سرِ عام قتل کے فتوے بانٹے جا رہے ہیں۔ قتل پر انعام کا اعلان ہو رہا ہے۔ اہلِ اسلام کی تکفیرکی جا رہی ہے۔ ریاست مگر خاموش تماشائی ہے۔
یہ واقعہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ایک ہی زبان سے یہ فتویٰ دوسری بار دیا گیا۔ پہلی بار ہدف ریاست کے بڑے لوگ تھے۔ تب ریاست حرکت میں آئی تھی۔ فتویٰ واپس لیا گیا۔ معذرت کی گئی اور فتوے کو بلند فشارِ خون اور دیگر امراض کا نتیجہ کہا گیا۔ آج وہی عمل دہرایا گیا ہے مگر اس بار ہدف ریاست کے اعیان و اکابر نہیں‘ ایک مذہبی مبلغ ہے۔ ریاست کو اس کی حفاظت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کسی نے از خود نوٹس لیا نہ کسی کو قانون کی حاکمیت ہی کا خیال آیا۔ کیا ریاست کے ذمہ داران کو کوئی بتا سکتا ہے کہ جب ریاست اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت سے دستبردار ہو جائے تو اس کا وجود کالعدم ہو جاتا ہے؟ پھر وہ شہریوں سے اطاعت کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔
معاشرہ بھی خود شکستگی پر تُلا ہوا ہے۔ ہر وہ قوت جو خیر کا پیغام ہو سکتی تھی‘ اس سے شر کشید کیا جا رہا ہے۔ جیسے مذہب۔ یہ اللہ کی ایک نعمت ہے۔ یہ مذہب ہے جس نے سب سے پہلے انسان کو اخلاقیات کا درس دیا۔ جس نے اسے اخلاقی شعور بخشا۔ یہ مذہب ہے جس نے اسے حیوانیت اور مادے کی سطح سے اٹھایا اور مابعد الطبیعیات سے جوڑ دیا۔ اس بلند پروازی نے اس میں اخلاقی فضائل پیدا کیے۔ یہاں تک کہ وہ امن اور حسن کا پیکر بن گیا۔ یہی تہذیب کا نقطۂ آغاز ہے۔
آج مذہب اور اخلاقیات کا رشتہ ٹوٹ چکا۔ اسے مادی افکار کا اسیر بنا کر ریاست و معیشت سے اس طرح جوڑ دیا گیا کہ اس کی ہیئت ہی تبدیل ہو گئی۔ اہلِ دنیا کے ہاتھوں وہ چند مناسک و رسوم کا نام رہ گیا‘ یا گروہی عصبیت بن گیا۔ اسے دنیا سے اس طرح وابستہ کر دیا گیا کہ آخرت ایک رسمی عقیدہ بن کے رہ گئی۔ خدا کے ہاں جوابدہی کا احساس عملاً تصورِ آخرت کا حصہ نہیں رہا۔ اگر ہوتا تو عالم کہلوانے والے‘ انسانوں کے قتل کا فتویٰ دینے میں اتنے جری کیسے ہوتے؟
جن آئمہ فقہ کا نام صبح و شام لیا جاتا ہے‘ وہ دو اور دو چار کی طرح بتا کر گئے ہیں کہ قضا کیا ہے اور فتویٰ کیا؟ حکمران کا کردار کیا ہے اور عالم کا کیا؟ فتویٰ ایک رائے ہے۔ اس کا انکار کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک غیرمعصوم کا نتیجۂ فکر ہے جس میں غلطی اور صحت دونوں کا امکان موجود ہے۔ فتویٰ قوتِ نافذہ نہیں رکھتا۔ اس کے برخلاف یہ قاضی اور عدالت کا فیصلہ ہے جو نافذ ہوتا ہے۔ اس میں بھی غلطی کا امکان ہوتا ہے‘لیکن اس کو ماننا سب پر لازم ہے۔ اسی سے نظمِ اجتماعی باقی رہ سکتا ہے۔ قاضی اور عدالت کو یہ حق ریاست کی طرف سے تفویض کیا جاتا ہے۔ ریاست 'اولو الامر‘ ہے جس کی اطاعت ضروری ہے‘ اِلا یہ کہ وہ معصیت کا کوئی حکم دے۔
فرد پر قانون کا نفاذ صرف اور صرف ریاست کا کام ہے۔ فتوے میں ایک صورتِ حال پر رائے دی جاتی ہے نہ کہ کسی خاص فرد کے بارے میں۔ استفا کی زبان مجہول ہوتی ہے۔ سوال کچھ اس طرح ہوتاہے: اگر 'زید‘ نے یہ کیا تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ زید ایک مجہو ل کردار ہے۔ کسی خاص شخص کا نام نہیں۔ محتاط علما فتوے میں ہمیشہ یہی زبان استعمال کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ کسی معاملے میں اپنے فہم کے مطابق‘ دینی حکم بتانے کے پابند ہیں۔ رہا کسی فرد پر اس کا اطلاق تو یہ عدالت کا کام ہے‘ عالم کا نہیں۔
مثال کے طور پر مفتی یہ بتائے گا کہ اگرکسی فرد نے اتنی مقدار میں چوری کی ہے تو اس پر حد نافذ ہو گی۔ یہ بات کہ ایک فرد نے فی الواقع اتنی مقدار میں چوری کی ہے‘ اس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ گویا مفتی کا کام وہی ہے جو قانون کی کسی کتاب کا ہو سکتا ہے۔ عدالتوں میں فتووں سے اسی طرح استفادہ کیا جاتا ہے۔ عدالت بھی ایک عمل سے گزر کر کسی نتیجے تک پہنچے گی۔ شہادت عینی ہے یا واقعاتی؟ گواہ کتنے ہیں؟ شہادت کا معیار کیا ہے؟ ملزم کا موقف کیا ہے کہ اسے سنے بغیر بھی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ ان مراحل کی تکمیل کے بعد ہی کوئی عدالت کسی خاص فرد کے بارے میں اپنا فیصلہ سناتی ہے۔
انسانی جان کے بارے میں فیصلہ کرنا تو گویا تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ قاضی اور عدالت بھی اس کا فیصلہ کرتے وقت واقعے کا ہر پہلو سے جائزہ لیتے ہیں کہ انسانی حد تک اس میں خطا کا کم سے کم احتمال ہو۔ ایک عالم کی حساسیت عام آدمی سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے کہ وہ خدا کے سامنے جوابدہی کے احساس سے مملو ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے تو بتایا ہے کہ ''اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈریں گے جو علم والے ہیں‘‘(الفاطر:28)۔
یہ علم والے کون ہیں؟ جاوید احمد صاحب غامدی صاحب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ''یعنی پیغمبروں کی تذکیر سے اُس علم کو شعور کی سطح پر دریافت کر چکے ہیں‘ جو خدا نے ان کی فطرت میں ودیعت کر رکھا ہے۔ اسی علم سے انسان اپنے پروردگار کو پہچانتا اور خیر و شر میں امتیاز کرتا ہے۔ اس علم کا شعور نہ ہو تو تمام علوم و افکار بے بنیاد ہو کر رہ جاتے اور صرف اپنے حاملین کی سرکشی میں اضافہ کرتے ہیں‘‘(البیان)۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے تو کوئی ابہام باقی نہیں رکھا: ''اس آیت میں لفظ 'علما‘ سے وہ اصطلاحی علما بھی مراد نہیں ہیں جو قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کا علم رکھنے کے بنا پر علمائے دین کہے جاتے ہیں۔ وہ اس آیت کا مصداق صرف اس صورت میں ہوں گے جبکہ ان کے اندر خدا ترسی موجود ہو‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد چہارم، صفحہ 232)۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے علما ابھی موجود ہیں اور وہ اس بے باکی اور بے احتیاطی کی مذمت کر رہے ہیں جو فتوے کے سُوئے استعمال سے لوگوں کی جان و مال کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس طرز کی فتویٰ بازی نے نئی نسل میں مذہب سے بے زاری پیدا کر دی ہے اور اس کا تعلق مذہبی اخلاقیات سے باقی نہیں رہنے دیا۔ نئی نسل سوچ رہی ہے کہ اگر اسی کا نام مذہب ہے تو پھر بہتر ہے کہ سماج اور ریاست کو اس سے دور رکھا جائے۔ اسے گھرکی چار دیواری تک محدود کر دیا جائے۔ یورپ میں مسیحیت کے خلاف بغاوت اہلِ کلیسا کی تعبیرات اور رویوں سے پیدا ہوئی۔ یہ عالمِ مسیحیت کا المیہ ہے کہ سیدنا مسیحؑ نے مذہبی راہ نماؤں کے جس رویے پر نقد کیا اور اناجیل جس سے بھری ہوئی ہیں‘ مسیحی عالم اسی کا نمونہ بن گئے۔ آج یہی عالمِ اسلام کا المیہ بھی ہے کہ قرآن مجید علم کو جس خدا ترسی سے جوڑ رہاہے‘ 'علما‘ اسی سے بے نیاز ہو رہے ہیں۔
کچھ علما نے آواز اٹھائی ہے مگر ریاست کہاں ہے؟ 'پیغامِ پاکستان‘ کے ثنا خواں کہاں ہیں؟ اسلامی نظریاتی کونسل کہاں ہے؟ فتووں نے ایک بار پھر عوام کے جان و مال کو خطرات میں ڈال دیا ہے۔ کسی کی زبان روکی جا ر ہی اور نہ ہاتھ۔ لازم ہے کہ ایک طرف علما اور سول سوسائٹی اس رویے کے خلاف آواز اٹھائے اور دوسری طرف ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ اگر لوگوں کے جان و مال کو حدود سے تجاوز کرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو پھر ریاست کا اپنا وجود مشتبہ ہو جائے گا۔