"KMK" (space) message & send to 7575

ایک دلت ہمسفر…(2)

میرے ہمراہی مسافر کا نام سری در تھا اور وہ تامل تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اس لفظ سے بخوبی آگاہ ہوں۔ یہ نچلی ذات کے ہندوؤں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں ہم صرف شودر سے متعارف تھے۔ پھر اچھوت کے معانی سمجھ میں آئے اور پھر یہ لفظ دلت ہمارے علم میں آیا۔ میرا خیال ہے یہ ایک دوسرے کے ہم معانی بھی ہیں اور ان کا مفہوم بھی تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔ وہ مسکرا کر کہنے لگا: آپ کسی حد تک درست ہیں۔ شودر ہی اچھوت تھے اور پھر اس کلاس کیلئے دلت کی ٹرمینالوجی مستعمل ہو گئی۔ وہ کہنے لگا: دلت ہو کر جینا تو یقینا مشکل ہے مگر دلت ہو کر کچھ بننا تو مشکل تر ہے۔
میں نے کہا: میں نے تھوڑا عرصہ پہلے ہی ایک کتاب میں دلت لوگوں کو بھارت میں آواز دینے والے اور ان کا مقدمہ لڑنے والے دلت حقوق تحریک کے بانی ڈاکٹر بھیم راؤ رام جی امبیدکر کے بارے میں پڑھا ہے۔ مختار مسعود نے اپنی آخری کتاب ''حرفِ شوق‘‘ میں اپنی علی گڑھ یونیورسٹی کی یادوں میں سٹریچی ہال میں ہونے والی تقریروں اور ان کے مقرروں کے بارے میں ایسی نادر و نایاب باتیں لکھی ہیں جو صرف پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی یادوں کی پٹاری میں ایسے بڑے بڑے لوگوں کا تذکرہ محفوظ ہے کہ ایک بار پڑھنا شروع کریں تو کتاب رکھنے کو دل نہیں کرتا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے سٹریچی ہال سے متعلق اپنی یادوں میں وہ دلت قوم کی آواز بننے والے ڈاکٹر امبید کر کے بارے میں رقمطراز ہیں:
''مقرر کی شہرت ہمیشہ اس کی آمد سے چند دن پہلے علی گڑھ پہنچ جاتی تھی۔ ایک بار سنا کہ اگلے ہفتے آنے والا مہمان مقرر بڑا انوکھا اور نرالا شخص ہے۔ ادنیٰ اور محروم طبقے کا فرد ہے مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ نیچ ذات ہے مگر اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہے۔ وائسرائے ہند کی کونسل کا ممبر یعنی وزیر ہے۔ اس کی زندگی جدوجہد کی کہانی ہے۔ پہلے یہ جدوجہد اپنے لیے تھی۔ اب ایک مدت سے یہ شخص اپنی ذات اور قوم کی محرومیوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ اچھوت برادری میں اب تک اس سے بڑا لیڈر پیدا نہیں ہوا۔ وہ انہیں پیار اور عقیدت سے بابا صاحب کہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے گاندھی جی پاپولر ہیں اور مصطفی کمال پاشا اتاترک‘ اچھوتوں کے فادر آف نیشن کا اصل نام بھیم راؤ رام جی امبیدکر ہے۔
نام کا کیا ہے جو چاہیں رکھ لیں۔ اس سے حقیقت تو نہیں بدل جاتی۔ بھیم جی سے مراد مہادیو (سب سے بڑا دیوتا) شیوجی ہے‘ مجازاً جو رعب دار اور خوفناک ہو اس کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ رام جی سے مراد سوائے شری رام چندر کے اور کون ہو سکتا ہے۔ بھیم راؤ رام جی نامی بچہ جب پہلی بار سکول گیا تو اسے اپنی اوقات کا پتا چلا۔ وہ صرف اور صرف امبیدکر ہے۔ سکول والوں نے اسے دوسرے لڑکوں کے ساتھ نہ بیٹھنے دیا‘ نہ ملنے دیا‘ نہ کھیلنے دیا۔ ماسٹر جی بھی اس سے دور دور رہتے تھے۔ وہ کونے میں تنہا بیٹھا رہا کیونکہ وہ اچھوت تھا۔ اس سے پہلے بھی کئی بچے آئے۔ کونے میں بٹھائے گئے۔ مایوس ہو کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور برصغیر کی وسعتوں میں گم ہو گئے۔ انہوں نے صرف نفرت کی تعلیم حاصل کی تھی۔ تعلیم‘ سماج اور مذہب سے نفرت‘ ان حالات میں امبیدکر کا ہائی سکول پاس کر لینا ایک غیرمعمولی کارنامہ قرار دیا گیا۔ جشن منایا گیا۔ اس کے اعزاز میں پبلک جلسہ منعقد کیا گیا۔
امبیدکر کولمبیا یونیورسٹی سے پڑھ کر واپس آیا۔ بڑودا ریاست کے شودر مہاراجہ نے اسے ایک عہدہ دے دیا۔ عہدے دار کی یہ حالت تھی کہ اس کے ادنیٰ ماتحت اس کو پینے کیلئے پانی دینے کے روا دار نہ تھے۔ جو پڑھے لکھے تھے وہ اسے کاغذ بھی دور سے دکھاتے تھے۔ وہ مزید تعلیم کیلئے انگلستان چلا گیا۔ ایم اے کیا‘ پی ایچ ڈی کا تھیسس مکمل کیا۔ بیرسٹری کی سند حاصل کی۔ وہ اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے والا پہلا اچھوت نوجوان تھا۔ اس کے لیے سب سے آسان راہ ِاختیار یہ تھی کہ وہ انگلستان کے بے تعصب ماحول میں باوقار زندگی بسر کرتا اور پیشہ ورانہ بلندیاں سر کرتا۔ اس نے ہندوستان واپس آنے کو ترجیح دی۔ اس پیدائشی شودر نے وکالت شروع کر دی۔ اس نے ساری زندگی ایک مقدمہ لڑنے میں صرف کر دی۔ یہ اچھوتوں کا مقدمہ تھا۔ اچھوت بنام اعلیٰ ہندو ذاتیں‘ اچھوت بنام ہندو مذہب‘ اچھوت بنام برطانوی سرکار‘ اچھوت بنام دیگر مذاہب (اسلام‘ مسیحیت‘ سکھ مت اور بدھ مت)۔
ڈاکٹر امبید کر پہلے بھارت کی مہا سبھا کا سپیکر بنا‘ پھر وزیر اور اس کے بعد بھارت کے آئین کا مسودہ بنانے والی کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ اس حیثیت سے بڑی محنت سے کام کیا‘ جوہر کھلے‘ مخالفت بڑھی‘ اہلیت کام آئی‘ نہ محنت‘ ذات کے نیچ پن نے راستہ روک لیا۔ لوک سبھا میں اس کی ایک تقریر پر طوفان کھڑا ہو گیا۔ وزیراعظم جواہر لال نہرو اس وقت لوک سبھا میں موجود تھے۔ خاموش اور لاتعلق تماشائی بنے رہے۔ طوفان امبیدکر کو بہا کر لے گیا۔ اس نے وزارت سے استعفیٰ دیا۔ عملی سیاست کو خیر باد کہا۔ وقت آنے پر احتجاجاً مذہب بھی تبدیل کر لیا۔ 1956ء میں ڈاکٹر امبیدکر کی قیادت میں ناگپور میں دو لاکھ شودر اپنا دھرم چھوڑ کر بدھ مت میں شامل ہو گئے۔ آبائی مذہب سے بیزاری کا اتنا بڑا جشن بھارت کی تاریخ نے اس سے پہلے کہاں دیکھا ہوگا۔ امبیدکر نے وعدہ کیا تھا کہ میں ہندو کی حیثیت سے نہیں مروں گا۔ اکتوبر کے مہینے میں تبدیلیٔ مذہب کا جشن منعقد ہوا اور چند ہفتے کے بعد دسمبر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ (اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے ڈاکٹر امبیدکر کو 1947ء سے 1956ء تک نوسال برداشت کیا‘ ہم سے تو قائداعظم کا لایا ہوا بنگالی دلت وزیر قانون و انصاف جوگندر ناتھ منڈل تین سال بھی برداشت نہ ہوا اور وہ 1950ء میں واپس بھارت چلا گیا اور گمنامی کے دھندلکوں میں کھو گیا)‘‘۔
سری در ڈاکٹر امبیدکر کے ذکر پر مغموم ہو گیا۔ کہنے لگا: وہ دلت اقوام کے پہلے وکیل تھے لیکن تامل ناڈو کی صورتحال بحیثیتِ ریاست بڑی خراب ہے۔ تامل ناڈو کا بھارتی جی ایس ٹی کے حساب سے مہاراشٹر کے بعد دوسرا نمبر ہے لیکن مرکز سے فنڈ نہیں ملتے۔ یہ کیرالا‘ کرناٹک‘ تلنگانہ کے ساتھ چوتھی ریاست ہے جو پوری طرح اینٹی بی جے پی ہے۔ گزشتہ دس سال میں بھارت کا سیکولر تشخص بدترین حد تک ہندو نظام حکومت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اقلیتیں بھارت کی بہت بڑی آبادی میں شرح فیصد کے لحاظ سے شاید کم دکھائی دیں‘ مگر گنتی میں بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً عیسائی بھارت کی کل آبادی کا 2.3فیصد ہیں جو بظاہر بڑا معمولی لگتا ہے مگر بھارت میں عیسائیوں کی کل تعداد پونے تین کروڑ کے لگ بھگ ہے اور یہ مسلمانوں کے بعد بھارت کی دوسری بڑی اقلیت ہیں۔ حتیٰ کہ سکھوں سے بھی زیادہ ہے۔ عیسائیوں کا بھارت پر عمومی اور نیچ ذات کے ہندوؤں کے لیے خصوصی احسان تعلیم کی آگہی بلا رنگ و نسل پھیلانا ہے۔ میں اور میرے بھائی آج جس مقام پر ہیں وہ عیسائیوں کے قائم کردہ تعلیمی اداروں کے طفیل ممکن ہوا۔ ورنہ بھارت میں نچلی ذات کے کسی ہندو کیلئے اچھے سکول یا تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ بھارت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ ماہرین کی غالب اکثریت اسی تعلیمی نظام کا حاصل ہے مگر عیسائیوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس کا آپ کو اندازہ ہی نہیں۔ آج بھارت سیاسی اور مذہبی منافقت کا سرخیل ہے۔
مجھے سری در کی بات سن کر عشروں پہلے مسعود مفتی کی کتاب کا ایک جملہ یاد آ گیا۔ ''ہندوؤں نے بھارت کو سیکولر بنیادوں پر طلب کیا اور مذہبی بنیادوں پر چلایا جبکہ ہم نے پاکستان مذہبی بنیادوں پر طلب کیا اور اسے سیکولر بنیادوں پر چلایا۔ منافقت انہوں نے بھی کی اور منافقت ہم نے بھی کی مگر ہماری اور ان کی منافقت کے نتائج میں زمین و آسمان کا فرق نکلا‘‘۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں