"KMK" (space) message & send to 7575

ایک روزن تیری دیوار میں رکھ آیا ہوں

اعجاز بھائی کے ساتھ دن بڑے مزے سے گزرتا ہے۔ صبح تھوڑی دیر کیلئے وہ ڈیرے سے متصل اپنے دفتر میں خانہ پری کرتے ہیں۔ کاروبار اب عملی طور پر ان کے دونوں بیٹوں نے سنبھال رکھا ہے۔ اعجاز بھائی اپنی کام کی عادت سے مجبور ہو کر گھر نہیں بیٹھ سکتے لہٰذا زور زبردستی سے دفتر آ جاتے ہیں۔ دونوں بیٹوں سے ان کے بچوں کا حال چال پوچھتے ہیں۔ کرسٹی کو گڈ مارننگ کہتے ہیں۔ وِلی سے ہیلو ہائے کرتے ہیں۔ دفتر میں بیٹھ کر کمپیوٹر پر اپنی میلز چیک کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر نیٹ پر اخبار پڑھتے ہیں اور پھر میرے پاس ڈیرے میں آ جاتے ہیں۔ تب تک میں اپنی سستی کے باوجود نہا دھو کر تیار ہو چکا ہوتا ہوں۔ تھوڑی دیر ہم سٹنگ روم میں بیٹھ کر ادھر اُدھر کی گپ شپ مارتے ہیں۔ وہ پاکستانی ٹی وی چینلز کی بعض خبروں سے متعلق میری رائے جاننے کیلئے مجھے اکساتے ہیں اور میں عموماً انہیں غچہ دے جاتا ہوں۔ اب تو روزے ہیں‘ ورنہ میں اور اعجاز بھائی اس وقت اکٹھے کافی پیتے ہیں۔ کافی میں بناتا ہوں اور بقول اعجاز بھائی میرے جانے کے بعد وہ میرے علاوہ میری بنائی ہوئی کافی کو بھی بہت مِس کرتے ہیں۔ ایسا بارہا ہوا کہ میں نے انہیں پاکستان سے فون کیا اور انہوں نے بتایا کہ ڈیرے میں بیٹھا ہوں اور کافی پی رہا ہوں لیکن وہ مزہ نہیں آ رہا۔ میں ہر بار انہیں یہ کہتا ہوں کہ کافی کی لذت اور ذائقے کا تعلق صرف اس کے اجزا اور بنانے کے فن میں پوشیدہ نہیں‘ کافی سے اصل لطف لینے کیلئے ایک خاص فضا اور ماحول ضروری ہے اور سب سے اہم یہ کہ کافی پینے میں آپ کا ساتھ کون دے رہا ہے؟ درختوں سے اترے ہوئے بیجوں کو بھون کر اور پھر پیس کر حاصل ہونے والے برادے سے بنایا جانے والا مشروب آپ کی کیفین کی کمی اور طلب تو پوری کر سکتا ہے مگر وہ لطف نہیں دے سکتا جو من پسند لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر لیا جا سکتا ہے۔ یہ ایسی کیفیت ہے جس کے دوران گفتگو بھی بعض اوقات اضافی محسوس ہوتی ہے۔ آمنے سامنے بیٹھ کر بالکل خاموش رہتے ہوئے گرما گرم کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے کبھی کبھی تو ایسا لطف اور سکون ملتا ہے کہ اس کو بیان کرنا الفاظ کے بس کی بات نہیں۔
ایسے میں کبھی کبھی میں کافی کا مگ ہاتھ میں لیے برباد شدہ عیسن والا جنگل میں پہنچ جاتا ہوں۔ ملتان سے محض ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت پر یہ جنگل سردیوں میں میری سیلانی طبیعت کی سب سے نزدیکی اور آسان جائے پناہ تھی۔ سردی میں جنگل جانے کی ٹھرک پورا کرنے کیلئے کچھ زیادہ تردد اور اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ڈیرہ غازی خان کے دفتر جنگلات میں کسی کو کہہ کر بکنگ کروائی جاتی۔ بالکل معمولی سے سرکاری معاوضے پر دو دن کیلئے ریسٹ ہاؤس بک ہو جاتا اور میں بیوی بچوں سمیت اس ویرانے میں آ جاتا۔ پہلی بار شاید آج سے 30‘ 32 سال پہلے جانا ہوا۔ تب اس جنگل اور اس کے ریسٹ ہاؤس کی حالت بہت اچھی تھی۔ اس کے بعد سال بہ سال ملک کے دیگر حالات اور اداروں کی مانند مسلسل تنزلی کی ایک داستان ہے جو اس ریسٹ ہاؤس اور جنگل سے وابستہ ہے۔ یاد کروں تو دل پر گھونسا سا لگتا ہے۔
ملتان سے مظفر گڑھ‘ محمود کوٹ اور سناواں سے ہوتے ہوئے قصبہ گرمانی سے دریائے سندھ کی جانب جائیں تو بیٹ عیسن والا کے کنارے لگایا گیا یہ جنگل اور اس میں بنا ہوا دو بیڈ رومز‘ ایک عدد ڈائننگ و ڈرائنگ روم نما کشادہ کمرا اور برآمدے پر مشتمل ریسٹ ہاؤس ریاست بہاولپور کے سابقہ دیوان اور سابقہ صوبہ مغربی پاکستان کے پہلے گورنر نواب مشتاق احمد گرمانی کے داماد بریگیڈیئر (ر) غضنفر نے‘ جو ضیاء الحق کے دور میں صوبائی وزیر جنگلات تھے‘ بنوایا تھا۔ جب میں ادھر پہلی بار گیا تو ریسٹ ہاؤس بڑی اچھی حالت میں تھا۔ پھر ہر دو تین سال بعد جانا ہوا تو اس جنگل اور ریسٹ ہاؤس کی حالت جس تنزلی کی منظر کشی کرتی تھی وہ اس ملک کے پورے سماجی ڈھانچے اور اداروں کی بربادی کی عکاسی تھی۔
پہلی بار جب شام ڈھلے اس ریسٹ ہاؤس میں پہنچا تو کچی سڑک پر دور سے برآمدے کے باہر جلتے ہوئے روشن بلب نے میری رہنمائی کی۔ سردیوں میں بھلا ایئرکنڈیشنڈ کی کیا ضرورت پڑ سکتی تھی مگر ماسٹر بیڈ روم میں اے سی لگا ہوا تھا۔ دوسری بارجانے کیلئے دفتر جنگلات رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ ریسٹ ہاؤس کی بجلی کٹ چکی ہے۔ میں نے کہا کہ بھلا میں نے کون سا وہاں سلائی کڑھائی کرنی ہے۔ سردیوں میں نہ تو پنکھے کی حاجت ہے اور نہ ہی اے سی کی ضرورت ہے۔ ملتان سے دو درجن بڑی موم بتیاں لیں اور عیسن والا پہنچ گئے۔ تب تک اس ریسٹ ہاؤس کے ساتھ بنا ہوا ملازمین کا کوارٹر اور باورچی خانہ آباد تھا۔ باورچی خانے میں ایک لکڑی کے صندوق میں بڑا شاندار اور قیمتی ڈنر سیٹ اور ٹی سیٹ پڑے تھے۔ بجلی کٹ جانے کی وجہ سے پانی کی موٹر بند پڑی تھی۔ باتھ روم میں لوٹے کے ساتھ پانی سے بھری ہوئی بالٹی اور ایک پلاسٹک کا مگ موجود تھا۔ صبح نہانے کیلئے میں نیکر پہن کر سامنے صحن میں لگے ہوئے نلکے کے نیچے بیٹھ گیا۔ ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار نے نلکا چلایا۔ ہینڈ پمپ کا پانی تو معقول حد تک قابلِ برداشت تھا مگر ٹھنڈی ہوا ایسی تھی کہ لگ رہا تھا کہ کان جھڑ کر گر ہی جائیں گے مگر یہ سیلانی اس حال میں بھی خوش تھا۔ رات گئے 'بون فائر‘ ہوتا۔ ایلومینیم کی کیتلی میں دودھ ابال کر کافی بنائی جاتی۔ آگ کے اس الاؤ کے گرد بیٹھ کر میں اور میری اہلیہ کافی کے مگ ہاتھوں میں لیے خاموشی سے کافی پیتے۔ اس دوران صرف جلتی لکڑیوں کے چٹخنے اور جنگل سے جھینگروں کی مخصوص آوازیں اس خاموشی میں ایسی بھلی لگتیں کہ لگتا جنگل ہم سے ہم کلام ہے اور ہم اس کے نہایت تابعدار سامع ہیں۔
دو تین سال بعد پھر اندر کے جوگی نے جنگل کا قصد کیا۔ اس بار اے سی غائب تھا اور بجلی کے محکمے والے غالباً بل کی مسلسل عدم ادائیگی کے عوض ریسٹ ہاؤس کا ٹرانسفارمر بھی اتار کر لے جا چکے تھے۔ تب ملازمین نے بھی ریسٹ ہاؤس کی بری حالت کو مزید خراب کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا تھا۔ پلنگ‘ بسترے‘ کرسیاں‘ صوفے اور میزیں مٹی سے اَٹی پڑی تھیں۔ ہماری آمد کی خبر سن کر انہیں صاف کرنے کی کوشش تو کی گئی تھی مگر مہینوں کی پڑی مٹی صاف کرنا دو چار گھنٹوں کا کام نہ تھا۔ بھلا میرے علاوہ اور کتنے سر پھرے ہوں گے جو رات موم بتیوں کی روشنی میں اور صبح کھلے میدان میں لگے ہوئے نلکے تلے بیٹھ کر نہاتے ہوں اور رات گئے تک ایک آگ کے الاؤ کے گرد بیٹھ کر کافی سے لطف لینے کیلئے اس ویرانے میں آتے ہوں گے؟ پھر وہ چلی گئی جو اِن ویرانوں میں میرا ساتھ دیتی تھی اور رات کو پہلو میں پڑی کرسی پر بیٹھ کر میرے ساتھ کافی پیتی تھی۔ بچے تو چاہتے نہ چاہتے ساتھ چل پڑتے تھے‘ ماں کے جانے کے بعد انہوں نے سردی میں میرے ساتھ جنگل اور ویرانے چھاننے سے صاف انکار کر دیا۔ اب بھلا آگ کے الاؤ کے گرد بیٹھ کر کافی پینے کا نہ تو لطف رہا اور نہ جواز۔ ڈیڑھ عشرہ ہونے کو ہے‘ سردیوں میں عیسن والا جنگل کی طرف سے بلاوہ آتا ہے مگر میں سنی اَن سنی کر دیتا ہوں۔ بھلے وہ ریسٹ ہاؤس کھنڈر ہی کیوں نہ ہو گیا ہو‘ اگر وہ ہوتی تو سردیوں میں آگ کے الاؤ کے گرد کافی پینے کیلئے عیسن والا جنگل جاتا مگر صرف کافی پینا ہی تو مقصودِ مسافر نہیں ہے۔
کارلٹن میں عیسن والا جنگل کی یاد اداس کر دے تو میں کچن میں کافی بنانے لگ جاتا ہوں اور اعجاز بھائی کو فون کرکے کہتا ہوں: آ جائیں کافی پیتے ہیں۔
نہ سہی تُو‘ تری خوشبو تو ادھر آئے گی
ایک روزن تیری دیوار میں رکھ آیا ہوں
اور اس روزن کا کیا ہے؟ کبھی یہ عسین والا جنگل میں جا کھلتا ہے اور کبھی کارلٹن میں دکھائی پڑتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں