"KMK" (space) message & send to 7575

شیر شاہ سوری سے لے کر آئن سٹائن تک

اللہ بخشے ہمارے ایک مرحوم دوست کہا کرتے تھے کہ کوئی شعر کبھی پرانا نہیں ہوتا‘ اگر وہ جاندار ہے۔ تاہم ایک اور مشاعرہ باز شاعر سے اس بارے میں رائے لی تو وہ کہنے لگے کہ کوئی شعر کبھی پرانا نہیں ہوتا‘ بشرطیکہ سامعین نئے ہوں۔ اسی طرح کبھی کوئی لطیفہ پرانا نہیں ہوتا اگر صورتحال نئی ہو یا سامع نیا ہو۔ اب صورتحال چونکہ نئی ہے اس لیے لطیفہ پرانا نہیں ہو سکتا۔
امریکہ کی کسی دور افتادہ جنوبی ریاست کے ایک چھوٹے سے شہر میں سیاستدانوں کا کنونشن ہو رہا تھا اور اس میں شرکت کرنے کی غرض سے ایک پارٹی کے دس بارہ سیاستدان ویگن میں جا رہے تھے۔ آپ کو علم ہو گا کہ امریکہ کی دو چار جنوبی ریاستوں میں بعض جگہوں پر میلوں دور تک انسانی آبادی یا ذی روح دکھائی نہیں دیتا۔ فی مربع میل آبادی کا یہ عالم ہے کہ وائی اومنگ میں اوسط آبادی سوا دو افراد فی مربع کلو میٹر ہے۔ راستے میں ایک صحرا ٹائپ ویرانہ پڑتا تھا جو کئی سو میل پر مشتمل تھا۔ اس طویل ویرانے میں سے گزرتے ہوئے‘ جہاں دور دور تک نہ بندہ نہ بندے کی ذات تھی‘ ڈرائیور کو نیند آ گئی۔ جب سیدھی سڑک دور تک کسی ٹریفک کے بغیر ہو تو نیند آ جانا عام سی بات ہے۔ لہٰذا ڈرائیور کو نیند آ گئی۔ ڈرائیور کو نیند آ جانے کے باعث تیز رفتار ویگن سڑک سے اُتر گئی اور انتہائی زیادہ رفتار سے جا کر ایک درخت میں ٹکرا گئی۔ یہ محض اتفاق تھا کہ جس جگہ یہ خوفناک حادثہ پیش آیا اس کے بالکل قریب ہی ایک گیس سٹیشن (امریکہ میں پٹرول پمپ کو گیس سٹیشن کہتے ہیں) اور ایک شاپ تھی جسے ایک بوڑھا چلاتا تھا۔ اس ویرانے میں موبائل فون نہیں چلتے تھے۔ ( لطیفہ اسی طرح ہے‘ اس لیے اس میں مین میخ نکالنے‘ منطقی سوالات کرنے اور عقلی قسم کے اعتراضات کرنے سے پرہیز کریں)
سیاستدانوں نے اس کنونشن سے ایک دن پہلے اُس شہر میں پہنچنا تھا لیکن اس ایکسیڈنٹ کی وجہ سے وہ وہاں نہ پہنچے۔ منتظمین نے سوچا کہ شاید وہ لوگ آج رات کے بجائے کل صبح آئیں گے اس لیے کوئی زیادہ پریشانی نہ ہوئی؛ تاہم جب صبح تک بھی وہ نہ پہنچے تو وہ پریشان ہو گئے۔ جب جائے روانگی فون کیا تو علم ہوا کہ وہ لوگ تو کل صبح ہی روانہ ہو گئے تھے۔ اب پریشانی شروع ہو گئی۔ کچھ لوگ ایک گاڑی میں سوار ہو کر ان کی تلاش میں چل پڑے۔ دو اڑھائی سو کلو میٹر چلنے کے بعد ایک جگہ پر انہیں ایک درخت سے ٹکرائی ہوئی ویگن کا ڈھانچہ کھڑا نظر آیا؛ تاہم اس میں سوار لوگوں کا دور دور تک کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ جائے حادثہ سے چند سو گز دور ایک گیس سٹیشن کو دیکھ کر وہ اُدھر کو چل پڑے۔ وہاں ایک بوڑھا موجود تھا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ اس حادثے کے بارے میں کچھ جانتا ہے؟ بوڑھے نے بتایا کہ یہ حادثہ کل دوپہر کو پیش آیا تھا۔ وہ ادھر بیٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس نے ایک دھماکے کی آواز سنی۔ باہر نکل کر دیکھا تو اُدھر‘ اس نے جائے حادثہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایک گاڑی بڑے بُرے طریقے سے درخت میں ٹکرائی ہوئی ہے۔ وہ فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچا اور بمشکل تمام لوگوں کو ویگن سے نکالا اور اکیلے نے ہی انہیں دفن کر دیا۔ پھر اس نے بتایا کہ اس عمر میں یہ کام بڑا مشقت طلب تھا مگر وہ کیونکہ کافی سخت جان ہے اس لیے وہ اکیلے ہی یہ کام کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایک شخص نے اس سے پوچھا کہ کیا تمام لوگ مر گئے تھے؟ بوڑھا کہنے لگا کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس ویگن میں سوار تمام لوگ جو کہ سیاستدان تھے‘ مر گئے تھے۔ ایک اور شخص نے پوچھا کہ کیا ان دس بارہ لوگوں میں کوئی ایک بھی زندہ نہیں تھا؟ بوڑھا کہنے لگا کہ جب وہ انہیں دفن کر رہا تھا تو دو‘ تین لوگ کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں‘ لیکن آپ کو تو علم ہی ہے کہ یہ سیاستدان کبھی بھی سچ نہیں بولتے۔ لہٰذا میں نے ان کی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی اور انہیں بہرحال دفن کر دیا۔
سیاستدانوں کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کبھی سچ نہیں بولتے اور یہ خوبی دنیا بھر کے سیاستدانوں میں واحد قدرِ مشترک ہے‘ تاہم ہمارے سیاستدان اس سلسلے میں سب سے نمبر لے گئے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ ہمارے کسی سیاستدان نے کبھی سچ بولنے کی زحمت کی ہو۔ ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی سے سندھ میں کرپشن کا گزشتہ پندرہ سال کا حساب لینا تھا لیکن بجائے حساب لینے کے‘ وہ زرداری صاحب کو ووٹ دینے پہنچ گئے اور ووٹ بھی بظاہر غیرمشروط طور پر دیا گیا ہے۔ یہ بھی اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ ایم کیو ایم کسی کو غیرمشروط ووٹ دے دے۔ اُدھر دوسری طرف میاں شہبازشریف نے جن کا پیٹ پھاڑ کر کرپشن کی دولت نکالنی تھی' ان کے اتحادی بن گئے اور جس شخص کو لاڑکانہ‘ کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنا تھا اس کو ایوانِ صدر میں چھوڑ آئے ہیں۔ یعنی کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔
آصف علی زرداری نے اس احسانِ عظیم کا بدلہ اتارتے ہوئے جوابی طور پر ایک بیان میں میاں شہباز شریف کو آئن سٹائن قرار دے دیا۔ اللہ جانے اس تشبیہ کے پیچھے ان کی آئن سٹائن کے بارے میں لاعلمی کار فرما تھی یا وہ اپنی اس تشبیہ کو از خود مذاق سمجھ کر لمبی چھوڑ رہے تھے؛ تاہم اللہ جانے اس اعزاز کے ملنے پر میاں شہباز شریف فخر محسوس کر رہے ہیں یا اندر سے شرمندہ ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اس قسم کے خطابات عطا کرنا پرانی روایت ہے‘ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے اس قسم کے خطابات آپس میں تقسیم کیے جاتے تھے اور اب عالم یہ ہے کہ اس قسم کے خطابات اتحادیوں کو بھی عطا کیے جا رہے ہیں۔
چند سال قبل عمران خان نے ہمارے پیارے عثمان بزدار کو پہلے تو وسیم اکرم پلس قرار دیا۔ بقول شاہ جی عثمان بزدار کو وسیم اکرم پلس قرار دینے کے پیچھے عمران خان کے پیشِ نظر عثمان بزدار کی تعریف کرنا یا انہیں خراجِ تحسین پیش کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ وسیم اکرم سے کوئی پرانا بدلہ لیتے ہوئے اس کی تحقیر کرنا اور اس کی عزت خراب کرنا مقصود تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح تم اپنے ایک کلاس فیلو کی بے عزتی کرنے کے لیے اسی قسم کے ٹیکنیکل داؤ کھیلا کرتے تھے۔ ہماری کلاس میں دو عدد راؤ صاحبان تھے۔ ایک راؤ سے ہم لوگ نہ صرف بڑے تنگ تھے بلکہ ان کے جھگڑالو پن سے تنگ آکر یا ڈر کر انہیں کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ہم نے دوسرے راؤ کو ''راؤ معقول‘‘ کہہ کر پکارنا شروع کردیا۔ اس خطاب کے پیچھے یہ جذبہ ہرگز کار فرما نہیں تھا کہ اس راؤ کو معقول کہنا ہماری دلی خواہش تھی بلکہ اس کے پیچھے دراصل دوسرے راؤ کے بارے میں یہ بات دیگر لوگوں کے دل و دماغ میں ڈالنی تھی کہ وہ نامعقول ہے۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ عثمان بزدار کو وسیم اکرم پلس قرار دینا دراصل عثمان بزدار کو خراجِ تحسین پیش کرنا نہیں تھا بلکہ دراصل وسیم اکرم کو احساس دلانا تھا کہ تم عثمان بزدار سے بھی نیچے کی چیز ہو جبکہ وہ تم سے نہ صرف بہتر ہے بلکہ ایک نمبر آگے ہے۔
اپنے پیارے عثمان بزدار کی بات چلی تو یاد آیا کہ ایک بار خان صاحب نے انہیں شیر شاہ سوری سے بھی تشبیہ دی تھی۔ میں نے اُن دنوں شیر شاہ سوری کی اس تحقیر پر صدائے احتجاج بلند کی تو شاہ جی نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ خان صاحب نے یہ تشبیہ جن چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دی ہے تم اس سے آگاہ نہیں ہو۔ شیر شاہ سوری نے برصغیر میں زمین کا پہلا بندوبست کروایا تھا اور عثمان بزدار نے بھی اپنے دورِ اقتدار میں زمین ہی کا بندوبست کیا ہے‘ پھر کیا ہوا جو انہوں نے زمین کا یہ بندوبست اپنی ذات کیلئے کر لیا۔ تشبیہ تو تشبیہ ہوتی ہے۔ اس پر رولا کیا ڈالنا۔ خواہ وہ آئن سٹائن سے دی جائے یا شیر شاہ سوری سے دی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں