"KMK" (space) message & send to 7575

کرکٹ اور یادِ ماضی…(1)

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ساتھ جب بھی میدان میں بُری ہوتی ہے اور ساری قوم اس پر تبرّا کرتی ہے تو مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب ہم دوست زکریا یونیورسٹی کی اولڈ کیمپس والی کینٹین پر اکٹھے بیٹھا کرتے تھے۔ اس اولڈ کیمپس والی کینٹین کا قصہ بھی عجیب ہے۔ یہ دراصل میرے گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی کی کینٹین تھی جو اَپ گریڈ ہو کر یونیورسٹی کی کینٹین میں بدل گئی تھی۔ میں اس سکول میں 1968ء میں چھٹی کلاس میں داخل ہوا تھا۔ تب یہ کینٹین شیخ حفیظ چلایا کرتے تھے۔ شیخ حفیظ سے ابا جی کی اچھی دعا سلام تھی اس لیے شیخ صاحب ہمارے چچا کے درجے پر فائز تھے۔ مجھ سے پہلے اسی سکول میں سے بڑے بھائی مرحوم طارق محمود خان نے میٹرک کیا تھا اور شیخ صاحب کی کینٹین سے مستفید ہوتے رہے تھے۔ ہم نے سکول میں بھلا اس کینٹین کا کیا کرنا تھا؟ زیادہ سے زیادہ بڑی عیاشی کی تو کبھی بوتل پی لی یا ایک آدھ سموسہ لے لیا۔ دوپہر کا کھانا ٹفن میں ساتھ آتا تھا جو میں سڑک کے پار گورنمنٹ کالج کی لائبریری میں ابا جی کے پاس جا کر کھا لیتا تھا۔ سکول کے زمانے میں اس کینٹین سے بس واجبی سا تعلق تھا۔
میٹرک کرنے کے بعد سڑک پار ایمرسن کالج میں داخلہ ہو گیا۔ تب ایمرسن کالج دو حصوں پر مشتمل تھا؛ ایک آرٹس بلاک تھا‘ جس میں لائبریری تھی اور بی اے تک کی کلاسیں ہوتی تھیں۔ دوسرا حصہ ایک فرلانگ دور تھا جہاں ایف ایس سی‘ بی ایس سی اور ایم اے کی کلاسیں لگتی تھیں۔ ساری رونقیں آرٹس بلاک سے وابستہ تھیں۔ میرے میٹرک پاس کرکے کالج میں داخل ہونے سے تھوڑا قبل آرٹس بلاک مع کالج آڈیٹوریم‘ کالج آف ایجوکیشن کو دے دیا گیا اور سارے کا سارا کالج سائنس بلاک میں منتقل کر دیا گیا۔ تاہم اس سے پہلے وہاں کمروں کا ایک ڈبل سٹوری نیا وِنگ تعمیر ہو چکا تھا۔ ایم اے کی کلاسز کمپری ہینسو سکول‘ جو ایمرسن کالج کے پہلو میں تھا‘ میں شفٹ کر دی گئیں۔ ساری رونقیں اب ایک ہی بلاک میں جمع ہو گئیں۔ یہ پورا علاقہ کسی ایجوکیشن ٹاؤن کی صورت تھا۔ شروع میں گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی‘ اور اس کے پہلو میں اندر کی طرف ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ تھا۔ پھر سڑک کے ساتھ گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن تھا اور اس کے پیچھے گورنمنٹ کمپری ہینسو ہائی سکول تھا۔ کمپری ہینسو ہائی سکول سے آگے ایمرسن کالج کے پرنسپل کی رہائش گاہ تھی اور اس کے ساتھ ایجوکیشن کالج کے پہلو میں ایمرسن کالج کے ہاسٹلز اور مسجد تھی۔ پھر ایمرسن کالج تھا اور اس کے پیچھے کالج کا سپورٹس گراؤنڈ اور گورنمنٹ کالج آف سائنس تھا۔ خلیل الرحمن شاہد گورنمنٹ کالج آف سائنس کا طالب علم تھا۔
خلیل الرحمن سے تعارف مقامی کالجوں میں ہونے والی بین الکلیاتی تقریبات کے طفیل ہوا جو دوستی میں بدل گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ اس کے دادا میرے دادا محمد ابراہیم خان کے دوست تھے اور اُس کے والد میاں عبدالرحمن میرے ابا جی کے دوست تھے۔ اسی دوران سید عطا اللہ شاہ بخاری مرحوم کے نواسے سید محمد کفیل بخاری‘ ولایت حسین اور اسلامیہ کالج کے مقرر منیر احمد چودھری سے دوستی ہو گئی۔ ایمرسن کالج میں میری دوستی احمد بلال سے تھی۔ ادھر عبداللہ نجیب رانا‘ سعید ظفر اور اسلم ادیب تھے۔ موخر الذکر دونوں مجھ سے اگلی کلاسوں میں تھے مگر دوستی ان چیزوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ احمد بلال دو سال بعد اسلامیہ کالج پشاور چلا گیا‘ سعید ظفر اورینٹل کالج لاہور چلا گیا اور اسلم ادیب پروفیسر لگ گیا۔ میں اور منیر چودھری اسی دوران یونیورسٹی پہنچ گئے اور خلیل الرحمن شاہد حسبِ معمول ایف ایس سی کرنے میں مشغول رہا۔ ہماری ٹرائیکا نہ صرف یونیورسٹی بلکہ ہر جگہ مشہور تھی۔ اس دوران گلگشت ہائی سکول کی کینٹین ہمارا مستقل ٹھکانہ تھی۔ اب کینٹین کو شیخ حفیظ کے کزن شیخ مجید چلاتے تھے۔ یہاں کا ہیڈ بیرا دلبر تھا۔ اللہ جانے اس کا اصلی نام کیا تھا مگر ہم نے اسے دلبر کا نام دیا اور وہ اس قدر مقبول ہوا کہ ہم خود اس کا اصلی نام بھول گئے۔
پھر ملتان یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا (شروع میں اس کا نام ملتان یونیورسٹی تھا‘ بعد ازاں اس کا نام بدل کر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی رکھ دیا گیا) میری بی اے کی ڈگری ملتان یونیورسٹی اور ایم بی اے کی ڈگری بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کی جاری کردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی شکل پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے تاہم میں اور منیر چودھری بس مشکل سے قبولِ صورت تھے تاہم خلیل الرحمن شاہد باقاعدہ خوش شکل تھا اور اسے اس کا احساس بھی تھا‘اسی لیے وہ چھوٹی موٹی غیر نصابی حرکتوں میں بھی مصروف رہتا تھا‘ اسی لیے ہمارا کلاس فیلو ہونے کے باوجود ابھی تک ایف ایس سی میں ہی تھا۔ جب ہم سے کوئی پوچھتا کہ ہم کیا کرتے ہیں تو ہم بتاتے کہ منیر چودھری پولیٹکل سائنس اور میں بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کر رہا ہوں جبکہ خلیل الرحمن شاہد کے بارے میں بتاتے کہ وہ ایف ایس سی کیا کرتا ہے۔ میں اور منیر چودھری کرکٹ کے سخت خلاف تھے اور اسے باقاعدہ فضولیات اور خرافات میں شمار کرتے تھے جبکہ خلیل الرحمن شاہد کرکٹ کا والہ و شیدا تھا اور اسی کرکٹ سے محبت کے طفیل وہ منیر چودھری اور مجھ سے ہمہ وقت سخت سست سنتا رہتا تھا مگر وہ بھی اپنی ہٹ کا پکا تھا اور کرکٹ سے اپنی محبت پر کسی قسم کا سمجھوتا کرنے پر تیار نہیں تھا۔ منیر چودھری اور میں نے تنگ آ کر بالآخر ایک قرارداد پاس کی جس کے تحت کرکٹ کا ذکر کرنے پر پہلی بار مبلغ دو روپے اور اسی دن دوسری بار یہ حرکت کرنے پر پانچ روپے کا جرمانہ عائد کر دیا۔ اس زمانے میں دو روپے اور پانچ روپے کم از کم ہمارے لیے بہت بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔ خلیل الرحمن شاہد اس نئے آرڈیننس کے سخت خلاف تھا مگر بے بس تھا۔ اسے تمام تر احتیاط کے باوجود ہر دوسرے روز پانچ سات روپے کا جرمانہ ہو جاتا۔ تب ہم شیخ حفیظ کی کینٹین پر نقد عیاشی کرتے وگرنہ ہمارا ان کے ساتھ سالانہ بنیادوں پر ادھار چلتا تھا جو ہم بین الکلیاتی تقریبات کے سیزن میں کالج سے ملنے والے ٹی اے ڈی اے کی مد میں ہونے والی وصولی سے اُتار دیا کرتے تھے۔
یہ 1978ء کا ذکر ہے اور تب ٹی ٹونٹی تو رہا ایک طرف‘ کسی کو ون ڈے انٹرنیشنل بھی آسانی سے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ گو کہ ون ڈے کرکٹ کو کیری پیکر نے تب بڑی شہرت بخشی تھی مگر شرفا جسے کرکٹ کہتے ہیں وہ صرف پانچ روزہ ٹیسٹ میچ ہی تصور ہوتا تھا‘ باقی تو سب موج میلا اور دل پشوری کے زمرے میں آتا تھا۔ یہ ٹیسٹ میچ پانچ روز تک سب کی توجہ کا مرکز و محور ہونے کے باوجود زیادہ تر بے نتیجہ ختم ہو جاتے۔ کبھی بارش ہو جاتی اور کبھی پانچ دنوں میں دونوں ٹیموں کی دو اننگز مکمل نہ ہو پاتیں اور یوں میچ برابر چھڑوا دیا جاتا۔ پانچ دن کے لیے خلیل الرحمن فنا فی المیچ ہو جاتا‘ تاہم جب میچ ڈرا ہو جاتا تو ہم خلیل الرحمن شاہد کو باقاعدہ زدو کوب کرتے اور بُرا بھلا کہتے۔ یہ بُرا بھلا اس زبانی دشنام طرازی کا نہایت ہی مہذب ترجمہ ہے جو ہم دراصل استعمال کیا کرتے تھے۔
منیر چودھری اور میں نے اپنے اس آرڈیننس کو زیادہ وزن دینے کی غرض سے اس میں مزید ترمیمات کیں اور طے پایا کہ حکومت کو ایک خط لکھا جائے جس میں اس فضول کھیل پر باقاعدہ پابندی لگانے کی تجویز دی جائے اور کرکٹ کھیلنے کو باقاعدہ مستوجبِ سزا کھیل قرار دیتے ہوئے اس کے تمام تر گراؤنڈز کو دوسرے کھیلوں کے لیے مختص کر دیا جائے اور کرکٹ کا سامان رکھنا جرم قرار دیتے ہوئے اس کی ضبطی کو تعزیراتِ پاکستان میں شامل کرنے کا مشورہ شامل تھا۔ اس سلسلے میں منیر چودھری نے ایک نہایت ہی تفصیلی درخواست ڈرافٹ کی اور اس پر میں نے اور منیر چودھری نے دستخط کرکے وزارتِ کھیل کو بھجوا دیا اور اس کی اطلاعی کاپیاں صدرِ مملکت کو بھی بھیج دیں۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں