"KMK" (space) message & send to 7575

ڈرامہ بلکہ ٹوپی ڈرامہ

ملک میں جس قسم کے الیکشن ہونے جا رہے ہیں اس سے مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آ گیا ہے۔ یہ قریب بائیس پچیس سال پرانی بات ہے‘ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے چار شعبہ جات میں فل پروفیسر کی اسامیاں نکلیں۔ ان چار اسامیوں کیلئے اخبارات میں اشتہار دیا گیا جس میں ان اسامیوں کے لیے مطلوبہ تعلیمی و تحقیقی قابلیت اور شرائط درج تھیں تاکہ ان کے مطابق امیدوار اپنی درخواستیں جمع کروا سکیں۔ ہوا یوں کہ ان چاروں اسامیوں پر تعیناتی کیلئے پہلے ہی سے یونیورسٹی میں موجود چار عدد ایسوسی ایٹ پروفیسروں کو تعینات کرنے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ ظاہر ہے یہ فیصلہ میں نے‘ آپ نے تو نہیں کیا ہوگا۔ رواج کے مطابق ان چاروں پسندیدہ امیدواروں کو ترقی دے کر فل پروفیسر بنانے کا فیصلہ یونیورسٹی اسٹیبلشمنٹ نے کیا تھا جس کا سربراہ رئیسِ جامعہ یعنی وائس چانسلر تھا۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے کہ اگر وائس چانسلر اپنے پسندیدہ امیدواروں کو اگلے گریڈ میں بھیجنا چاہتا ہے تو وہ ان لوگوں کیلئے اگلے گریڈ کی اسامیاں مشتہر کر دے‘ لیکن گڑ بڑ یہ ہوئی کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے پروفیسروں کی ان چار عدد اسامیوں کیلئے جو اشتہار دیا وہ ایک انگریزی لفظ کے مطابق tailor-made قسم کا تھا۔ یعنی صرف انہی چار عدد ایسوسی ایٹ پروفیسروں کو سامنے رکھ کر بنایا گیا تھا جن کو ان اسامیوں پر تعینات کرنا مقصود تھا۔ یہ چاروں حضرات اپنے اپنے مضمون میں پی ایچ ڈی تھے۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس اشتہار میں مطلوبہ تعلیمی اور تحقیقی قابلیت کے مقابل پی ایچ ڈی کے علاوہ اس مضمون کی اس شاخ کو نمایاں کر دیا جاتا جس کیلئے پروفیسر مطلوب تھا‘لیکن کام پکا کرنے کی غرض سے نہ صرف اس مضمون اور آگے سے اس کی تخصیصی برانچ کی شرط عائد کی گئی بلکہ چاروں پسندیدہ امیدواروں کے پی ایچ ڈی کے مقالوں کے موضوع کو بھی اس اشتہار کا حصہ بنا دیا گیا۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی موضوع پر پی ایچ ڈی کیلئے ایک ہی مقالے کی منظوری دی جاتی ہے اور اس خاص موضوع پر محض ایک ہی تحقیقی مقالہ لکھا جا سکتا ہے‘ اس حساب سے ان چاروں اسامیوں پر سوائے ان چار ایسوسی ایٹ پروفیسروں کے اور کوئی شخص تکنیکی حوالے سے اپلائی نہیں کر سکتا تھا اور اگر ہمت کرکے اپلائی کر بھی دیتا تو اس کی درخواست ابتدائی سکروٹنی میں اسی طرح مسترد ہو جاتی جس طرح آج کل پی ٹی آئی کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہو رہے ہیں۔
خیر سے سلیکشن کمیٹی بیٹھی تاہم اس کی حیثیت اور اختیار اسی قدر تھا جتنا آج کل آر اوز کا ہے۔ لہٰذا وہی نتیجہ نکلا جو امید تھی۔ ادھر ان چاروں امیدواروں کو پروفیسر کی اسامیوں پر منتخب کیا گیا اور ساتھ ہی رئیسِ جامعہ نے اپنے خصوصی اختیار 16- Cکا استعمال کرتے ہوئے‘ جو عموماً مالی معاملات میں پیش آنے والی کسی ایمرجنسی نوعیت کی صورتحال سے نپٹنے کیلئے وائس چانسلر کو تفویض کئے گئے ہیں‘ ان تعیناتیوں کو فی الفور منظور کر دیا۔ اس غلط بخشی اور طریقہ کار پر اعتراض کرتے ہوئے میں نے تب کے وائس چانسلر کو اس سلسلے میں ایک خط لکھا جس میں اس خلافِ قانون طریقہ کار پر وائس چانسلر کی توجہ مبذول کروائی مگر کیونکہ اس ساری کارروائی کے پیچھے موصوف کا ہی ہاتھ تھا لہٰذا اس درخواست نما خط کا وہی حشر ہوا جو آج کل اس قسم کی درخواستوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔میں نے وائس چانسلر کے اس اقدام پر یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے ارکان کو ایک خط لکھا جس میں اشتہار میں دیے گئے مندرجات اور پسندیدہ امیدواروں کیلئے ''پری پول رگنگ‘‘ پر روشنی ڈالی اور مزید لکھا کہ ان اسامیوں پر ہونے والی تعیناتیوں کی اس طرح سیکشن سولہ سی کے تحت افراتفری میں منظوری اخلاقی طور پر غلط اور ضابطے کے اعتبار سے خلافِ قانون ہے کیونکہ ان تعیناتیوں کی منظوری دراصل سنڈیکیٹ کا کام ہے۔ یہ چاروں افراد یونیورسٹی میں اپنی اپنی پوسٹ پر موجود ہیں اور پڑھانے کیساتھ ساتھ باقاعدہ تنخواہ بھی لے رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کوئی ایسی ایمرجنسی صورتحال ہرگز درپیش نہیں کہ ان کی کنفرمیشن کیلئے رئیسِ جامعہ ایمرجنسی میں استعمال ہونیوالے خصوصی اختیار کو اس عمومی صورتحال میں استعمال کرے۔ ان حالات میں جبکہ سنڈیکیٹ موجود ہے‘ رئیس جامعہ کی طرف سے اس اختیار کا استعمال جہاں انتہائی نامناسب ہے وہیں یہ سنڈیکیٹ کے وجود اور اس کے ارکان کے منہ پر ایک طمانچہ بھی ہے کیونکہ ان اساتذہ کی تعیناتی کی کنفرمیشن کرنا سنڈیکیٹ کا اختیار ہے۔ جسے وائس چانسلر غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر از خود استعمال کر رہا ہے۔ میں نے اس خط میں ارکان سنڈیکیٹ کو اپنے تئیں غیرت دلانے کی کوشش کی جو لاحاصل ثابت ہوئی۔ میں نے تنگ آکر اس ساری صورتحال کے بارے میں ایک تفصیلی خط گورنر پنجاب‘ جو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کا چانسلر ہوتا ہے‘ لکھ کر آگاہ کیا اور اس سارے غیر قانونی عمل کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی درخواست کی۔میری اس ساری بھاگ دوڑ اور مسلسل درخواست بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان چار امیدواروں میں سے ایک امیدوار جو میرا دوست تھا‘ ناراض ہو گیا تاہم گورنر نے بطور چانسلر اس پر انکوائری کا حکم دے دیا اور یونیورسٹی کے ایک سینئر پروفیسر کی سربراہی میں ایک کمیٹی اس معاملے کی جانچ پڑتال کیلئے قائم کر دی گئی۔ کمیٹی نے رپورٹ دی کہ خالد مسعود خان کے خط میں اٹھائے گئے تمام اعتراضات سو فیصد درست ہیں تاہم اب چونکہ سارا عمل مکمل ہو چکا ہے اس لئے اسے جوں کا توں رہنے دیا جائے‘ تاہم اس واقعہ کی بنیاد پر آئندہ کیلئے ایسے واقعات سے بچنے کی غرض سے باقاعدہ طریقہ کار طے کیا جائے اور اس قسم کی صورتحال کے سدباب کا بندوبست کیا جائے۔ یعنی جو کچھ ہو گیا اس پر مٹی ڈالی جائے اور آئندہ کیلئے احتیاط کی جائے۔ یہ فیصلہ بھی ہماری عزت مآب اعلیٰ عدالتوں کے نظریۂ ضرورت والے فیصلوں کی شاندار توسیع تھا۔
اب بھی آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن کی جو تصویر دکھائی دے رہی ہے وہ اس قسم کی ہے کہ جیسی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کی جانب سے چار پروفیسروں کی اسامیوں کے لیے دیا گیا اشتہارتھا۔ صرف ان چار پروفیسروں کے نام اور تصویر کے علاوہ اس اشتہار میں ہر وہ چیز موجود تھی جن پر صرف اور صرف یہی چار پروفیسر پورا اترتے تھے۔ اشتہار تو صرف ضابطے کی کارروائی تھی۔اس قسم کی حرکت کیلئے انگریزی میں Formality کا لفظ موجود ہے۔ حالیہ الیکشن کا اعلان اور سارے اقدامات بھی کسی Formality سے زیادہ نہیں بلکہ اس میں تو کسی اخبار میں اشتہار دینے کا تکلف بھی نہیں کیا گیا‘ تاہم سب کو دکھائی دے رہا ہے کہ پسندیدہ امیدوار کون ہے اور اسے لانے کیلئے کیا کیا حربے اور حیلے استعمال کئے جا رہے ہیں۔جب سب کچھ طے شدہ ہے تو پھر اس سارے کھڑاک کی کیا ضرورت ہے؟ ملک کے پاس جہازوں کی لیز ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں تو ان حالات میں ایسے الیکشن پر‘ جس کا نتیجہ طے شدہ ہے‘ 47.4 ار ب روپے لگانے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ نہ صرف فضول خرچی ہے بلکہ سرا سر اسراف ہے۔ کم از کم اس اسراف سے تو بچا جا سکتا ہے۔ ایک ایسی نام نہاد نیک نامی کے حصول کیلئے جس کی حقیقت سب کو معلوم بھی ہے اور دکھائی بھی دے رہے ہے 47 ارب روپے کے لگ بھگ رقم خرچ کرنے کا آخرت میں حساب کون دے گا؟ ایسا کیا جائے کہ فضول میں اتنا خرچہ کرنے کے بجائے اپنے پسندیدہ امیدواروں کا نام لکھ کر پرچی اٹھا لی جائے اور اس قرعہ اندازی کے نتیجے میں اسمبلی وجود میں لائی جائے۔ رہ گیا متوقع وزیراعظم! تو اس کا نام سب کو معلوم ہے۔ اس آسان اور سستے طریقے سے مقتدرہ اپنے پسندیدہ بندے کو عنانِ حکومت بخش دے تاکہ یہ ڈرامہ بلکہ ٹوپی ڈرامہ ختم ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں