"KMK" (space) message & send to 7575

شجر دشمن قوم

جنوبی افریقہ دنیا کے جنوبی نصف کرۂ ارض میں ہے اور اس کا موسم پاکستان کے موسم سے بالکل اُلٹ ہے۔ ادھر سردی کا آغاز ہو رہا ہے اور ملتان کی گرمی سے فی الحال محفوظ‘ یہ مسافر اگلے چند روز کے لیے چین لکھتا ہے۔ چلیں‘ ابھی تو سردیوں کا آغاز ہے لیکن گرمیوں میں ادھر کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی ہے؟ لاعلمی بلکہ کم علمی کے سبب ہم ایک عرصے تک اس یقین میں مبتلا رہے کہ شاید افریقہ میں بڑی قیامت خیز گرمی ہوتی ہے اور اسی گرمی کے سب لوگوں کا رنگ سیاہ ہو گیا ہے۔ گرمی سے رنگ کالا ہونے کا بہانہ تو ہم نے خود بھی بے شمار مرتبہ کیا ہے لیکن افریقہ کے جس خطے میں مقامی لوگوں کا رنگ آبنوسی ہے‘ وہاں گرمیوں میں بھی ملتان سے کہیں کم درجہ حرارت ہوتا ہے۔ محمد علی انجم نے بتایا کہ اس سال گرمیوں میں ادھر جوہانسبرگ میں ریکارڈ گرمی پڑی تھی اور درجہ حرارت مسلسل ساٹھ روز تک 32 ڈگری سنٹی گریڈ رہا۔ اس سے پہلے اتنا درجہ حرارت محض دو چار دن تک رہتا تھا اور پھر نیچے آ جاتا تھا۔ میں یہ سن کر بڑا حیران ہوا کہ ادھر جوہانسبرگ میں 32 ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت قیامت خیز گرمی شمار ہوتا ہے۔
ادھر اپنے فون کی موسم والی ایپ پر چیک کیا تو ملتان میں درجہ حرارت 45 ڈگری تک پہنچ چکا تھا اور اگلے تین روز میں درجہ حرارت 48 ڈگری تک پہنچ جانے کی پیشگوئی تھی۔ سارے ملک میں ہیٹ ویو کی وارننگ جاری ہو چکی ہے اور اس کی واحد وجہ صرف یہ ہے کہ ملک میں درخت روز بروز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ گرمی کم کرنے کے '' اِن ڈور‘‘ یعنی مصنوعی طریقے اپنی جگہ لیکن پورے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے‘ اور وہ شجر کاری ہے۔ درختوں کی بہتات جہاں فضائی آلودگی کو‘ جیسے ہمارے ہاں سموگ کا مسئلہ بدترین صورت اختیار کر چکا ہے‘ کم کرتی ہے‘ وہیں درجہ حرارت کو بھی کئی ڈگری کم کر دیتی ہے۔ مزید برآں اس سبزے کے باعث بارش کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے اور یہ بارش نہ صرف قدرتی آبپاشی کا بہت بڑا ذریعہ ہے بلکہ اس سے زیر زمین پانی کی سطح بہت بلند ہو جاتی ہے۔ جہاں جہاں بارش کم ہوتی ہے وہاں زیر زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جا رہی ہے اور کئی شہر مستقبل میں پانی نہ ہونے کے باعث ناقابلِ رہائش ہو جائیں گے۔ کوئٹہ کا شمار بھی ایسے ہی شہروں میں کیا جا رہا ہے۔
جیسا کہ میں کئی مرتبہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہم شجر دشمن ذہنیت کے حامل معاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔ کسی کے صحن میں درخت لگا ہوا دیکھ لیں تو اسے فوراً کٹوا دینے کا مشورہ دیں گے۔ اس مشورے کے ساتھ جو دلائل دیں گے وہ بڑے مزیدار ہیں۔ مثلاً درختوں سے گرنے والے پتے گند بہت ڈالتے ہیں۔ اللہ کے بندو! کیا ہمارے ہاتھ ٹوٹے ہوئے ہیں جو صفائی نہیں کر سکتے؟ دوسری بڑی دلیل یہ دیں گے کہ یہ درخت دھوپ روک رہا ہے۔ کوئی ہم بے عقلوں کو سمجھائے کہ اس ملک میں دھوپ نہیں بلکہ چھاؤں کا مسئلہ ہے کہ سال کے آٹھ مہینے آگ برساتے ہوئے سورج سے بچائو کے لیے سایہ میسر نہیں ہے اور ہمیں دھوپ کم ہو جانے کی فکر نے دبلا کر رکھا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ لاہور کے نواح میں 1866ء میں لگایا جانے والا چھانگا مانگا جنگل تب دنیا میں انسانی ہاتھوں سے لگایا جانے والا سب سے بڑا جنگل تھا۔ سفید ملبری (شہتوت)‘ شیشم اور کیکر کے درختوں پر مبنی یہ مصنوعی جنگل تب 12515 ایکڑز پر صرف پھیلا ہوا ہی نہیں تھا بلکہ درختوں سے مکمل طور پر بھرا ہوا بھی تھا۔ نارتھ ویسٹ ریلوے کے انجنوں میں جلانے کے لیے درکار لکڑی کی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے یہ جنگل لگایا گیا۔ اس جنگل کا رقبہ اور اس میں لگائے جانے والے درختوں کی تعداد کا تعین ریلوے کی تب کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر لگایا گیا اور 15 سال تک ہر سال ایک بلاک کے درختوں کو کاٹ کر استعمال کرنے کی بنیاد پر اس طرح لگایا گیا کہ جب ایک بلاک کٹے تو اگلے سال اس کی جگہ پر اس طرح شجر کاری ہو کہ جب 15سال بعد اس بلاک کی باری آئے تو یہاں کے درخت پختہ ہو کر کٹائی کے لیے تیار ہو چکے ہوں۔ گورا چلا گیا اور نظام ہمارے ہاتھ میں آ گیا۔ ہم نے برسوں کا کام مہینوں میں اور مہینوں کا کام دنوں میں نمٹاتے ہوئے آدھے سے زیادہ جنگل کو صاف کر دیا اور اس آدھے بچ جانے والے جنگل میں بھی 15 سالہ عمر پر پختہ ہونے والے شیشم وغیرہ جیسے درخت کاٹے اور دو چار سالوں میں بڑھ جانے والے بیکار سے سفیدے کے درخت لگا دیے جس کی لکڑی نہ جلانے کے کام آتی ہے اور نہ تعمیراتی کاموں کے لیے مفید ہے۔ ہاں! البتہ پانی خوب چوس لیتے ہیں اور کسی بھی بہانے کے بغیر زمین بوس ہو جانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
دنیا کے اس سب سے بڑے مصنوعی جنگل کو اس بری طرح سے کاٹا اور لوٹا گیا کہ ہلاکو خان کی فوجوں نے بغداد کو بھی اس طرح بے دردی سے نہیں لوٹا ہوگا۔ جب اس جنگل کی حالتِ زار پر بہت ہی شور مچا تو اس کی غیرقانونی کٹائی اور درختوں کی چوری پر صوبائی محتسب پنجاب جاوید محمود نے سو موٹو لے لیا اور اس پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے چیف کنزرویٹو (فاریسٹ) ڈاکٹر محبوب الرحمن اور کنزرویٹو (فاریسٹ) راؤ خالد کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر افسر بیکارِ خاص المعروف او ایس ڈی بنا دیا۔ لمبی چوڑی تحقیقات کے بعد صوبائی محتسب نے اس ساری بدعنوانی کے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا‘ تاہم تقریباً تمام معطل شدہ افراد اس دوران دوبارہ غیرسرکاری طور اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان رہے اور بعد ازاں دوبارہ بحال ہو گئے اور مملکت کا کام بھی اسی طرح پرانی ڈگر پر رواں دواں ہوگیا۔
قارئین! آپ بھی کہیں گے کہ یہ بندہ کہاں سے چلتا ہے اور کہاں پہنچ جاتا ہے لیکن درختوں سے اپنا کسی وقت کا دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل یاد آ گیا جو اَب ایسی کسمپرسی کا شکار ہے کہ اس کی حالتِ زار پر رونا آتا ہے۔ ادھر یہ صورتحال ہے کہ ایک پرائیویٹ کمپنی ہے ساؤتھ افریقن پلپ اینڈ پیپر انڈسٹریز۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے‘ یہ کاغذ اور اس کا پلپ تیار کرنے والی دنیا کی شاید سب سے بڑی پرائیویٹ کمپنی ہے۔ اس کمپنی نے اپنی پیپر ملوں کی ضرورت پوری کرنے کی غرض سے صرف ساؤتھ افریقہ میں ساڑھے چھ لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر جنگلات لگا رکھے ہیں۔ ظاہر ہے‘ یہ انسانی ہاتھوں سے لگائے گئے مصنوعی جنگل ہیں۔ آپ اندازہ کر لیں کہ ہم سے گورے کا آج سے تقریباً 160 سال پہلے لگایا گیا ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ پر مشتمل جنگل نہیں سنبھالا گیا اور ادھر ایک پرائیویٹ کمپنی ساڑھے چھ لاکھ ایکڑ پر مشتمل جنگل کو سنبھالے ہوئے ہے اور اگلے دو چار برسوں میں مزید ساڑھے تین لاکھ ایکڑ اس میں شامل ہو جائیں گے۔ یعنی کل دس لاکھ ایکڑ پر اس کمپنی کے جنگل ہوں گے۔ کمپنی اس سے پلپ اور کاغذ بنا کر نفع سمیٹے گی جبکہ سارا خطہ اس ماحولیاتی تبدیلی سے بہرہ مند ہو گا۔
درختوں کی بے طرح کٹائی سے مجھے کیلیفورنیا کی 23سالہ جولیا ہل یاد آ گئی جو کیلیفورنیاکے قریب ریڈ ووڈ درختوں پر مشتمل چھوٹے سے جنگل‘ جس میں ایک ہزار سالہ قدیم درخت جس کا نام 'لونا‘ اور اونچائی 180تھی‘ میں پیسفک ٹمبر کمپنی کو ملنے والے کٹائی کے اجازت نامے کے خلاف اس ساری کٹائی کو روکنے کے لیے 10دسمبر1997ء کو اس درخت پر چڑھ گئی۔ وہ ایک میٹرس اور ترپال کے ساتھ اس درخت پر دو سال اور آٹھ دن تک رہنے کے بعد 18دسمبر 1999ء کو اس وقت نیچے اُتری جب اس کمپنی نے اس درخت اور اس کے ارد گرد دو سو فٹ تک باقی درختوں کو نہ کاٹنے کا تحریری وعدہ کر لیا۔ ادھر یہ عالم ہے کہ ہمیں خود درخت کاٹ کر اور دوسروں کو درخت کاٹتا دیکھ کر از حد خوشی ہوتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں