"KMK" (space) message & send to 7575

تاریخ دوسری قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے

آزادی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور ہم اللہ کے ان انعام یافتہ لوگوں میں سے ہیں جنہیں یہ نعمت نصیب ہوئی‘ یہ الگ بات کہ ہم نالائقوں نے اس آزادی سے اجتماعی کے بجائے انفرادی فوائد اور مفادات حاصل کرنے شروع کردیے۔ اور اس کے بعد جو ہوا وہ ہمارے اور آپ کے سامنے ہے۔ میں نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں کئی بزرگوں کو‘ جنہوں نے گوروں کی حکومت دیکھی تھی اُس دور کی تعریفیں کرتے سنا تھا۔ تب زیادہ چیزوں کا علم تو نہ ہوتا تھا مگر وہ بزرگ امن و امان‘ قانون کی حاکمیت‘ اداروں کی کارکردگی‘ میرٹ پر ملازمتوں کا حصول‘ اعلیٰ تعلیمی معیار‘ میونسپلٹی کا نظام‘ ریلوے کی کارکردگی‘ بیراجوں اور نہری نظام کا قیام‘ عدل و انصاف اور انتھک محنت کے معاملے میں گوروں کے بارے میں رطب اللسان تھے۔ میں تب اپنی محدود معلومات کے مطابق ان سے سوالات بھی کرتا تھا اور خرابیوں کے بارے میں بحث بھی کرتا تھا۔ وہ بزرگ ہمیشہ یہ جواب دیتے کہ وہ کم از کم ہم ہندوستانیوں کے مابین انصاف کے معاملات کو سو فیصد میرٹ پر طے کرتے تھے۔ انصاف سستا اور اس کا حصول فوری تھا۔
وہ بتاتے کہ اعلیٰ انتظامی اور اعزازی عہدے بے شک انگریزوں اور ان کے وفاداروں کیلئے مختص ہوتے تھے مگر عوامی عہدے اور نوکریاں طے شدہ تعلیمی قابلیت کے مطابق بلا سفارش اور بغیر رشوت کے میرٹ پر ملتی تھیں۔ انگریز وقت کا پابند تھا اور انگریز افسر دفتر میں مقررہ وقت سے دو چار منٹ پہلے پہنچ جاتا تھا۔ سرکاری دفتروں کے اوقات اس طرح مذاق بن کر نہیں رہ گئے تھے جس طرح آج کل ہیں۔ شہر کے وسط میں گھنٹہ گھر پر لگا ہوا کلاک درست وقت دیتا تھا اور اس کا گھڑیال لوگوں کو وقت گزرنے کی منادی سناتا رہتا تھا۔ اب چونکہ نہ تو وقت کی پابندی کا کوئی تصور ہے اور نہ ہی کوئی اہمیت‘ اس لیے گھنٹہ گھر کے گھڑیال بند ہو چکے ہیں اور عالم یہ ہے کہ اب تو دفتر کی صفائی پر مامور عملہ بھی صبح وقت پر دفتر نہیں آتا۔
ایک دوست کے کام کے سلسلے میں ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے غلطی سے صبح نو بجے کا وقت دے دیا۔ میں صبح پورے نو بجے دفتر پہنچ گیا۔ ڈپٹی کمشنر آفس بالکل ویران اور سنسان پڑا تھا۔ تقریباً پانچ منٹ بعد ایک ملازم نے آکر ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے ساتھ والا ملحقہ کمرہ‘ جو یقینا اس کے پی اے وغیرہ کا ہوگا‘ کھولا۔ میں اور میرا دوست گاڑی میں ہی بیٹھے رہے کہ ابھی ڈپٹی کمشنر کی آمد کا کوئی نشان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گاڑی میں بیٹھے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ کسی نے گاڑی کے شیشے پر انگلی سے ہلکا سا کھٹکھٹایا۔ دیکھا تو یہ خاکروب تھا اور اس نے ہم سے کہا کہ آپ دوسری طرف گاڑی پارک کر لیں‘ ادھر میں نے جھاڑو پھیرنا ہے اور مٹی اُڑے گی۔ ڈپٹی کمشنر کی تو چھوڑیں‘ ادھر تو خاکروب بھی سوا نو بجے آیا تھا۔ میں نے موبائل پر ڈپٹی کمشنر سے رابطہ کیا تو اس نے گھڑا گھڑایا جواب دیا کہ وہ گھر سے سیدھا ایک وزٹ پر چلا گیا تھا اور بس تھوڑی ہی دیر میں دفتر پہنچ رہا ہے۔ اس نے غالباً اپنے پی اے کو فون کیا تو وہ دفتر سے باہر ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہم اندر آکر دفتر میں بیٹھ جائیں۔ اندر گئے تو چپڑاسی ساڑھے نو بجے کرسیوں اور میزوں پر کپڑا مارنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ ضلع کے سب سے بڑے انتظامی افسر کے دفتر کا یہ حال تھا کہ وہاں پر جھاڑو اور صفائی کی کارروائی کا آغاز ہی اوقاتِ کار کے آدھ گھنٹہ بعد شروع ہو رہا تھا‘ باقی معاملات کا جو حال ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
جب لال قَلعہ دہلی میں مغل حکمران رات کی محفلِ شعر و نغمہ کے باعث رات گئے دیر تک جاگنے کے بعد اگلی دوپہر تک لمبی تان کر سونے میں مصروف ہوتے تھے تب قائم مقام گورنر جنرل ہندوستان چارلس تھیوفیلس مٹکاف صبح سات بجے دفتر میں ہوتا تھا۔ حکومتیں نااہلی سے نہیں چلائی جا سکتیں۔ صرف بارہ سال بعد 1857ء میں انگریزوں نے خوابِ خرگوش کے مزے لینے والے بہادر شاہ ظفر کو قلعے سے اٹھا کر رنگون بھجوا دیا اور لال قلعے پر یونین جیک لہرا دیا۔ ادھر عالم یہ ہے کہ آزادی ملنے کے 76 سال بعد بھی ہماری تمام تر حکومتی مشینری‘ سرکاری افسران‘ انتظامی عہدیداران اور مقننہ و عدلیہ کی عادتیں تو مغلیہ حکمرانوں جیسی ہیں لیکن کروفر اور جاہ و جلال انگریز حکمرانوں جیسا ہے۔ قارئین! دراصل مجھے یہ سب کچھ اس لیے یاد آیا ہے کہ میں نے گزشتہ روز اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر دیکھی ہے کہ سپریم کورٹ میں موسم گرما کی چھٹیوں کا آغاز مورخہ 15 جولائی سے ہوگا۔ موسم گرما کی ان چھٹیوں کے اعلان سے مجھے یاد آیا کہ کسی دوست نے بتایا تھا کہ ہندوستان میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز وغیرہ چونکہ انگریز تھے اور وہ سارا سال ادھر ہندوستان کی گرمی میں سرکاری فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں مصروف رہتے تھے اور انہوں نے اپنی سالانہ چھٹیاں گزارنے برطانیہ جانا ہوتا تھا۔ تب بحری جہاز پر برطانیہ جانے اور واپس آنے میں کافی وقت لگ جاتا تھا اس لیے انہیں موسمِ گرما کی شدت سے بچانے اور سالانہ چھٹیوں سے لطف اندوز ہونے کیلئے دونوں چیزوں کو یکجا کرتے ہوئے موسمِ گرما کی چھٹیوں کی روایت ڈالی گئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سارا سال انتھک کام کرکے سالانہ چھٹیوں پر بحری جہاز میں برطانیہ جانے والے انگریز کو ادھر سے رخصت ہوئے 76 سال ہو گئے ہیں‘ اب بھلا اس قسم کی چھٹیوں کا کیا جواز باقی ہے؟ ویسے بھی جس ملک میں ظلم اور ناانصافی گرمیوں کی چھٹیاں نہیں کرتے وہاں عدل و انصاف کیسے چھٹیاں کر سکتا ہے؟
کیا جولائی میں انصاف کے طلبگاران بھی رخصت پر چلے جاتے ہیں؟ کیا جولائی میں مملکتِ خداداد پاکستان میں ظلم و جبر چھٹی پر چلا جاتا ہے؟ کیا اس دوران اعلیٰ عدالتوں کے بجائے فراہمیٔ انصاف کا ذمہ کسی اور نے سنبھال لیا ہوتا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر ان مہینوں میں انصاف کے طلبگار کہاں جائیں ؟ کیا وہ منصفوں کے واپس آنے کے انتظار میں محض امیدِ فردا پر بھروسا کرتے ہوئے انتظار کریں؟ اب جبکہ گھر ٹھنڈی مشین کے طفیل یخ بستہ ہوتے ہیں‘ گاڑیاں دورانِ سفر ہوائے سرد سے طبیعت کو فرحت مہیا کرتی ہیں اور دفتر و عدالتیں مرکزی ایئرکنڈیشنڈ سسٹم کے طفیل کسی ہِل سٹیشن کا حصہ معلوم ہوتی ہیں تو ایسے میں موسم گرما بھلا کہاں کام میں رکاوٹ بنتا ہے؟ ہاں! البتہ اس شدید گرمی میں جیلوں اور حوالاتوں میں انصاف کے منتظر جس اذیت کا شکار ہوتے ہیں اس کا اندازہ ایئر کنڈیشنڈ دفاتر یا گھروں اور گاڑیوں میں بیٹھ کر بہرحال نہیں کیا جا سکتا۔
ہم عرصۂ دراز سے انصاف کے بارے میں انگریزی کا ایک مقولہ سن رہے ہیں کہJustice delayed is justice denied یعنی انصاف میں تاخیر از خود ناانصافی ہے۔ کیا عدالتوں میں چھٹیوں کا نتیجہ انصاف میں تاخیر نہیں ؟ اور انصاف میں تاخیر ناانصافی نہیں ؟ اگر ایسا ہے تو پھر گرمیوں میں انصاف کے طلبگاروں کو انتظار کی سولی پر لٹکانا اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا کیا جواز ہے؟ سچ پوچھیں تو یہ ملک اس وقت ایک عجب مرحلے سے گزر رہا ہے جب بہت سی حقیقتیں عام آدمی پر آشکار ہو رہی ہیں اور بہت سی نہاں اور پوشیدہ کہانیاں سرعام بیان ہو رہی ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اب عرصۂ دراز سے خرابیوں کے شکار اس نظام کو از خود درست کر لیا جائے‘ بصورت دیگر یہ معاملات تا دیر چلنے والے دکھائی نہیں دے رہے۔ تبدیلی منشائے الٰہی بھی ہے اور انسانی فطرت بھی۔ اسے غیر معینہ مدت کے لیے روکا نہیں جا سکتا۔ ہم لوگ تو توہینِ عدالت وغیرہ سے خوفزدہ نسل سے تعلق رکھتے ہیں مگر نئی نسل اس قسم کے نام نہاد قوانین سے بغاوت پر آمادہ ہے۔ ویسے بھی دنیا میں عدل و انصاف کے حوالے سے ہماری عدلیہ جس نمبر پر کھڑی ہے‘ اسے اپنی عزت و توقیر میں بہتری اور اپنی ساکھ کی بحالی کیلئے خود ہی کچھ کر لینا چاہیے۔ بصورت دیگر تاریخ دوسری قسم کے طریقوں اور واقعات سے بھری پڑی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں