میرے اعداد و شمار میں پانچ‘ دس فیصد کی اونچ نیچ ممکن ہے تاہم اصل اعداد و شمار اس کے نزدیک تر ہیں۔ پاکستان میں کل آئی پی پی بجلی گھروں کی تعداد 90 کے لگ بھگ ہے جس میں ہائیڈل‘ تھرمل‘ نیو کلیئر‘ وِنڈ‘ سولر اور بگاس کے پلانٹ شامل ہیں۔ ان تھرمل آئی پی پیز کی تعداد 42 کے لگ بھگ ہے جن کے ساتھ 30سال تک بجلی خریدنے کے معاہدے ہوئے تھے۔ ان میں سے تین معاہدوں کی مدت ختم ہو چکی ہے اور ان کے ساتھ معاہدوں کی تجدید نہیں کی گئی۔ باقی39 عدد تھرمل پلانٹ ایسے ہیں جن سے بجلی نہ بھی لی جائے تو ان کو کپیسٹی چارجز ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ کل 90 عدد آئی پی پی بجلی گھروں میں سے زیادہ تر کو ان کے قرض والی 80 فیصد رقم ادا کی جا چکی ہے اور اب ان کو مالکان والی 20 فیصد سرمایہ کاری پر کپیسٹی چارجز کی ادائیگی بقایا ہے۔ 2019ء یا 2020ء میں پندرہ‘ سولہ پاور پلانٹس کو کسی طرح اس بات پر قائل کر لیا گیا کہ وہ ڈالر میں ادائیگی کیلئے ڈالر کی قیمت کو ایک جگہ پر منجمد کر لیں۔ ان آئی پی پیز کے ساتھ ادائیگی کیلئے ڈالر کی قیمت 148 روپے طے کر لی گئی۔ اگر اسی طرح دیگر بجلی گھروں کے مالکان یا انتظامیہ سے بھی کسی طرح ڈالر کی قیمت کو منجمد کر لیا جاتا تو آج کل جو قیمت 278 روپے کے آس پاس کی جا رہی ہے کافی کم ہو سکتی تھی۔ میں نہیں کہہ سکتا اس کی کیا وجوہات تھیں کہ اس قسم کی کوشش بعد میں دیگر مالکان سے کیوں نہ کی گئی۔ ممکن ہے کی گئی ہو اور وہ نہ مانے ہوں۔ بہرحال میں اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔
2002ء کی پالیسی میں تو یہ تھا کہ چاہے سرمایہ کاری پاکستانی روپے میں ہو یا ڈالر میں کی گئی ہو‘ سرمایہ کار کو اس سے خریدی گئی بجلی کی قیمت بہرحال ڈالر میں ہی کی جائے گی تاہم 2015ء کی نئی پالیسی میں یہ بات طے کر لی گئی کہ اگر سرمایہ کاری پاکستانی روپے میں ہو گی تو اس پلانٹ سے خرید کردہ بجلی کی قیمت بھی پاکستانی روپے میں ادا کی جائے گی اور اگر سرمایہ کاری ڈالر میں کی گئی تو ہی اس سے خرید کردہ بجلی کی قیمت ڈالر میں ادا کی جائے گی۔ تھرمل بجلی گھروں کے تمام تر معاہدے پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں ہوئے‘ عمران خان کے دور میں تھرمل بجلی گھر کا کوئی معاہدہ نہ ہوا‘اس دور میں سارے معاہدے وِنڈ اور سولر بجلی گھروں کی تعمیر کے سلسلے میں ہوئے تاہم معاہدوں کی شرائط وہی پرانی تھیں۔ بلکہ اس دور میں جہانگیر ترین کے بگاس والے پاور پلانٹ کیلئے طے شدہ قواعد و ضوابط اور عائد کچھ پابندیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بگاس کے پاور پلانٹس کو رعایتیں دینے کی سفارش کی گئی مگر ریگولیٹر نے یہ سفارش مسترد کرتے ہوئے سابقہ قواعد و ضوابط برقرار رکھے۔
صورتحال یہ ہے کہ ان آئی پی پیز بجلی گھروں کے مالکان کی اکثریت وہ ہے جو خود کو اس ملک کے خدمتگار اور مدد گار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ سیاستدان بھی ہیں اور حکمران بھی۔ یہ اپوزیشن کے رہنما بھی ہیں اور مقامی سرمایہ دار بھی۔ تاہم ان کی اکثریت ان ''نیک نام‘‘ لوگوں پر مشتمل ہے جو اقتدار میں ہیں اور اقتدار کے مزے بھی لے چکے ہیں۔ اگر معاہدوں کے وقت زیادہ سمجھداری نہ بھی دکھائی جاتی تو کم از کم ڈالر کی انڈکسیشن ہی کر لی جاتی تو بہت بچت ہو سکتی تھی مگر اس وقت ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی جلدی پڑی ہوئی تھی اور جہاں کمیشن کھرا کرنے کی پڑی ہوئی تھی وہیں جلد از جلد بجلی گھر بنا کر اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی بھی جلدی تھی وگرنہ کئی رپورٹس موجود ہیں کہ صرف دریائے سندھ پر ڈیم بنائے بغیر پچاس ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت ہے۔''رن آف ریور‘‘ اس پیداوار کیلئے ان مقامات کی باقاعدہ نشاندہی بھی ہو چکی ہے مگر اس کی صرف دو قباحتیں ہیں‘ پہلی یہ کہ دریا میں موسم کے مطابق پانی کم یا زیادہ ہونے کا اثر براہ راست بجلی کی پیداواری مقدار پر پڑے گا اور دوسری یہ کہ اس میں وقت اور بنیادی لاگت بہت زیادہ درکار ہے۔ اگر رینالہ خورد میں لوئر باری دوآب نہر پر سر گنگارام کا لگایا ہوا ایک میگاواٹ کا بجلی گھر پچھلے 99سال سے چل رہا ہے تو اس ملک کے دریاؤں‘ بیراجوں اور نہروں پر اس طرح کے دیگر چھوٹے چھوٹے بجلی گھر کیوں نہیں لگ سکتے؟ قادر بتا رہا تھا کہ اس سلسلے میں صرف پنجاب کی نہروں پر اس قسم کے چلتی نہر کے پانی سے بجلی بنانے والے درجنوں مقامات کی نشاندہی کی جا چکی ہے اور اس پر ایک مفصل رپورٹ بھی موجود ہے مگر کسی کو اس پر عمل کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوئی۔
اگر اس کہانی کو چارسطروں میں بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ مفاد پرستوں کے گروہ نے‘ جن میں حکمران‘ بیوروکریٹ‘ منصوبہ ساز‘ سرمایہ کار‘ دلال اور اشرافیہ کے زورآور بجلی کے بحران کو نعمت سمجھ کر اس ملک کو نچوڑنے کے چکر میں تھے۔ انہوں نے نئے بجلی گھروں کی آڑ میں منافع‘ کمیشن اور اپنی دلالی کیلئے اوور انوائسنگ‘ ڈالر میں ٹیرف اور کپیسٹی چارجز کو قبول کرتے ہوئے ملک برباد کر دیا۔ سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کیلئے جتنی سرمایہ کاری درکار تھی وہ سرکار کے پاس تھی ہی نہیں‘ جبکہ حکمران اپنے اپنے دورِ حکومت میں نوٹ چھاپ کر بغلی گلی سے نکلنے کے چکر میں تھے۔ مہنگی بجلی نے جہاں عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے وہیں صنعتی سیکٹر کوبھی برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ملکی مصنوعات کی لاگت اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ عالمی منڈی میں دوسرے ممالک سے مسابقت ممکن نہیں رہی۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کا فوری حل فی الوقت کسی طور پر ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ اس مسئلے کا حل صرف اور صرف طویل المدتی بنیادوں پر ممکن ہے۔ ایک تو یہ کہ زیر تعمیر پن بجلی کے منصوبے مکمل ہو کر ہائیڈل بجلی کو نیشنل گرڈ میں شامل کرکے پروڈکشن مکس کو بہتر کر دیں تاکہ بجلی کی اوسط قیمت کم ہو سکے۔ دوسرا یہ ہے کہ مزید ہائیڈل پروجیکٹس پر کام کیا جائے اور انہیں بروقت شروع کیا جائے۔
بجلی کی کہانی ان پرانی کہانیوں جیسی ہرگز نہیں جن میں شہزادے کے شادی شہزادی سے ہو جاتی ہے اور سب ہنسی خوشی رہنے لگ جاتے ہیں۔ اس کہانی کا انجام خاصا خراب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت کپیسٹی چارجز کا بیشتر حصہ صرف وہ آٹھ پلانٹ لے رہے ہیں جو سی پیک اور چائنہ انویسٹمنٹ کی مد میں لگے ہیں۔ ان میں چار پلانٹ ایل این جی پر اور چار پلانٹ کوئلے سے چلنے والے ہیں۔ اگر سرکار کپیسٹی چارجز کی مد میں آئی پی پیز کو نو سو ارب روپے ادا کر رہی ہے تو اس میں سے ساڑھے چھ سو ارب سے زائد صرف ان آٹھ پلانٹس کو جا رہے ہیں۔ یہ آٹھ پلانٹ حکومت پاکستان کی Sovereign گارنٹی سے لگے ہیں اور ان معاہدوں سے روگردانی کسی طور ممکن نہیں۔ ان بجلی گھروں کی بیشتر سرمایہ کاری چائنہ ڈویلپمنٹ بینک اور چائنہ ایگزم بینک کے قرض سے کی گئی ہے۔ چینی بینک نوآبادیاتی نظام کی ترقی یافتہ اور انتہائی بے رحم شکل ہے جو ہم جیسے ضرورتمندممالک کا استحصال کر رہے ہیں۔ اس لیے کم از کم مجھے تو ان سے کسی رعایت کی امید دکھائی نہیں دیتی۔ بے شک ہماری چین سے دوستی ہمالیہ سے بلند ہے تاہم اتنی بلندی کو رحم پھلانگ کر نہیں آ سکتا۔ دیگر آئی پی پیز سے پھر بھی کسی رعایت یا معاہدوں میں تبدیلی شاید ممکن ہو سکے مگر ان آٹھ بجلی گھروں کے معاہدوں کو گلے میں پڑے ڈھول کی مانند‘ بہرحال بجانا ہی پڑے گا۔ سو 2028ء تک راوی با لکل بھی چین نہیں لکھتا۔ جن معاہدوں کے ایک طرف سمجھدار ‘کائیاں اور گانٹھ کا پکا فریق بیٹھا ہو اور دوسری طرف احمق‘ عاقبت نااندیش اور بے ایمان فریق ہو تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے جیسا ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ ممکن ہے میری بات آپ کو بُری لگے مگر سچ یہی ہے کہ اگلے چار پانچ سال خاصے مشکل ہیں پھر بتدریج معاملات بہتر ہونا شروع ہوں گے اور مزید اڑھائی عشروں بعد سکون کا سانس آئے گا۔ بشرطیکہ درمیان میں احمقوں کا کوئی اور گروہ نہ کود پڑا۔ جس کا قوی امکان ہے کہ ہماری قسمت اس معاملے میں خاصی خراب ہے۔اللہ ہم پر اپنا کرم فرمائے۔ (ختم)