"KMK" (space) message & send to 7575

حکومت اور کاروبار … (2)

ہمارے ہاں حکومت کے کاروبار اور حکمرانوں کے کاروبار میں نسبتِ معکوس ہے۔ سارے کے سارے حکومتی کاروبار گھاٹے‘ خسارے اور بدانتظامی کی ایسی مثال ہیں جو کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔ جبکہ ہمارے حکمرانوں کے کاروبار ایسے نفع بخش اور فائدہ مند ہیں کہ عام کاروباری اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کا سٹیل کا کاروبار جب ان کے عہدِ حکومت میں بلندیوں کی طرف محوِ پرواز تھا عین انہی دنوں پاکستان سٹیل ملز خسارے کے عالمی ریکارڈ قائم کر رہی تھی۔ جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہوائی کمپنی اپنی پروازیں نفع میں چلا رہی تھی تب ریاستی ایئر لائن پستی کے آخری درجے پر پہنچ چکی تھی۔ زرداری صاحب کے کاروبار کے بارے میں یہ عاجز کیا عرض کرے؟ ان کو نفع نہیں ہوتا تھا بلکہ ان پر ہن برستا تھا جس کے طفیل وہ بظاہر کچھ کیے بغیر پاکستان کے پہلے چند امیر ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔سب حکمرانوں کے علم میں ہے کہ اس ملک کے جو ادارے سب سے زیادہ خسارے کا باعث ہیں پی آئی اے ان میں پہلے تین چار میں سے ایک ہے لیکن یہ خسارہ حکمرانوں کو بھلا کیوں برا لگے گا کہ یہ خسارہ ہمارے ٹیکسوں سے پورا کیا جاتا ہے جبکہ اس سے مزے حکمران لیتے ہیں۔ میاں نواز شریف بطور وزیراعظم پاکستان بغرضِ علاج برطانیہ گئے تو پی آئی اے کا جہاز ان کی واپسی کے انتظار میں کئی روز ہیتھرو ایئر پورٹ پر کھڑا رہا اور اس کی پارکنگ کی بھاری فیس غریب عوام نے ادا کی لیکن وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے بعد عازمِ برطانیہ ہوئے تو ایک غیرملکی ایئرلائن کی سنگل سیٹ پر بیٹھ کر سفر کیا۔
اب جبکہ پی آئی اے کی فروخت کیلئے دیے جانیوالے پہلے دو اشتہاروں کے باوجود کوئی گاہک اس سفید ہاتھی کو خریدنے کی ہمت نہیں کر پا رہا اور اب تیسری بار اشتہار دیا جا رہا ہے اور ایسی شرمناک صورتحال میں بھی اس ملک کے حکمرانوں کا یہ عالم ہے کہ ابھی حال ہی میں ریاست کے خرچ پر ایک لمبے چوڑے وفد کے ساتھ عمرہ کرتے ہوئے ہمارے حکمرانوں نے پی آئی اے کے مردہ گھوڑے کی کمر پر چابک برساتے ہوئے جہاز کو اس کے طے شدہ روٹ سے ہٹ کر جدہ کے بجائے مدینہ اُتروا لیا اور واپسی پر جس جہاز نے اسلام آباد جانا تھا‘ اسے اپنی آسانی کیلئے لاہور اُتروا لیا۔ ادارے ایسے ہی تباہ نہیں ہوتے۔ پی آئی اے کے پاس شاید اب صرف 31 جہاز ہیں اور ان میں سے کتنے آپریشنل ہیں‘ شاید اس کی درست تعداد اس ادارے کے چیئرمین کو بھی معلوم نہیں۔ مزید یہ کہ ان میں سے کتنے جہازوں کی لیز ادا نہیں کی اور کس ایئر پورٹ پر کون سی لیزنگ کمپنی کس جہاز کو پرواز کرنے سے رکوا دے‘ اس کا بھی کسی کو علم نہیں۔ مشرقِ بعید کے ایک برادر مسلم ملک میں ہمارے دو جہاز کئی کئی ہفتے تک لیزنگ کمپنی نے یرغمال بنائے رکھے۔
اس ادارے کو ڈبونے میں ویسے تو بہت سے حصہ دار ہیں تاہم ہمارے حکمرانوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا اور اس ادارے میں سفارشی بھرتی شدہ ملازمین کی فوج ظفر موج نے سوائے موج میلے اور کچھ نہیں کیا۔ ان مفت بروں کے پاس ایک ہی دلیل ہے کہ یہ نیشنل فلیگ کیریئر ہے۔ حالانکہ یہ قومی نمائندہ اب دنیا میں ریاست کیلئے نیک نامی کے بجائے مسلسل بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔ لے دے کر مغرب میں صرف ٹورونٹو (کینیڈا) ہی ایک جگہ بچی ہے جہاں پی آئی اے کے جہازوں کو اُترنے کی اجازت ہے اور وہاں ہر دوسرے مہینے کوئی نہ کوئی فضائی میزبان غائب ہو جاتا ہے۔ گزشتہ سال سات فضائی میزبان ٹورونٹو اُتر کر غائب ہو گئے اور اس سال اب تک تین مزید فضائی میزبان خرگوش ہو چکے ہیں۔ چوتھی ایئر ہوسٹس کی چند روز قبل ضمانت ہوئی ہے۔ ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ مریم رضا نامی ایئر ہوسٹس غائب ہونے سے پہلے اپنے ہوٹل میں نوٹ چھوڑ کر گئی جس میں تحریر تھا ''شکریہ پی آئی اے‘‘۔
ادھر ہماری ہمسائیگی میں بھارت نے اپنے نیشنل فلیگ کیریئر ''ایئر انڈیا‘‘ سے نجات حاصل کر لی ہے اور ان کا کچھ بھی نہیں بگڑا۔ ائیر انڈیا بھارت کی 91 سال پرانی ایئر لائن ہے جسے 1932ء میں رتن ٹاٹا نے بنایا‘ تقسیم کے بعد حکومت نے اس پر قبضہ کرکے اسے بھی پی آئی اے کی طرح اپنا نیشنل فلیگ کیریئر بنا لیا۔ خواہ دیر سے ہی سہی مگر لالے کو اندازہ ہو گیا کہ یہ کام حکومتوں کا نہیں۔ 2022ء میں ایئر انڈیا کو سوا دو بلین ڈالر کے عوض ٹاٹا گروپ نے دوبارہ خرید لیا اور صرف ایک سال بعد 2023ء میں اس کو جدید اور عالمی پیمانے کی ایئر لائن بنانے کیلئے 82 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے 540 نئے جہاز خریدنے کا منصوبہ بنایا ہے اور اس میں سے 470 جہاز جن کی مالیت 60 ارب ڈالر سے زیادہ ہے‘ خریدنے کیلئے آرڈر دے دیا ہے۔ یہ شاید ایئر لائن انڈسٹری کی تاریخ کا سب سے بڑا سنگل آرڈر ہے۔ اس سے قبل 2011ء میں امریکن ایئرلائن نے 460 جہازوں کا آرڈر دیا تھا۔ ایئر انڈیا 250 ایئر بس اور 220 بوئنگ ہوائی جہاز خرید رہا ہے۔ اس میں پہلا آرڈر 25 عدد نئے بوئنگ B737-800 اور چھ عدد ایئربس A350-900 جہازوں پر مشتمل ہے۔ کہاں 31 پرانے کباڑ ٹائپ جہاز جو اپنی عمر طبعی بھی کئی سال پیشتر گزار چکے ہیں اور کہاں برینڈ نیو 540 جہازوں پر مشتمل ایک پرائیویٹ ایئر لائن۔
اندازہ لگائیں ہم ہر سال اربوں روپے اپنے نام نہاد نیشنل فلیگ کیریئر میں ڈبو رہے ہیں اور اس کے دو ہی بینی فشری ہیں ایک حکمران‘ جن کا اس ایئرلائن کے طفیل مفتا لگا ہوا ہے اور دوسرے اس کے ملازمین‘ جن میں سے درجنوں آنکھ کے تارے ایسے ایسے غیرملکی سٹیشن پر گزشتہ کئی برسوں سے ڈالروں میں بھاری تنخواہ وصول کر رہے ہیں جہاں برسوں سے پی آئی اے کا آپریشن ہی بند ہے۔ اندازہ کریں ہم ایک ایک ارب ڈالر کے قرضے کے حصول کیلئے دنیا بھر میں کشکول اٹھائے مانگنے پر نکلے ہوئے ہیں اور ہمارے دوست اسلامی برادر ملک ہمیں رمضان المبارک میں 200 ٹن کھجوروں کے تحفے پر ٹرخا رہے ہیں جبکہ بھارت کا ایک کاروباری گروپ 82 ارب ڈالر کا سودا کر رہا ہے۔ کیسی بلندی اور کیسی پستی ہے۔ شاہ جی سے اس معاملے پر رائے لی تو کہنے لگے اس ادارے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس ایئر لائن کے فی جہاز ملازمین کی تعداد شاید دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے‘ یہ مسئلہ حل جائے تو کام بہتر ہو جائے گا۔ میں نے کہا آپ کو تو پتا ہی ہے کہ ادھر یونینز وغیرہ ایسے کسی کام پر بڑا شور مچاتی ہیں۔ شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے: تم مجھے پی آئی اے کا چیئرمین لگوا دو۔ میں موجودہ چیئرمین کی تنخواہ کا محض دس فیصد لوں گا جس سے ہر ماہ کے خسارے میں فوری طور پر لاکھوں روپے کی کمی ہو جائے گی۔ اوپر سے میں کسی بھی ملازم کو جبری ریٹائر یا زبردستی گولڈن ہینڈ شیک جیسے خرچے کے بغیر فارغ کر دوں گا۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ وہ کیسے؟ شاہ جی کہنے لگے: میں پی آئی اے کے ملازمین بمعہ لیبر یونینز کے عہدیداروں کو جہازوں میں بھر بھر کر کینیڈا کیلئے دھڑا دھڑ پروازیں چلاؤں گا۔ لوگ اپنی پنشن‘ گریجویٹی‘ پراویڈنٹ فنڈ اور ساری دیگر سہولتیں چھوڑ کر ان پروازوں پر سوار ہونے کیلئے مار کٹائی کریں گے۔ پندرہ بیس پروازوں سے ہی کافی افاقہ ہو جائے گا۔ ہماری ایئر لائن کا افرادی بوجھ بھی کم ہو جائے گا اور کینیڈا کی افرادی قوت کا مسئلہ بھی حل جائے گا‘ اوپر سے میری نوکری بھی پکی ہو جائے گی۔
جو ادارے گزشتہ 76 سال میں مسلسل ترقیٔ معکوس کی سمت گامزن ہوں اور ناقابلِ اصلاح حد تک برباد ہو چکے ہوں ان کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ اب ٹھیک ہو جائیں گے‘ سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں۔ حکومت سے تو اپنے انتظامی کام نہیں ہو پا رہے بھلا ایسے مردہ گھوڑوں کو چلانا اس کے بس کی بات کہاں ہے۔ ویسے بھی جہاں حکمران اپنے کاروبار چلاتے ہوں وہاں حکومت کے کاروبار نہیں چل سکتے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں