پر صرف اور صرف مسکراہٹ بکھیری تھی۔ کھلاڑی چوکے اور چھکے لگاتے ہیں جبکہ وہ چوکے اور چھکے لکھتے اور لگاتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے جنت الفردوس کی جانب روانگی کے دوران فرشتوں کو چوکوں اور چھکوں سے ضرور محظوظ کیا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں