"KMK" (space) message & send to 7575

ادارے ایسے برباد نہیں ہوتے…(3)

سرکار کی چھتری تلے سانس لینے والے اداروں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جہاں ایک بندے کی ضرورت ہے وہاں دس بھرتی کیے گئے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان میں سے ایک بندہ بھی کام کرنے پر تیار نہیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ جب وہی لوگ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرتے ہیں تو نہایت کم تعداد کے باوجود ان کی کارکردگی بے مثال اور اس پرائیویٹ ادارے کی مجموعی صورتحال نہایت عمدہ ہوتی ہے۔ اس کی بہترین مثال ضلع مظفر گڑھ میں چلنے والے تین عدد پاور پلانٹس ہیں۔ میں نے یہ تقابلی جائزہ اس لئے منتخب کیا ہے کہ وہی انگریزی والی کہاوت کے مطابق ''سیب کا موازنہ سیب‘‘ سے ہی کرنا چاہئے‘ لہٰذا میں نے ایک ہی جگہ پر واقع تین عدد پاور پلانٹس کی استعداد اور وہاں کام کرنے والوں کی تعداد کا آپس میں موازنہ کیا ہے۔
مظفر گڑھ میں ایک عدد سرکاری تھرمل پاور سٹیشن ہے۔ یہ حکومت پاکستان کے ادارے واپڈا کے زیر انتظام بجلی پیدا کرنے والے یونٹس کو کنٹرول کرنے والے جو چار عدد ادارے(جینکو) قائم کیے گئے ہیں‘ کے تحت ہے۔ جینکو (Genco)سے مراد Generation Companyہے جینکوiکے زیر انتظام جامشورو پاور کمپنی ہے۔ جینکوiiسنٹرل پاور جنریشن کمپنی کہلاتی ہے اور اس کے زیر انتظام گدو تھرمل پاور پلانٹ ہے۔ جینکوiiiجو ناردن پاور جنریشن کمپنی کہلاتی ہے کے زیرانتظام دو عدد پاور پلانٹس ہیں‘ ایک فیصل آباد تھرمل پاور جنریشن پلانٹ اور دوسرا مظفر گڑھ تھرمل پاور جنریشن پلانٹ ہے‘ اور جینکوiv لاکھڑا پاور جنریشن کمپنی کو کنٹرول کرتا ہے۔ فیصل آباد تھرمل پاور جنریشن پلانٹ کی پیداواری استعداد144میگاواٹ ہے جبکہ مظفر گڑھ تھرمل پاور پلانٹ کی پیداواری استعداد 1350میگاواٹ ہے۔درج بالا تفصیل صرف اس لیے دی ہے کہ قارئین کو پاکستان میں سرکاری چھتری تلے چلنے والے تھرمل پاور پلانٹس کے بارے میں بنیادی باتوں کا علم ہو سکے۔ مظفر گڑھ میں تین عدد تھرمل پاور جنریشن پلانٹس ہیں۔ ایک سرکاری یعنی مظفر گڑھ تھرمل جنریشن پاور پلانٹ ہے۔ دوسرا اس پلانٹ سے پینتالیس کلو میٹر دور کوٹ ادو پاور کمپنی ( KAPCO)کا تھرمل پاور جنریشن پلانٹ ہے جس کی پیداواری استعداد1600میگاواٹ ہے۔ واپڈا کا یہ پلانٹ کس طرح پرائیویٹ سیکٹر کو بیچا گیا یہ ایک الگ درد ناک کہانی ہے تاہم فی الحال تو صرف مظفر گڑھ کے پاور پلانٹس کا باہمی موازنہ درپیش ہے۔ مظفر گڑھ میں تیسرا تھرمل پاور جنریشن جو در اصل دو الگ الگ پلانٹ ہیں‘ ان دونوں پلانٹس ‘جن کا نام پہلے اے ای ایس لال پیر اور اے ای ایس پاک جن پاور تھا۔ یہ دونوں پاور پلانٹس ایک امریکی کمپنی AESکارپوریشن نے1997ء میں لگائے جب ایمل کانسی کو ڈیرہ غازی خاں کے شالیمار ہوٹل سے مخبری کے ذریعے گرفتار کیا گیا تو ایک باخبر کا کہنا ہے کہ اسے اے ای ایس لال پیر لایا گیا جہاں اس امریکی کمپنی کا چھوٹا جہاز اور رن وے کی پٹی موجود تھی۔ پھر اسے بذریعہ جہاز آگے منتقل کردیا گیا۔ اے ای ایس کے ان پلانٹس میں اے ای ایس لال پیر کی پیداواری استعداد 362 میگاواٹ اور پاک جن کی پیداواری استعداد 365میگاواٹ ہے۔ یہ دونوں پلانٹ جو ایک ہی جگہ پر ہیں کی پیداواری صلاحیت727میگاواٹ ہے۔ یہ دونوں پلانٹ 2010ء میں ایک کنسورشیم نے خرید لیے تھے۔
تھرمل پاور سٹیشن مظفر گڑھ جس کی پیداواری استعداد 1320 میگا واٹ ہے‘ اس کے عملے کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ ہے۔ افسروں اور دیگر ملازمین کی اس فوج ظفر موج کی واحد وجہ یہ ہے کہ سرکاری پراجیکٹ کو مالِ مفت‘ دل بے رحم کے کلیے کے مطابق نچوڑا جاتا ہے اور اپنی ہر نااہلی پر کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس سٹاف کم ہے۔ مظفر گڑھ کے سرکاری تھرمل پاور پلانٹ کی پیداوار کی نسبت ملازمین کی تعداد سے لگائی جائے تو 1320 میگاواٹ پیداوار کیلئے تین ہزار ملازمین ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ اس تھرمل پاور یونٹ پر فی کس 0.45میگاواٹ بجلی بنتی ہے۔ اگر ہم اس نسبت کا تقابل اس بجلی گھر سے محض پینتالیس کلو میٹر کے فاصلے پر محمود کوٹ میں لگے ہوئے KAPCOتھرمل پاور یونٹ سے کیا جائے تو1600میگاواٹ کی پیداواری استعداد کے مالک اس پلانٹ پر ساڑھے تین سو کے لگ بھگ ملازمین کام کرتے ہیں۔ یعنی فی کس پیداوار 4.57میگاواٹ ہے جو سرکاری پلانٹ سے دس گنا زیادہ ہے۔ محمود کوٹ میں ہی مظفر گڑھ تھرمل پاور پلانٹ سے چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر لگے ہوئے لال پیر اور پاک جن پاور پلانٹ مجموعی طور پر 727میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں اور یہاں ملازمین کی تعداد ڈیڑھ سو سے بھی کم ہے۔ اگر یہ تعداد ڈیڑھ سو لگائی جائے تو یہاں پیدا ہونے والی بجلی کی فی کس نسبت4.84میگاواٹ بنتی ہے جو سرکاری بجلی گھر سے گیارہ گنا زیادہ ہے۔جس سے یہ اندازہ کرنا قطعاً مشکل نہیں کہ ایک ہی علاقے میں ایک ہی قسم کی بجلی پیدا کرنے والے سرکاری پلانٹ اور پرائیویٹ پلانٹس میں فی کس پیداواری صلاحیت میں زمین آسمان کا فرق ہے اور جن دنوں میں مظفر گڑھ پاور پلانٹ پوری استعداد سے چل رہا تھا تب وہاں کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے بجلی گھر کو اتنے کم سٹاف سے چلانا مشکل ہو رہا ہے‘ لہٰذا ہمیں مزید بندے بھرتی کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ تو صرف عملے کی تعداد کی بات تھی وگرنہ مظفر گڑھ تھرمل پاور پلانٹ میں تیل چوری اور خورد برد کی ایسی ایسی کہانیاں ہیں کہ سن کر بندے کی آنکھیں پھٹ جائیں۔کراچی سے ٹرین کے ذریعے آنے والے فرنس آئل کی چوری‘ ٹینکرز کے ذریعے آنے والے فرنس آئل سے ہر چوتھے پانچویں ٹرک کے بعد ایک ٹینکر کو سرے سے غائب کر دینا‘ فرنس آئل کے ٹینکروں کا وزن اور مقدار پوری کرنے کی غرض سے فرنس آئل میں پانی ملانا۔ ایک نہایت ہی ثقہ راوی نے بتایا کہ اس سارے غتربود کے نظام میں مزدوروں کے حقوق کی آواز اٹھانے کی آڑ میں جمشید دستی بھی اس سارے کھیل میں شامل تھا اور اپنے مربی اور ٹرک و ٹینکر مافیا کے چیف کا دست راست ہونے کے باعث فی ٹینکر بھتہ بھی لیتا تھا۔ عملے کی غیر ضروری تعداد کے باعث پیداواری لاگت بڑھنے کے علاوہ فرنس آئل کی چوری اور ملاوٹ کے باعث جو نقصان ہوتا تھا وہ الگ کہانی ہے‘ تاہم اس ساری تفصیل کا اختصاریہ ہے کہ 1350میگاواٹ کے سرکاری پلانٹ پر تین ہزار کے لگ بھگ عملہ تھا۔ 1600میگاواٹ کے پرائیویٹ پلانٹ پر ساڑھے تین سو لوگ تھے اور 720میگاواٹ کے پاور پلانٹ پر 150 لوگ کام کرتے تھے‘جبکہ اس سرکاری بجلی گھر میں عملے کے نام پر مشتمل اس ہجوم کی فی کس پیداواری صلاحیت اپنے سے چالیس پینتالیس کلو میٹر کے فاصلے پر موجود دو عدد پاور پلانٹس کے مقابلے میں محض نو دس فیصدتھی۔
چند روز قبل میں ایک دوست کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو اسی موضوع پر بات چل نکلی۔ میں نے کہا کہ مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ سیاستدانوں‘ اشرافیہ‘ مقتدرہ اور بیورو کریسی نے سرکاری محکموں اور اداروں کو لوٹ کا مال کیوں سمجھ رکھا ہے؟آخر وزیر بننے کے بعد اچانک اس محکمے میں ہزاروں مزید لوگوں کی ضرورت کیوں پڑ جاتی ہے؟ میرا وہ دوست کہنے لگا ''اوور ایمپلائمنٹ‘‘ یعنی زائد از ضرورت عملے کی بھرتی کی جو وجہ ایسے اداروں پر ہونے والی تحقیق کے بعد معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ہر چھوٹے بڑے افسر کو اپنے نیچے زیادہ سے زیادہ ماتحت رکھنے کا شوق ہوتا ہے اور ہر قسم کا افسر اوپر سے نیچے تک اپنے اپنے مقام پر یہی کچھ کرتا ہے‘ تاہم ہمارے ہاں نوکریوں کی خریدو فروخت نے اس کاروبار کو جس معراج پر پہنچایا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں اور ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں