"KMK" (space) message & send to 7575

سبزہ، درخت اور جنگل ..... (آخری)

ابھی آزاد کشمیر میں تو پھر بھی غنیمت ہے جہاں درخت اور جنگل کسی حد تک محفوظ ہیں مگر وہ بھی قابلِ رشک تو بہرحال ہرگز نہیں‘ بس گزارہ کہہ لیں یا پھر دیگر علاقوں سے نسبتاً بہتر صورت حال کا نام دے دیں۔ چند برس قبل خرم فاروق مرحوم کے ساتھ اس کے گاؤں چمیاٹی گیا اور پھر دوسرے دن خرم فاروق کے چند دوستوں کے ساتھ دھیر کوٹ کے جنگل میں گیا۔ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس میں دوستوں نے کھانے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ پرانے اور خستہ حال ریسٹ ہاؤس میں گرما گرم کھانے کا اہتمام اور اوپر سے خرم فاروق کی مہمان نوازی اور گرم جوشی۔ وہاں سے فارغ ہو کر پیچھے جنگل میں نکل گئے۔ اُن دنوں بھی آرتھرائٹس نے گھٹنوں پر حملہ کر رکھا تھا اور چلنے پھرنے میں تھوڑی مشکل درپیش تھی۔ کسی نے کہا کہ تھوڑی دور اوپر جائیں تو ایک بہت ہی قدیم اور پرانا دیودار کا درخت ہے۔ غالباً پانچ سو سال پرانا ہوگا۔ اس کا تنا اتنا موٹا اور بڑا ہے کہ آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ خرم فاروق کو میرے گھٹنوں کا خیال آیا تو کہنے لگا کہ رہنے دیں۔ چڑھائی چڑھنی پڑے گی‘ گو کہ چڑھائی زیادہ نہیں مگر مشکل ضرور ہے۔ میں نے کہا: آپ میرے گھٹنوں پر نہ جائیں۔ میں ان کی حرکتوں کے باعث اب اپنی حرکتیں تو نہیں چھوڑ سکتا۔ چلتے ہیں اور آپ کا موٹا درخت دیکھتے ہیں۔
سانس لیتا‘ رکتا اور اپنے گھٹنوں کو دباتا ہوا میں بالآخر اوپر موٹے درخت تک پہنچ ہی گیا۔ کیا شاندار اور پُرشکوہ درخت تھا۔ قریب جا کر احساس ہوا کہ یہ درخت اس سے کہیں بڑا اور عظیم الجثہ ہے جتنا کہ میرا خیال تھا اور یہ جتنا دور سے نظر آتا تھا۔ میں نے اس درخت کے تنے کے ساتھ لگ کر تصویریں بنوائیں۔ پھر ہم سب نے مل کر اُس درخت کے تنے کے گرد اپنے ہاتھ پکڑ کر گھیرا بنایا اور اس کی موٹائی کا اندازہ لگایا۔ بلامبالغہ پانچ لوگوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر دائرہ بنایا تب جا کر درخت کا پورا تنا ہماری لپیٹ میں آیا۔ بیس بائیس فٹ سے کیا کم گھیراؤ ہوگا۔ اونچائی ایسی کہ ساتھ والے نسبتاً چھوٹے درختوں کی شاخوں اور پتوں کی وجہ سے اس درخت کا اوپری حصہ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ اس درخت کے ساتھ اردگرد موجود درخت بھی کم تناور اور بڑے نہیں تھے مگر اس دیوہیکل اور پُرجلال درخت کے سامنے بالکل ویسے ہی چھوٹے چھوٹے لگ رہے تھے جس طرح ایک بار انتہائی صاف موسم میں مَیں جہاز پر نانگا پربت کے ساتھ سے گزرا تو اس کے اردگرد والے بلند و بالا پہاڑ اس پُر ہیبت پہاڑ کے سامنے بونے اور بالشیے لگ رہے تھے۔
اب مجھے ٹھیک طرح تو یاد نہیں کہ وہ کون سی جگہ تھی لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ میں بھلوال سے لاہور جا رہا تھا کہ اچانک میری نظر سڑک کے کنارے لگے ہوئے ایک قدیم بڑ کے درخت پر پڑی۔ پنجابی میں بڑ کے درخت کو بوڑھ کا درخت کہتے ہیں۔ اتنا بڑا اور چھتنار درخت کہ اس نے کئی کنال کا رقبہ اپنے نیچے گھیر رکھا تھا۔ اوپر سے لٹکنے والی قدیم شاخوں نے اس درخت کے مزید کئی تنے بنا رکھے تھے اور ان تنوں نے اس عظیم الشان درخت کو بڑے توازن کے ساتھ اٹھا رکھا تھا۔ ایسا ہی ایک درخت ملتان میں ہمارے مرحوم دوست سید ناظم حسین شاہ سابق صوبائی وزیر کے ڈیرے پر بھی تھا۔ بلکہ تھا کیا؟ اب بھی ہے۔ یہ اور بات کہ مجھے اس بات کا مسلسل دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کوئی دن گزرتے ہیں اس زمین پر کسی رہائشی منصوبے والے کی نظر پڑ جائے گی اور اس چھ سات سو سالہ قدیم درخت کی جگہ پر آٹھ دس نئے بنگلے بن جائیں گے۔ یہ درخت بھی بلامبالغہ کئی کنال زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ دو سال ہوتے ہیں۔ یہ غالباً اکتوبر‘ نومبر 2020ء کی بات ہے ڈاکٹر درصبیح نے کہا کہ سنا ہے ادھر مظفر آباد کے قریب (یہ مظفر آباد ملتان شہر سے پندرہ سولہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے) شجاعباد کینال کے کنارے کوئی بہت بڑا درخت ہے؟ میں نے کہا جی بالکل ہے اور ہمارے دوست سید ناظم حسین شاہ کے ڈیرے پر ہے۔ یہ قدیمی ڈیرہ غالباً کوٹ فقیر علی شاہ میں ہے۔ آپ جب کہیں گے چلے چلیں گے۔
دو تین دن بعد میں نے ناظم شاہ کو فون کیا اور عصر کے وقت ڈاکٹر عنایت اللہ اور ڈاکٹر درصبیح کے ہمراہ شاہ جی کے ڈیرے پر پہنچ گئے۔ روایتی ملتانی مہمان نوازی میں گندھے ہوئے ناظم شاہ نے اپنی خرابیٔ صحت کے باوجود پُرتپاک استقبال کیا۔ دیگر لوازمات کے علاوہ اپنا خاص مشروب گھنٹوں کاڑھ کر ٹھنڈا کیا ہوا دودھ پلایا۔ درخت کی تاریخ پوچھی تو کہنے لگے یہ یہاں میری کئی نسلوں سے موجود ہے؛ تاہم اس کی عمر کا اندازہ اس کے گھیراؤ سے لگایا گیا تھا تو یہ تقریباً ساڑھے چھ‘ سات سو سال کے لگ بھگ نکلا تھا۔ شجاعباد کینال کے کنارے اپنے ڈیرے کی طرف جانے والے راستے کے دائیں طرف گلاب کے پھولوں کا ایک تختہ تھا۔ شاہ جی نے یہ گلاب شربت اور عرق کشید کرنے کے لیے لگا رکھے تھے۔ ناظم شاہ نے عرق کشید کرنے کے لیے ایک خاص ملازم رکھا ہوا تھا۔ وہ ہر سال اپنے دوستوں کو گلاب اور موتیے کا عرق و شربت بھجواتے تھے۔ واپسی پر شاہ جی نے میرے دوستوں کو گلاب کے عرق کی ایک ایک بوتل دی۔ پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ آپ کو اس سال کا گلاب اور موتیے کا عرق اور شربت دے چکا ہوں لیکن آپ کو دوبارہ بھی دے رہا ہوں کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ آپ میرے ڈیرے پر آئیں اور خالی ہاتھ واپس جائیں۔ ویسے بھی میرے بعد شاید یہ عرق خانہ بند ہو جائے گا۔ ڈیڑھ دو ماہ بعد شاہ جی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ گلاب کے عرق کی آدھی بوتل باورچی خانے سے متصل پینٹری میں پڑی ہے اور شاہ جی کی یاد دلاتی ہے۔ ان کی زمین سے متصل شجاعباد کینال کا کنارہ چوڑا کیا جا رہا ہے۔ اس پر موجودہ سڑک ڈبل کی جا رہی ہے۔ کنارے پر لگے قدیمی درخت کٹ رہے ہیں۔ دن گزرتے ہیں کہ ساری زمین زرعی سے رہائشی ہو جائے گی اور کوٹ فقیر علی شاہ میں ناظم حسین شاہ کے ڈیرے پر لگا ہوا قدیمی عظیم الجثہ بوڑھ کا درخت لکڑ منڈی میں آڑھتیوں سے ہوتا ہوا تنوروں میں جل کر راکھ ہو جائے گا۔ میرے پاس صرف اس درخت کی یادیں اور ڈاکٹر درصبیح کی کھینچ کر بھیجی گئی تصویریں رہ جائیں گی۔
ادھر امریکہ میں ایسے ایسے عظیم الجثہ اور بڑے بڑے درخت ہیں کہ بھلوال کے راستے میں دکھائی دینے والا اور سید ناظم حسین شاہ کے ڈیرے پر لگا ہوا درخت بھی ان کے سامنے بچونگڑا دکھائی دے۔ اونچے ترین درختوں میں سیکویا کی نسل سے تعلق رکھنے والا کوسٹ ریڈوڈ درخت ہے جس کی اونچائی ایک سو سولہ میٹر یعنی تین سو اسی فٹ ہے۔ بڑے درختوں کا حساب ان کی لکڑی کے حجم سے لگایا جاتا ہے۔ جائنٹ سیکویا کی نسل سے تعلق رکھنے والا درخت جس کا نام جنرل شرمن (شرمن ٹینک والا) کے نام پر ہے اس میں 52000مکعب فٹ لکڑی ہے۔ اس درخت کی اونچائی دو سو پچھتر فٹ‘ زمین پر تنے کی چوڑائی ایک سو دو فٹ قطر چھتیس فٹ ہے جنرل شرمن اور اسی نسل کے دیگر سینکڑوں درخت کیلیفورنیا کے سیکویا نیشنل پارک میں ہیں۔ کئی بار ارادہ کیا کہ ادھر جاؤں مگر حال یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے ارادہ کر رہا ہوں کہ بیٹی کے گھر سے محض ایک میل دور درختوں کے دو تین ایسے گنجان اور گھنے جھنڈ ہیں کہ دیکھ کر دل مچلتا ہے کہ ان کے اندر جاؤں۔ عہد آفرین کا کہنا ہے کہ یہ اتنے گھنے ہیں کہ ان کے اندر جانا شاید آپ کے لیے ممکن نہ ہو۔ میں نے اس سے کہا: مجھے پریشانی اس بات کی نہیں کہ اندر کیسے جاؤں گا۔ پریشانی اس بات کی ہے کہ اگر اندر جا کر باہر نکلنے کو دل نہ کیا تو کیا کروں گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں