"KMK" (space) message & send to 7575

کتاب اور لائبریری سے محبت …(3)

ملتان کی لائبریریوں کے ساتھ کیا گزری؟ یہ ایک نہایت ہی درد ناک موضوع ہے۔ ضلع ملتان تقریباً پونے دو سو سال پرانا ہے۔ اس کے ڈپٹی کمشنر آفس کی ایک لائبریری تھی۔ گورے ڈپٹی کمشنر صرف ڈپٹی کمشنر بننے کے لیے ہی پڑھائی نہیں کرتے تھے بلکہ جن جن اضلاع میں افسری کرتے تھے وہاں ایک عدد ضلعی گزٹیئر بھی مرتب کرتے تھے اور اس حوالے سے اپنے ضلع کے بارے میں ہر ضروری بات سے آگاہ بھی ہو جاتے تھے۔ ضلع ملتان کے ڈپٹی کمشنر آفس کی لائبریری میں گزشتہ ڈیڑھ سو سال کا ملتان محفوظ تھا۔ اور نہ صرف ڈیڑھ سو سال کا ملتان اور اس کا تاریخ و تمدن محفوظ تھا بلکہ ملتان کی قبل از مسیح تک کی تاریخ کے بارے میں بے شمار نایاب کتب اور دستاویزات بھی موجود تھیں۔ یہ تب کی بات ہے جب سرکاری افسران کو کتاب اور قلم سے دلچسپی اور محبت تھی۔ پھر ایسے افسر آنا شروع ہو گئے جنہوں نے آخری بار پڑھائی تب کی تھی جب وہ سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ اس امتحان میں کامیابی کے بعد ان کا پڑھنے کا مقصد پورا ہو گیا تو انہوں نے کتاب سے اپنا ناتا توڑ کر فائلوں سے جوڑ لیا ‘ظاہر ہے فائلوں میں وہ کچھ پوشیدہ ہوتا ہے جس کی عام آدمی کو خبر ہی نہیں ہوتی۔ اب افسروں کی دلچسپی کا محور ایسی فائلیں ہوتی ہیں جن میں سے کچھ ذاتی فائدے کی امید ہو۔
جب صدر پرویز مشرف کے دور میں ضلعی حکومتوں کا آغاز ہوا تو ڈپٹی کمشنر نامی عہدے کو ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر میں تبدیل کر دیا گیا۔ تب بہت سے تگڑم قسم کے افسروں نے شہر کے حاکم افسر کے درجے سے نیچے اُتر کر ضلع ناظم اور شہر کے میئر کا ماتحت بن کر کام کرنے سے احتراز کرتے ہوئے ڈی سی او بننے سے انکار کردیا۔ تاہم تھوڑے عرصے بعد علم ہوا کہ ان میں سے بہت سے افسر اب پچھتا رہے ہیں کہ انہوں نے ہاتھ آئی یہ سونے کی چڑیا کیوں چھوڑ دی۔ ضلعی حکومتوں کے نئے نظام میں جہاں ڈی سی او‘ اب ڈپٹی کمشنر کی طرح ضلعی افسرِمال تو نہیں رہے تھے مگر ترقیاتی کاموں میں انہیں جب مال ملنا شروع ہوا تو وہ اپنی ڈپٹی کمشنری کا زمانہ بھی بھول گئے۔ خیر! بات کہیں اور چلی گئی۔ جونہی ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ختم ہوا‘ پڑھنے لکھنے جیسے کاموں کو فضولیات سمجھنے والے سرکاری افسروں نے لائبریری جیسی بے کار شے سے جان چھڑوائی۔ ملتان کے ڈپٹی کمشنر آفس کی نایاب اور نادر کتابوں پر مشتمل لائبریری‘ جو ڈیڑھ سو سال کی محنت کا حاصل تھی‘ ڈپٹی کمشنر آفس سے اٹھا کر ضلع کچہری کے سامنے والے سول لائنز کالج میں پھینکوا دی گئی۔ میں نے جو حروف ''پھینکوا دی گئی‘‘ لکھے ہیں تو یہ بالکل حقیقت پر مبنی ہیں کہ یہ ساری کتابیں کالج میں موجود لائبریری میں سنبھال کر رکھنے کے بجائے ایک کمرے میں ''ڈمپ‘‘ کر دی گئیں۔ ایک دو لوگوں سے پوچھا کہ ڈپٹی کمشنر آفس کی لائبریری کہاں چلی گئی ہے تو کسی کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ کتابیں کہاں پھینکی گئی ہیں۔ کافی تگ و دو کے بعد علم ہوا کہ ساری کتابیں مٹی اور دیمک کا رزق بننے کے لیے ایک کمرے میں بکھری پڑی ہیں۔ میں نے ایک کالم میں اس پر خامہ فرسائی کی اور اس طرف توجہ مبذول کروائی تو یہ کتابیں زکریا یونیورسٹی کی لائبریری میں بھجوا دی گئیں لیکن کسی کو علم نہیں کہ ڈپٹی کمشنر آفس سے کتنی کتابیں سول لائنز کالج میں پھینکی گئیں اور ان میں سے کتنی کتابیں واپس زکریایونیورسٹی پہنچیں۔ صرف ایک کمرے کے حصول کی خاطر ضلع کی ڈیڑھ سو سال پرانی تاریخ کو ضائع کر دیا گیا۔
فی الوقت عالم یہ ہے کہ اس خطے میں میلسی میں موجود فیصل مسعود جھنڈیر لائبریری کتابوں کے عشاق کے لیے جنتِ ارضی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ لائبریری اس کتاب دشمن صحرا میں ایک نخلستان کی مانند ہے۔ سردار پور جھنڈیر کی یہ لائبریری گو کہ قدامت کے اعتبار سے تو سو سال سے زیادہ قدیم ہے لیکن اسے نئی شکل دینے کا سہرا غلام احمد جھنڈیر کے سر جاتا ہے جنہوں نے ایک گاؤں میں موجود لائبریری کو پاکستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری کے مرتبے پر فائز کردیا۔ آٹھ وسیع و عریض کمروں اور ایک عدد آڈیٹوریم پر مشتمل یہ لائبریری صرف لائبریری نہیں بلکہ ایک ریسرچ سنٹر کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ یہاں آنے والے محققین اور علم کی پیاس بجھانے والوں کے لیے مہمان خانہ بھی ہے اور مہمانداری کے لوازمات بھی۔ ساڑھے تین لاکھ سے زائد کتابوں کے اس ذخیرے میں چار ہزار کے لگ بھگ قلمی نسخے اور مخطوطے ہیں جن میں سے تیرہ سو تو صرف قرآن مجید کے قلمی نسخے ہیں۔ اللہ جانے میلسی کے اس زمیندار خانوادے کو سو سال پہلے کتاب سے محبت کس طرح ہوئی اور پھر آنے والوں نے اپنے پرکھوں کی روایت کو آگے بڑھایا۔ حیرت ہے کہ غلام احمد جھنڈیر‘ جو خودبہت اعلیٰ تعلیم کے حامل نہیں ہیں‘ کو کہیں بھی کسی ذاتی لائبریری کی کتابیں فروخت ہونے کی خبر ملے تو وہ کتابوں کا یہ مجموعہ مارکیٹ سے بڑھ کر قیمت ادا کرکے اپنی لائبریری میں لے آتے ہیں۔ پہلے جو نایاب کتابیں ردی میں بکتی تھیں‘ اب جھنڈیر لائبریری والے اسے اپنے ذخیرۂ کتب کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ فیصل مسعود جھنڈیر لائبریری کتاب سے محبت کی ایک ایسی مثال ہے جو کم کم دکھائی دیتی ہے۔
دوسری طرف سرکاری سرپرستی میں موجود لائبریریوں کا حال بیان کروں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس خطے میں ایمرسن کالج کی لائبریری کبھی سب سے بڑی لائبریری تھی۔ جب ابا جی مرحوم نے اس لائبریری کا چارج سنبھالا تو اس میں دس ہزار سے زیادہ کتابیں تھیں۔ ابا جی اس لائبریری میں 1948ء سے لے کر 1989ء تک لگاتار41سال لائبریرین رہے۔ اس دوران کتابوں کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ کے لگ بھگ ہو گئی۔ ان کتابوں میں ایسی ایسی نایاب کتابیں تھیں جو اس پورے خطے میں صرف اسی لائبریری میں تھیں۔ لائبریری کے اندر داخل ہوتے ہی بڑا ہال تھا جس میں ایک عدد پرانا لکڑی کا کاؤنٹر تھا اور اس کے سائیڈ پر چار پانچ درازوں والے ریک تھے جن میں لائبریری کی کتابوں کی ترتیب شدہ فہرست تھی۔ ہرکتاب کا ایک کارڈ تھا جس پر اس کا سیریل نمبر اور کلاسیفکیشن کی گئی تھی۔ کاؤنٹر پر تو حفیظ‘ ابراہیم یا صفدر وغیرہ بیٹھتے تھے جبکہ کاؤنٹر کے ساتھ لگی ہوئی میز پر ڈی کے خالد بیٹھتے تھے۔ تلہ گنگ کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والے ڈی کے خالد کا آبائی نام تو دھمن خان تھا مگر وہ ملتان شہر میں آکر ڈی کے خالد ہو گئے تھے۔ ایم اے سیکشن میں پہلے چچا ظفر اور بعد ازاں چچا منظور اس کے انچارج بن گئے۔ تب یہ ہال کتابیں لینے کے منتظر طلبہ سے ہمہ وقت بھرا رہتا تھا اور روزانہ بلا مبالغہ درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کتابوں کا اجرا ہوتا تھا۔ ابھی یہ پابندی بھی تھی کہ کسی طالب علم کو بیک وقت دو سے زیادہ کتابیں نہیں دی جائیں گی۔ کتابوں کی ایسی بہارلگی ہوتی تھی کہ بندہ سوچے تو حیران رہ جاتا ہے۔
ابا جی اس لائبریری سے بطور لائبریرین چار عشرے منسلک رہے۔ اس دوران انہوں نے اس کالج کے 16سربراہ دیکھے۔ ابا جی نے لائبریرین ہونے کو کبھی نوکری نہیں سمجھا تھا اور لائبریری کو جائے ملازمت کے بجائے اپنا دوسرا گھر سمجھا تھا۔ وہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی نہ صرف ایمرسن کالج کی بلکہ ملتان کے بیشتر کالجوں کی لائبریریوں کی بہتری کے لیے کوشاں رہے۔ ابا جی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایمرسن کالج میں چچا رشید قیصرانی بطور لائبریرین آ گئے جو 2010ء میں ریٹائر ہوئے۔ اس دن سے آج تک تیرہ سال گزر چکے ہیں مگر یہ لائبریری کسی باقاعدہ لائبریرین سے محروم ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں