"KMK" (space) message & send to 7575

موازنہ…(3)

سٹوٹگارٹ لائبریری پر تیسرا کالم لکھنے کیلئے بیٹھا ہی تھا کہ فون پر میسج الرٹ کی گھنٹی بجی‘ دیکھا تو برادرم منیب الحق کا وائس میسج تھا جو اس نے بڑے جلالی موڈ میں بھیجا تھا۔ مرشد! آپ اُدھر ٹھنڈے ٹھار علاقے میں مزے سے گھوم رہے ہیں اور اِدھر ملک میں جمہوریت اور انتخابی نظام کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے۔ آپ سب کام چھوڑیں اور فوری طور پر پاکستان آ جائیں۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اسے وائس میسج کا کیا جواب دوں کہ فون کی گھنٹی بجی۔ اب واٹس ایپ پر شوکت گجر تھا۔ یہ ٹیلی پیتھی کا کرشمہ تھا یا محض ایک حیران کن اتفاق تھا کہ شوکت گجر نے بھی چھوٹتے ہی کہا کہ ادھر الیکشن سر پر ہیں‘ ہر طرف جمہوری نظام کو بلڈوز کرکے مرضی کے نتائج لینے کیلئے بندوبست زوروں پر ہے جمہوریت کا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے اور آپ اُدھر لائبریریوں میں گھوم پھر رہے ہیں۔ میں نے شوکت کی بات پوری تسلی اور ٹھنڈے دل سے سنی‘ جب اُس نے اپنی تقریر دلپذیر ختم کی تو میں نے اْس سے پوچھا کہ کیا اب میں کچھ عرض کر سکتا ہوں؟ شوکت نے احتراماً مجھے یہ اجازت مرحمت فرما دی۔ میں نے کہا :چوہدری شوکت علی صاحب! آپ کا کیا خیال ہے یہ سارے معاملات میرے بیرون ملک دورے کی وجہ سے خراب ہوئے ہیں؟ شوکت ادھر اُدھر کی بات کرنے لگا مگر میں نے اسے کہا کہ آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے آپ میرے سوال کا سیدھا جواب دیں کہ کیا ملک میں جمہوریت کی کسمپرسی اور انتخابی معاملات میں ہونے والی ساری گڑ بڑ کی واحد وجہ یہ ہے کہ میں ملک سے باہر چلا گیا ہوں؟ شوکت کہنے لگا: میں نے یہ تو نہیں کہا۔ پھر میں نے اُس سے پوچھا :چلو یہ بتا دو کہ اگر میں فوری طور پر وطن واپس آ جاؤں تو کیا جمہوریت تروتازہ ہو جائے گی اور الیکشن میں دکھائی دی جانے والی ساری ہینکی پھینکی ختم ہو جائے گی؟ شوکت کہنے لگا: نہیں یہ بھی نہیں ہوگی۔ میں نے اُسے مزید بیک فٹ پر لے جاتے ہوئے سوال کیا کہ کیا میں خالد مسعود خان ہی ان ساری خرابیوں کا ذمہ دار ہوں؟ وہ کہنے لگا: بھائی جان! آپ تو میری بات کو کسی اور طرف لے گئے ہیں۔ میں نے کہا: اب میری آخری بات کا جواب بھی دے دو اور وہ یہ کہ کیا میں واپس آکر یہ ساری خرابیاں ٹھیک کر سکتا ہوں؟ شوکت کہنے لگا: نہیں یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ میں نے کہا: تو پھر آپ مجھ پر سارا ملبہ کیوں ڈال رہے ہیں؟ بقول آپ کے نہ یہ ساری خرابیاں میری ملک سے غیر حاضری کے باعث ہو رہی ہیں اور نہ ہی میری واپسی سے ان میں کسی بہتری کا امکان ہے تو آپ مجھے اس افراتفری میں واپس آنے کیلئے کیوں کہہ رہے ہیں؟ میں اچھا خاصا اس سارے سیاسی جنجال سے جان چھڑوا کر اپنا دل کتابوں میں لگانے کی کوشش کر رہا ہوں تو بھلا اس میں خرابی ہی کیا ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے کہ ان حالات میں جب کہ ہم از خود کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا کہ ہمارے آنے یا جانے سے ان کو کسی قسم کا فرق پڑے جو ہمیں عشروں سے اپنی مرضی سے ہانک رہے ہیں۔ ویسے تم تسلی رکھو‘ میں ووٹ ضرور ڈالوں گا کہ مجھ سے صرف اور صرف میرے ووٹ کے بارے میں سوال ہوگا۔ نظام کے بارے میں قادرِ مطلق مجھ سے قطعاً کوئی باز پرس نہیں کرے گا کہ اس عالم غیب کو میری اوقات کا بخوبی علم ہے۔ یہ ساری تقریر سن کر شوکت نے فون بند کر دیا۔ یہی وائس میسج میں نے منیب الحق کو بھی کردیا۔
ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد کتابوں پر مشتمل سٹوٹگارٹ سٹی لائبریری دراصل شہر میں قائم لائبریریوں کے نظام کا صدر دفتر بھی ہے‘ جس کے زیرانتظام شہر میں قائم دیگر سترہ لائبریریاں اور دو عدد بک موبائلز ہیں جو خصوصی لوگوں کو کتاب کی سہولت گھر میں مہیا کرتی ہیں۔ یہ اس شہر کا حال ہے جس کی آبادی سوا چھ لاکھ سے تھوڑی سی زیادہ ہے‘ یہ آبادی سٹوٹگارٹ کے سارے میونسپل علاقے میں رہائش پذیر افراد پر مشتمل ہے جو تقریباً207 مربع کلو میٹر پر محیط ہے۔ یہ لائبریری جس سٹی ڈسٹرکٹ میں واقع ہے اس کی آبادی کے حساب سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس ڈسٹرکٹ کے ہر رہائشی نے اس لائبریری سے سال 2023ء میں اوسطاً آٹھ کتابیں مستعار لے کر پڑھی ہیں۔ جب لائبریرین نے یہ بات کہی تو میں نے مسکرا کر بابر اقبال کی طرف دیکھا جو کھسیانا سا ہو کر دوسری طرف دیکھنے لگ گیا۔
جب ہم لائبریری سے باہر آ رہے تھے تو بابر کہنے لگا کہ اس خاتون نے آپ کو بالکل غلط معلومات فراہم کی ہیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ وہ کیسے؟ بابر کہنے لگا :آپ کو اس خاتون نے بتایا ہے کہ اس لائبریری سے سٹوٹگارٹ کے ہر شہری نے آٹھ کتابیں لے کر پڑھی ہیں جبکہ میں نے تو ایک بھی کتاب لے کر نہیں پڑھی تو یہ خاتون اپنے حساب کتاب میں مجھے کیوں شامل کر رہی ہے؟ میں نے کہا: اس کے دو جواب ہیں۔پہلا یہ کہ تم دراصل اس سٹی ڈسٹرکٹ میں رہتے ہی نہیں ہو۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ خاتون نے اوسطاً بتایا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری جگہ سٹوٹگارٹ کے کسی اور شخص نے آٹھ کے بجائے سو لہ کتابیں پڑھ لی ہیں تو اس میں سے تمہیں اوسطاً کی مد میں آٹھ کتابوں کا قاری ہونے کا شرف مفت میں حاصل ہو گیا ہے۔ اس بات پر قہقہہ لگااور بات ختم ہو گئی۔
رات ہائیڈل برگ جاتے ہوئے راستے میں اویس کھوسہ سے اس بارے میں بات ہوئی تو وہ بھولا آدمی ہمیں اوسط کا مفہوم سمجھانے لگ گیا۔ ہم نے بھی مزے لینے شروع کردیئے۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا اسے اوسط نتائج کے سو فیصد درست ہونے پر یقین ہے؟ وہ بھولے پن میں پھنس کر کہنے لگا کہ اوسط حساب کا وہ فارمولا ہے جو درست جواب دیتا ہے۔ میں نے کہا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر میں اپنا ایک پاؤں سو ڈگری سینٹی گریڈ کے گرم توے پر اور دوسرا پاؤں صفر درجہ سنٹی گریڈ کے ٹھنڈے برف کے بلاک پر رکھ لوں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میرے دونوں پاؤں اوسطاً پچاس ڈگری سنٹی گریڈ کے قابلِ برداشت درجہ حرارت پر ہیں؟ کھوسہ گڑ بڑا کر کہنے لگا :اوسط ایک شخص کی نہیں بلکہ زیادہ لوگوں کے درمیان نکالی جاتی ہے۔ میں نے کہا: چلیں فرض کریں ایک گاؤں کی آبادی سو افراد پر مشتمل ہے ان میں سے ساٹھ لوگ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں‘ تینتیس لوگ تین وقت کی نماز ادا کرتے ہیں اور سترہ لوگ بالکل بھی نماز نہیں پڑھتے تو اس حساب کی رُو سے اس گاؤں کے سو افراد اوسطاً چار نمازیں پڑھتے ہیں۔ جو لوگ پانچ وقت نماز پڑھتے تھے اوسط کے چکر میں ان کی تو ایک نماز کم ہو گئی۔ تین والوں کو ایک نماز بونس میں مل گئی اور سترہ افراد کو بیٹھے بٹھائے چار نمازوں کا صافی نفع ہو گیا۔ کھوسہ پریشان ہو کر کہنے لگا: آپ کو دراصل اوسط کی سمجھ نہیں آ رہی۔بابر نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا: پریشان ہونے کی زیادہ ضرورت نہیں‘ ہم دراصل تمہیں اس بات پر تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اوسط کی بنیاد پر نکالے جانے والے نتائج کبھی قابلِ اعتبار نہیں ہوتے چاہے وہ کتابوں کے حوالے سے ہوں یا الیکشن کے نتائج کے حوالے سے ہوں۔ میں نے کہا : ہم پاکستانی ہر بات کو کسی نہ کسی طریقے سے گھسیٹ کر سیاست کی جانب لے جاتے ہیں۔ لائبریری والی سیدھی بات کو گھما پھرا کر سیاست کی طرف نہ لے جاؤ اور یہ بتاؤ کہ تمہاری جگہ پر کون شخص آٹھ کتابیں پرھ گیا ہے ؟ بابر ہنسنے لگ گیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر ملتان شہر کی کل آبادی کا سال بھر میں کتاب پڑھنے کی اوسط کا موازنہ سٹوٹگارٹ سے کیا جائے تو سوائے شرمندگی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ کل آبادی کو تو چھوڑیں ملتان ضلع کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد بیس لاکھ سے زیادہ ہے اس حساب سے ان بالغ افراد کی حرف شناسی کا سالانہ اوسط اگر ایک صفحہ بھی نکل آئے تو بڑی بات ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں