"KMK" (space) message & send to 7575

موجِ خوں سر سے گزر جاتی ہے تب پوچھتے ہیں

اس عہد کے انتہائی عمدہ اور شاندار شاعر افتخار عارف کی عشروں پرانی بعض غزلیں ایسی تروتازہ اور نئی نکور ہیں کہ سنیں یا پڑھیں تو لگتا ہے گویا ابھی کل ہی لکھی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ سے ایسی مطابقت کہ اندازہ ہوتا ہے ہمارے حالات عشروں بعد بھی ویسے کے ویسے ہیں کہ یہ غزلیں اسی یکسانیت بھرے منظر کا نقشہ کھینچتی دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً اس غزل کو ہی دیکھ لیں۔
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہو گا
میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا
چراغِ حجرۂ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
زمیں جب عدل سے بھر جائے گی نورٌ علیٰ نور
بنام مسلک و مذہب تماشا ختم ہو گا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا
دلِ نامطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا
جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا
اب آپ غزل کو جتنا چاہیں پیچھے لے جائیں اور جتنا چاہیں حال میں لے آئیں سارے کا سارا منظر نامہ دیوار پر لگی ہوئی کسی تصویر کی مانند بے حس و حرکت، ایک جگہ پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
لاہور ڈی ایچ اے میں ہونیوالے دلخراش واقعے سے ہمارے کان وقتی طور پر کھڑے ہوئے ہیں اور اب عدالتیں بھی جاگ پڑی ہیں لیکن اسی ملک میں جب حالات بتدریج خرابی کی طرف گامزن ہوتے ہیں تو سب کے سب سرکاری ادارے بشمول قانون نافذ کرنے والے اور عدل و انصاف کرنے والے آنکھیں موندے اس کبوتر کی طرح سکون میں بیٹھے ہوتے ہیں جس پر بلی جھپٹنے والی ہوتی ہے۔ پھر جیسے ہی حالات بدترین نہج پر پہنچ جاتے ہیں سب کے سب ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھتے ہیں اور ان ساری درجہ بہ درجہ پیدا ہونے والی خرابیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے میں عدالتیں وہی احکامات جاری کرنا شروع کر دیتی ہیں جن پر وہ کبھی حکم امتناع جاری کرتی چلی آ رہی ہوتی ہیں۔
لاہور میں بغیر ہیلمٹ کے پٹرول دینے پر پابندی عائد کی تو بجائے اس کے کہ اس حکم کو عدالتی تحفظ اور چھتری فراہم کی جاتی اس حکمنامے کو معطل کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ڈپٹی کمشنر نے اپنی رہی سہی انتظامی عزت بچانے کیلئے آئندہ اس قسم کے احکامات جاری کرنے سے توبہ کر لی۔ ملتان شہر میں پندرہ جولائی سے بغیر ہیلمٹ چالان کا اعلان بڑے زور و شور سے ہوا مگر اس عاجز نے اس حکم پر نہ کسی کو عمل کرتے اور نہ ہی کرواتے دیکھا۔ گزشتہ دنوں لاہور مال روڈ سے گزر رہا تھا تو ہائیکورٹ والے چوک پر تین عدد بغیر ہیلمٹ والے نوجوانوں کو چالان کے عمل سے گزرتے دیکھا لیکن اسی دوران اسی چوک پر‘ انہی قانون نافذ کرنیوالے اہلکاروں کے سامنے سے چار عدد کالے کوٹوں میں ملبوس قانون کے علمبرداروں کو بغیر ہیلمٹ موٹرسائیکل گزارتے دیکھا۔ ان چاروں بلا ہیلمٹ موٹرسائیکل سواروں نے شاید کوئی ایسی نئی قسم کی سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی تھی کہ وہ مجھے تو دکھائی دے رہے تھے مگر ٹریفک وارڈنز کو دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ حالات ایک دم ہی خراب نہیں ہوتے‘ یہ مسلسل انحطاط کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جب حالات خرابی کی طرف اپنا سفر شروع کرتے ہیں ہم اس پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ اور جب حالات خرابی کی آخری نہج پر پہنچتے ہیں ہم کہرام مچا دیتے ہیں۔ وہی افتخار عارف کی غزل کے ایک شعر والی صورتحال ہے :
کیسے خوش طبع ہیں اس شہرِدل آزار کے لوگ
موجِ خوں سر سے گزرتی جاتی ہے تب پوچھتے ہیں
اب اچانک اربابِ اقتدار کو‘ ٹریفک پولیس کو‘ ہم لکھنے والوں کو اور عدل و انصاف کے منصب پر فائز قاضیانِ شہر کو خیال آیا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ کوئی بھی ادارہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا اور موجِ خوں جب تک ہمارے سر سے نہیں گزر جاتی ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ بلا ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانا اور کم عمر ڈرائیوروں کا گاڑی چلانا تو ایک مسئلہ ہے‘ اگر غور کریں تو ہماری سڑکوں پر اس قسم کے بے شمار مسائل ہیں جو آہستہ آہستہ اس پورے نظام کو برباد کر رہے ہیں۔کسی مستری نے جگاڑ لڑاتے ہوئے موٹرسائیکل کیساتھ پندرہ گز پائپ‘ چار فٹ سریے‘ ایک لوہے کی چادر‘ دو عدد ٹاٹروں اور دو عدد سیٹوں کو ویلڈنگ کے زور پر جوڑ کر ایک عدد چاند گاڑی ایجاد کرکے سڑک پر چھوڑ دی۔ یہ اس ملک کے ذہین لوگ کی جانب سے عالمی سطح پر اس قبیل کی پہلی ایجاد تھی جو چنگ چی کے نام نامی سے موسوم ہو کر ہماری زندگی میں داخل ہوئی۔ کسی ادارے نے نہیں پوچھا کہ یہ کیا شے ہے؟ ایکسائز والوں کے ہاں موٹرسائیکل دو لوگوں کی سواری کے طور پر منظور شدہ ہے۔ اس چنگ چی کا کیا سٹیٹس ہے؟ یہ ابھی تک بطور موٹر سائیکل (جو دو لوگوں کی سواری ہے) ایکسائز کے کاغذات میں درج ہے جبکہ اس پر دس سے پندرہ لوگ سواری کر رہے ہیں۔ اصولاً یہ اب پبلک سروس وہیکل ہے اور کمرشل گاڑی ہے مگر ہمارے ہاں یہ ابھی تک موٹرسائیکل کے زمرے میں ہے اور اس ملک میں جتنے حادثات اس سکائی لیب کے طفیل وقوع پذیر ہوئے ہیں اس کا حساب لگائیں تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔جب ان کی تعداد درجنوں میں تھی کسی کو اس کے بارے میں کوئی قاعدہ وضابطہ بنانے یا پابندی لگانے کا خیال نہیں آیا۔ اب لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر ہیں تو کسی کو ان پر پابندی لگانا تو رہا ایک طرف سواریوں والی کیٹیگری میں لانے کی جرأت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ایک جملہ بہت مستعمل ہے کہ ''غریب آدمی ہے‘ جانے دیں۔‘‘ امیر آدمی کسی اور طرح سے اور غریب آدمی کسی دوسرے طریقے سے اس ملک کا بیڑہ غرق کر رہا ہے۔ ریاست کی بے بسی ملاحظہ کرنی ہو تو مملکتِ خداداد پاکستان پر نظر دوڑا لیں۔اس کے بعد یہ ہوا کہ کسی اور ذہین و فطین آٹو موبائل انجینئر عرف مستری کے دماغ میں خیال آیا کہ اسے بھی کوئی ایسی ایجاد کرنی چاہئے جس سے اس کا نام بھی ایڈیسن اور آئن سٹائن کے ہمراہ عظیم موجدوں میں شمار ہو سکے۔ اس نے موٹرسائیکل کے پیچھے چار عدد پھٹے لگا کر لوڈر موٹرسائیکل ایجاد کر دیا۔ اندھیرے میں سائڈوں پر نکلے ہوئے ان پھٹوں کے طفیل اگلے جہان کی طرف کوچ کرنے والے متاثرین کی تعداد تقریباً تقریباً اس سامان کے برابر ہے جو ان لوڈر موٹرسائیکلز عرف لوڈر رکشاؤں نے منزل مقصود تک پہنچائے ہیں لیکن یہ زمینی راکٹ کسی ادارے کی منظوری‘ کسی موٹر وہیکل ایگزامنر کی طرف سے کسی قسم کے مختص کردہ معیار یا اس سے مطابقت کا کھیکھڑ پالے بغیر سڑکوں پر دندنایا پھر رہا ہے۔
رہ گئی بات کم عمر ڈرائیوروں کی تو یہ عاجز ایک دن ملتان کے ایک ہائی سکول کے سامنے کھڑا تھا کہ چھٹی کا وقت ہو گیا۔ سکول کے اندر سے کم از کم دو سو طلبا موٹرسائیکلوں پر نکلے۔ ظاہر ہے اس ہائی سکول میں سب سے بڑی کلاس دسویں کی تھی اور دسویں کے طالب علم کی عمر بھلا پندرہ سولہ سال سے کیا زیادہ ہو گی۔ یہ صرف ایک سکول کا حال تھا۔ شہر میں اس قسم کے درجن بھر سکول تو ہوں گے۔ ماں باپ اپنی آسانی اور ٹریفک پولیس اپنی نالائقی کے طفیل آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے‘ اوپر سے عدالتیں حکم امتناعی جاری کرنے میں اپنا خاص مقام رکھتی ہیں۔ ایسے میں پھر افتخار عارف ایک بار پھر یاد آتے ہیں
موجِ خوں سر سے گزر جاتی ہے تب پوچھتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں