"KMK" (space) message & send to 7575

معاملات…(3)

ہم گھر بیٹھے مغربی معاشرے میں ہزار کیڑے نکال سکتے ہیں لیکن اس معاشرے میں جو خوبیاں ہیں ان کو بیان کرتے ہوئے ہم خوفِ فسادِ خلق کے مارے رُک جاتے ہیں۔ مثلاً ہم یہ تو لکھ دیتے ہیں کہ مغرب میں عورت کو برابری کا جھانسہ دے کر اس کے کندھوں پر معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے جبکہ ہمارے ہاں عورت کو گھر میں بٹھا کر عزت سے زندگی گزارنے کی سہولت میسر ہے‘ تاہم اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عورت کو معاشی مجبوریوں کے طفیل جس استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے اور عورت کو معاشی میدان میں مرد کی ہمسری سے روکنے میں بھی اس طرزِ عمل کے پیچھے اسلامی سے زیادہ نفسیاتی طور پر مرد کی عورت پر حکمرانی کی خواہش کا عمل دخل ہے۔ وگرنہ اسلام کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ اُم المومنین خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عملی طور پر تجارت پیشہ خاتون تھیں اور عرب کے روایتی قدامت پرست معاشرے کے اسلامی معاشرے میں ڈھلنے کے بعد خواتین کیلئے آزادی اور حقوق کا ایسا دروازہ کھلا جس کا اس سے پہلے اس پورے خطے میں کوئی تصور بھی نہیں تھا۔
ہمارے ہاں عورت کو گھر بٹھانے کے جو خود ساختہ تصورات ہیں‘ ان کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ ادھر کسی ہٹے کٹے مانگنے والے کو کام کرنے کا کہیں تو وہ اپنی نام نہاد معذوری یا مجبوری بیان کرکے کام کرنے سے استثنا کا مقدمہ پیش کر دیتا ہے۔ اسے کہیں کہ اس کی گھر والی کو باعزت روزی کمانے کا موقع فراہم کیا جا سکتا ہے تو وہ کہے گا کہ عورت سے کام کروانا یا کسی کے گھر بھیجنا اس کی غیرت کے منافی ہے۔ ہاں! اس کی گھر والی سڑک کے کنارے یا بازار میں لوگوں کے آگے ہاتھ تو پھیلا سکتی ہے مگر محنت مزدوری کرنے سے اس کی غیرت پر چوٹ پڑتی ہے۔
مغرب میں عورت اور مرد کی باہمی رضا مندی سے ہونے والے معاملات پر ہم بڑے زور و شور سے تنقید بھی کرتے ہیں اور اپنی اخلاقی اقدار کا ڈھول بڑی شدو مد سے بجاتے ہیں لیکن اپنے ہاں بلا رضا مندی اور جبر سے ہونے والے واقعات سے آنکھیں چُرا لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں کبھی کوئی چوہدری صاحب مزارعے کی بیٹی کو اٹھا لیتے ہیں اور کبھی کسی ملک صاحب گھریلو ملازمہ سے زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سردار‘ وڈیرے اور جاگیردار اپنے زیرسایہ رہنے والوں کو اپنی زرخرید رعایا سمجھتے ہیں۔ سندھ کے پیر کے گھر میں نابالغ ملازمہ کے ساتھ گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا ہے‘ مغرب میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ مغرب میں بلا رضا مندی اور جبر سے اس قسم کے واقعات کے رونما ہونے کی شرح ہماری نسبت بہت ہی کم ہے۔ وہاں پولیس کے پاس درج ہونے والی اس قسم کی شکایات کی بیشتر تعداد ایسی ہوتی ہے جو زبردستی سے زیادہ بعد ازاں ہونے والی باہمی بدمزگی کے باعث درج ہوتی ہیں اور ایسی شکایات پر بھی عورت کو بھرپور قانونی تحفظ دیا جاتا ہے۔ راہ چلتے کسی کو اٹھا نایا گھر سے اغوا کروالینا اور زبردستی بازو سے پکڑکر گاڑی میں ڈال لینے کا تو شاید سال میں کوئی ایک آدھ واقعہ ہو جائے جبکہ ہمارے ہاں اخبارات روز ایسی خبروں سے بھرے دکھائی دیتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ ہم اپنی اخلاقی بڑائی کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک زمانے تھا کہ اکیلی عورت زیورات سے لدی ہوئی مصر سے چلے اور شام جا پہنچے اور کوئی مرد اسے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے۔ جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کا بڑا مشہور واقعہ ہے کہ رات کو عورت اکیلی جا رہی تھی‘ سید نا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوچھتے ہیں اے عورت! تجھ کو اکیلے سفر کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا؟ عورت کہتی ہے: یا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا ہے یا پھر آپ ہی عمرؓ ہو‘ وگرنہ عمرؓ کی خلافت میں کسی کی جرأت نہیں کہ عورت کی طرف کوئی دیکھے بھی۔ لیکن عالم یہ ہے کہ آج زیورات کے بغیر بھی عورت‘ رات تو چھوڑیں دن کو بھی مکمل مامون و محفوظ نہیں ہے۔
اسے آپ قانون کی عملداری کہیں یا اخلاقیات کی پاسداری کہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ عورت کو اس کی رضا مندی کے بغیر نہ تو کوئی چھو سکتا ہے اور نہ چھیڑ چھاڑ کر سکتا ہے اور یہ ادھر کا عمومی رویہ ہے۔ ایک آدھ استثنائی واقعہ پورے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔ ایک زمانہ تھا جب میں سٹیشن انڈر لائن کے ٹاؤن سنٹر میں واقع اپنے ایک دوست کے فلیٹ میں ہر سال مہینہ بھر قیام کرتا تھا۔ رات کو بارہ ایک بجے سڑک سے ٹک ٹک کی آواز آنے پر متجسس ہو کر کھڑکی سے جھانکا تو دیکھا کہ ایک خاتون اونچی ایڑی والی جوتی بجاتی بلا فکر و تردد فٹ پاتھ پر مزے سے جا رہی ہے۔ ویران پارکس کے دور افتادہ کونوں میں نوجوان لڑکیوں کو بلا خوف و خطر جوگنگ یا سیرکرتے دیکھنا معمول کی بات ہے۔ کسی عورت سے پوچھیں کہ اسے اکیلے میں سفر کرتے‘ سیر کرتے یا جوگنگ کے دوران کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا تو وہ حیرانی سے آپ کی طرف دیکھے گی اور پوچھے گی کہ خوف کس بات کا؟
میں چند سال پہلے برطانیہ گیا تو اسد اور انعم میرے ہمراہ تھے‘ ہم لوگ مانچسٹر کے سٹی سنٹر میں واقع ایک ہوسٹل میں مقیم تھے۔ میں نے انہیں ٹرانسپورٹ کارڈ بنوا دیے تھے اور صبح ناشتے کے بعد ہم لوگ جدا ہو جاتے تھے۔ میں دوستوں سے ملنے کیلئے سٹیشن یا اولڈھم چلا جاتا تھا اور وہ دونوں اِدھر ادھر گھومنے یا شاپنگ مالز میں ونڈو شاپنگ کرنے نکل جاتے۔ ہم رات کو ہوٹل میں اکٹھے ہوتے تھے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے سارا دن ان کی رتی برابر فکر نہیں ہوتی تھی۔ گزشتہ سے پیوستہ سال انعم مرے ساتھ اکیلی تھی اور ہم سابقہ روٹین کے مطابق صبح جدا ہو جاتے تھے اور شام کو اکٹھے ہو جاتے تھے۔ اس دوران مجھے اس کے بارے میں کوئی تشویش یا پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ فکر تو مجھے تب ہوتی تھی جب وہ کبھی ملتان میں اکیلی ہوتی تھی۔ادھر کسی خاتون کو دوبار غور سے دیکھنا بھی ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ آوازہ کسنا یا چھیڑنا تو رہا ایک طرف کسی کو اتنی جرأت بھی نہیں ہوتی کہ وہ کسی خاتون کو بار بار دیکھے‘ گھورے یا معمولی سی غیر اخلاقی حرکت کرے۔
بچوں کی سکولوں میں ایسی تربیت کی جاتی ہے جو انہیں مستقبل میں مفید شہری بننے میں مدد دیتی ہے۔ چند سال قبل امریکہ میں مقیم میرا ایک دوست اپنے بیوی بچوں کو تین چار سال کیلئے پاکستان لے آیا۔ اس کا بچوں کو پاکستان میں رکھنے کا بنیادی مقصد انہیں اُردو سے روشناس کروانا اور بقول اس کے رشتوں کی پہچان کروانا اور اپنے پاکستان میں مقیم کزنز سے بطور فیملی ممبر روشناس کروانا تھا اور وہ اپنے تینوں مقاصد میں کامیاب ہوا۔ ساری بات سنانے کے بعد کہنے لگا: خالد بھائی! بس ایک مسئلہ پیدا ہولیا ہے۔ میرے دونوں بچے جب پاکستان گئے تھے تو جھوٹ کے نام سے بھی واقف نہیں تھے لیکن اب نہ صرف یہ کہ جھوٹ بولتے ہیں بلکہ بڑے دھڑلے سے بولتے ہیں۔
ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر اور یکساں نہیں ہیں لیکن اس معاشرے میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو جھوٹ نہیں بولتے‘ ملاوٹ نہیں کرتے‘ صفائی کا خیال رکھتے ہیں‘ غلطی سے ٹکرا جائیں تو معذرت کرتے ہیں‘ کوئی راستہ دے تو اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ آپ کو سڑک کنارے کھڑا دیکھ کر گاڑی روک دیتے ہیں اور سڑک پار کرنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ تعلیم سے کہیں بڑھ کر تربیت کے مرحلے سے گزرنے کا ثبوت دیتے ہیں۔ میری تو بس اتنی خواہش ہے کہ ہمارے شہروں اور تعلیمی اداروں میں تربیت پر توجہ دی جائے اور معاملات پر زور دیا جائے۔ معاشرے دعووں سے نہیں بلکہ عمل سے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں وگرنہ ہم سے بڑھ کر اور کون دعوے کرتا ہوگا؟ معاشرے ماضی کے مزاروں پر نہیں‘ حال کے معاملات کے زور پر ندہ رہتے ہیں۔(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں