"KMK" (space) message & send to 7575

کتاب اور لائبریری سے محبت…(1)

اس عمر میں ویسے تو آہستہ آہستہ سارے جسمانی اعضا ہی جواب دینا شروع کر دیتے ہیں مگر اس عاجز کو آنکھوں کے حوالے سے مسائل کا آغاز تو لڑکپن میں ہی شروع ہو گیا تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ ڈاکٹروں نے تقریباً ہاتھ کھڑے کر دیے۔ تب میں نے معاملہ اپنے مالک کے سپرد کردیا‘ لیکن اس سے مراد یہ نہیں کہ علاج سے ہاتھ اٹھا لیا۔ ڈاکٹروں نے جو ممکنہ علاج تھا وہ بتا دیا اور میں نے ان دواؤں کے ساتھ دعا کو شامل کر لیا۔ ڈاکٹروں کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ آنکھوں کو قابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔Optic Nervesکو پہنچنے والے نقصان کی نہ تو تلافی ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مداوا ہے‘ لہٰذا جو نقصان ہو چکا ہے اس کو ٹھیک کرنا ناممکن ہے ‘تاہم مزید نقصان کو روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔پھر ایک معجزہ ہوا اور نہ صرف یہ کہ میرے بصری اعصاب (Optic Nerves)کی مزید توڑ پھو ڑ رُک گئی بلکہ ان کو پہنچ جانے والا نقصان جو بقول ڈاکٹروں کے دوبارہ ٹھیک ہونا ناممکن تھا اس میں بہت بہتری آئی۔ ملتان کے ایک ممتازسرجن کے بقول ہم نے گلوکوما کے مرض سے بصارت کو ہونے والے نقصان میں واپس بہتری کے بارے میں پڑھا تو ضرور ہے مگر اپنی آنکھوں سے ایسا پہلا مریض دیکھ رہا ہوں۔ اس ڈاکٹر نے کہا کہ ایسا ہونے کی امکانی شرح دس لاکھ میں سے ایک ہے یعنی ون ان اے ملین۔ اور میں دس لاکھ میں سے وہی ایک والا شخص تھا۔
اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو بتا سکوں کہ میری آنکھوں کا مسئلہ پرانا بھی ہے اور ٹیڑھا بھی۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ میرے لئے اب زیادہ دیر تک مسلسل پڑھنا اور لکھنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ کسی زمانے میں جتنا ایک نشست میں پڑھ لیتا تھا اب تو اتنا سارے دن میں پڑھ لوں تو غنیمت ہے۔ لیکن کتابوں کی ہڑک ایسی لگی ہوئی ہے کہ جہاں اچھی کتاب دکھائی دے ضرور خرید لیتا ہوں۔ قریب سو کے لگ بھگ ایسی کتابیں اب ایک علیحدہ شیلف میں پڑی ہوئی ہیں جو پڑھے جانے کی قطار میں لگی ہوئی ہیں۔ کتاب ہو‘ کتابوں کی دکان ہو یا لائبریری ہو۔ ان کی محبت دل میں یوں جاگزیں ہو چکی ہے کہ یہ تینوں چیزیں اس عاجز کے چلتے قدم روک لیتی ہیں۔ اور لائبریری! یہ تو ایسی دلکشی ہے کہ راہ چلتے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ابا جی مرحوم نہ صرف لائبریرین تھے بلکہ فنافی الائبریری تھے۔وہ حادثاتی طور پر اس پیشے میں نہیں آئے تھے۔ یہ پیشہ انہوں نے اپنے شوق کے باعث اختیار کیا تھا اور اپنے اس شوق کو زندگی بھر اس لگن سے نبھایا کہ ان کو جاننے والے ان پر رشک کرتے تھے۔ جب آپ کا پیشہ آپ کا شوق بھی ہو تو آپ کی زندگی ربِ کائنات کی طرف سے ایک انعام بن جاتی ہے۔ ابا جی مرحوم کو اللہ نے اس معاملے میں بہت نوازا ہوا تھا۔ جب وہ بی اے کر رہے تھے تب برصغیر تقسیم ہو گیا۔ ایمرسن کالج ملتان کا ہندو لائبریرین اس تقسیم میں دیگر ہندو اور سکھ پروفیسروں کے ہمراہ بھارت چلا گیا۔ تقسیم کے وقت سید سعادت علی شاہ ایمرسن کالج میں پرنسپل کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ایمرسن کالج کا ہندو لائبریرین بھارت چلا گیا تو کالج کی لائبریری لاوارث ہو گئی۔ ابا جی اپنی کلاسوں سے فارغ ہونے کے بعد اپنا بیشتر وقت کالج کی لائبریری میں گزار دیتے تھے۔ یہ بات ان کے پرنسپل محمد ابراہیم خان کو بہت اچھی طرح معلوم تھی۔ محمد ابراہیم خان صاحب ایمرسن کالج کے 1925ء سے لے کر مئی 1947ء تک مسلسل بائیس سال پرنسپل رہے۔ وہ ایمرسن کالج کے دوسرے پرنسپل تھے جو پہلے انگریز پرنسپل مسٹر ایف آر ٹوم لنسن کے بعد اس کالج کے سربراہ مقرر ہوئے۔ انہوں نے اپنے بعد آنے والے پرنسپل اور انگریزی کے نہایت ہی شاندار پروفیسر اور عالم سید سعادت علی شاہ کو مشورہ دیا کہ اب جبکہ کوئی تربیت یافتہ لائبریرین میسر نہیں تو اس طالب علم کو بی اے کے بعد لائبریرین لگا دیا جائے کہ یہ اس لائبریری کو خوب اچھی طرح جانتا بھی ہے اور اسے کتابوں سے رغبت بھی ہے سو یہ اس کو بخوبی سنبھال لے گا۔ سید سعادت علی شاہ نے ابا جی کو کہا کہ وہ اپنے والد کو لے کر ان کے پاس آئیں۔ ابا جی بتاتے ہیں کہ پہلے پہل تو میں گھبرا گیا کہ آخر ان سے ایسا کیا قصور یا غلطی سرزد ہوئی ہے کہ ان کو یہ کہا گیا ہے کہ وہ اپنے والد کو لائیں۔ تاہم پرنسپل صاحب نے انہیں کہا کہ وہ ان کیلئے اس کالج میں بطور لائبریرین کے تقرر کا سوچ رہے ہیں‘ اس سلسلے میں وہ ان کے والد صاحب کو ملنا چاہتے ہیں۔
دادا جی نے یہ سنتے ہی کہ انہیں کالج کے پرنسپل نے بلایا ہے باقی بات سننے سے قبل ہی ابا جان کو ڈانٹنا شروع کردیا کہ ان کی کسی غلطی کے باعث انہیں کالج میں پیشی بھگتنی پڑ رہی ہے لیکن جب اصل بات بتائی تو وہ کالج جانے پر رضا مند ہو گئے۔
پرنسپل نے ان کی رائے چاہی تو دادا جی نے انہیں کہا کہ انہوں نے تو کبھی سکول کی شکل بھی نہیں دیکھی‘ کجا کہ وہ اب پرنسپل صاحب کو اپنی رائے دیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے۔ دادا جی نے سارا اختیار پرنسپل صاحب کو دے دیا۔ انہوں نے ابا جی کے بی اے کانتیجہ آتے ہی انہیں اَن ٹرینڈ لائبریرین لگا دیا۔ بعد ازاں تین سال بعد انہیں چھٹی دے کر لاہور بھیجا گیا جہاں تب لائبریری کی تعلیم کے سلسلے میں سرٹیفکیشن کورس کروایا جاتا تھا۔ابا جی پنجاب یونیورسٹی سے (CLSC)سرٹیفکیٹ اِن لائبریری سائنس کرکے آئے۔1975ء میں پنجاب یونیورسٹی میں ماسٹرز اِن لائبریری سائنس کی کلاسز کا آغاز ہوا۔ ابا جی پنجاب یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں ماسٹرز کرنے والی اولین کلاس میں شامل تھے۔ تب ابا جی کی عمر پچاس سال تھی۔ انہوں نے سال بھر کا یہ کورس چھٹی لے کر مکمل کیا۔
قارئین! میں غیر ضروری طوالت اورتفصیل کیلئے معذرت خواہ ہوں مگر کیا کروں‘ کوشش کے باوجود میں اپنی اس بری عادت پر قابو نہیں پا سکا‘ تاہم یہ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ ابا جی نے لائبریرین کا پیشہ اپنی مرضی اور منشا سے اختیار کیا اور اپنے علم کو وقت کی مناسبت سے اپ ڈیٹ بھی کرتے رہے۔ وہ لائبریری اور لائبریرینز سے محبت سے کہیں بڑھ کر عشق کرتے تھے۔ مجھے کتابوں سے محبت شاید ابا جی کی طرف سے خون میں ملی تھی جو اَب تک چل رہی ہے اور اس طرح چل رہی ہے کہ اب میں پندرہ بیس منٹ سے زیادہ لگاتار پڑھ نہیں سکتا اس کے بعد میری آنکھیں دھندلا جاتی ہیں اور ان سے پانی بہنا شروع ہو جاتا ہے لیکن وہی بقول شیخ ابراہیم ذوق:
اے ذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
کتاب سے تعلق جڑ جائے تو پھر آنکھیں ساتھ نہ بھی دیں مگر یہ رشتہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔ جب کسی کتاب دوست کو ایک دن میں کتاب ختم کرتے دیکھتا ہوں تو مارے حسد کے میرا برا حال ہو جاتا ہے‘ مگر پھر اپنے مالک کا شکر کرتا ہوں کہ اس کے بے پایاں کرم کے طفیل بھلے لگاتار نہ سہی مگر پڑھ تو سکتا ہوں۔ اس دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو اس نعمت سے بھی محروم ہیں۔ یہی حال میرا لائبریری سے محبت کا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جب میں کسی لائبریری کی بات کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں ابا جی کی روح کو خوش کر رہا ہوں۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں