رؤف حسن صاحب پرحملہ افسوسناک ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان کن بھی ہے۔ ہم مذہبی تشدد کو روتے تھے کہ اب سیاسی تشدد نے بھی ہمارا گھر دیکھ لیا۔
اس واقعے میں ملوث حملہ آوروں کی جنس اہم نہیں۔ مجرم کی جنس نہیں‘ جرم قابلِ ذکر ہوتا ہے۔ ملزمان اتنے جری تھے کہ انہوں نے کیمروں کی بھی پروا نہیں کی‘ جو ان کو دیکھ رہے تھے۔ وہ قانون سے بے نیاز اور سزا سے بے خوف تھے۔ زبانِ حال سے انہوں نے بتا دیا کہ قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ قانون کی یہ بے بسی میرے لیے ہمیشہ حیران کن رہی کہ اسلام آباد جیسے شہر میں مجرم سزا کے خوف سے بے پروا ہو کر واردات کرتے ہیں۔
دو دن پہلے ایک گاڑی نے اسرائیلی مظالم پر احتجاج کرنے والے دو نوجوانوں کو کچل ڈالا اور پھر موقع ٔواردات سے غائب بھی ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ مجرم پکڑا گیا مگر اس کی ولدیت صیغہ راز میں رکھی جا رہی ہے۔ جہاں قانو ن کی حکمرانی ہوتی ہے‘ وہاں مجرم کی جنس کے ساتھ ولدیت بھی اہم نہیں ہوتی۔ اسلام کی مثال دیتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ہم اس پیغمبر کی امت سے ہیں جس نے اعلان کیا تھا کہ بنتِ رسول بھی قانون کی نگاہ میں کوئی استحقاق نہیں رکھتی۔
رؤف حسن صاحب پر حملہ اس لحاظ سے سنگین تر ہے کہ سیاسی کشیدگی کے پس منظر میں اسے جو معانی پہنائے جا رہے ہیں وہ ریاست کے استحکام کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ مجرموں کا کیفرِ کردار تک پہنچنا ازبس ضروری ہے۔ اسے اگر ایسا رخ دینے کی کوشش ہوئی جسے انسانی عقل قبول کرنے سے اِبا کرتی ہے تو پھر اس تاثر کو پھیلنے سے کوئی روک نہیں سکے گا کہ نظام مجرموں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ جیسے‘ اسے ہیجڑوں کے سر ڈال دیا جائے۔ میرے علم میں نہیں کہ کسی ہیجڑے نے بھیک نہ دینے پر کسی پر حملہ کر دیا ہو۔ پھر کیمرے کی گواہی یہ ہے کہ حملہ کئی افرادکی طرف سے کیا گیا‘ جو پہلے سے پوزیشن لے کر تیار کھڑے تھے اور ایک دوسرے سے رابطے میں تھے۔ قانون کو اس امتحان سے کامیابی کے ساتھ گزرنا ہو گا‘ اگر اس کی بالادستی افسانہ نہیں‘ حقیقت ہے۔
تشدد مذہب میں ہو یا سیاست میں‘ اس کی بنیاد انتہاپسندی ہے۔ جب سماج کو مصنوعی طور پر اہلِ حق اور اہلِ باطل‘ محبانِ وطن اور غدارانِ وطن میں تقسیم کر دیا جائے۔ جب ریاستی ادارے اقتدار کی کشمکش میں فریق بن جائیں۔ جب مذہبی تعبیرات کی بنیاد پر مسلمانوں کے واجب القتل ہونے کے فتوے جاری کیے جائیں تو پھر تشدد کا باب کھل جاتاہے۔ ہم مسلمانوں سے بہتر کون جا نتا ہے کہ جب یہ دروازہ ایک بار کھل جائے تو پھر اسے بند کرنے کے لیے نہیں معلوم کتنی نسلوں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔امام مظلوم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے الفاظ یاد کیجیے کہ اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو مسلمان کبھی ایک مصلے پر نماز نہیں پڑھ سکیں گے۔ مصلے پر خونِ عثمانؓ اس طرح بکھرا کہ چودہ سو سال سے ہماری نمازیں اَن گنت مصلوں پر بکھری ہوئی ہیں۔
اپنے جوہر میں مذہب انتہاپسند ہوتا ہے نہ سیاست۔ جب دنیا کے ہر مذہب میں‘ مذہب کے انتخاب کو ایک فرد کا استحقاق مانا گیا ہے تو پھر کوئی مذہب انتہاپسند کیسے ہو سکتا ہے؟جب سیاست تدبیر اور معاملہ فہمی کا نام ہے تو پھر اس کے نام پر تشدد کیسا؟ کیا ہم قبائلی معاشرے میں رہتے ہیں جہاں تلوار اور بندوق سے نزاعات کے فیصلے ہوں گے؟ آج ہر شخص نے ہاتھ میں تلوار پکڑی ہوئی ہے۔ یہ تلوار لازم نہیں کہ لوہے کی ہو۔ لوگوں نے قلم اور زبان کو تلوار بنا رکھا ہے۔ ایسی ایسی عبارتیں لکھتے ہیں کہ مخالفین کے تن بدن میں آگ لگا دیں۔ زبان ایسے زہر آلودہ کہ چند الفاظ کسی دریا میں ڈال دیں تو اس کا سارا پانی زہریلا ہو جائے۔ دوسرے بھی آخر انسان ہیں۔ ان سے کسی مختلف جواب کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اس طرح زہر پھیل رہا ہے اور تلوار چل رہی ہے۔
عمران خان صاحب نے جب سیاست میں ہیجان کو بطور حکمتِ عملی متعارف کرایا تو میں نے اس کالم میں بارہا متنبہ کیا کہ یہ روش سیاست ہی نہیں‘ سماج کو بھی برباد کر دے گی۔ انہوں نے اپنا بیانیہ انقلابی تحریکوں سے مستعار لیا‘ جن کے نزدیک ہیجان برپا کر نا ہی مطلوب ہوتا ہے۔ انقلاب کسی قانون‘ ضابطے کا پابند ہوتا ہے اور نہ انقلابی۔ تشدد انقلابی حکمتِ عملی کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ یہ تشدد انقلاب میں عین مقصود ہے۔ خان صاحب کو توجہ دلائی گئی کہ وہ کوئی انقلابی راہ نما نہیں‘ ایک آئین کے تحت سیاسی تبدیلی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ جمہوری سیاست اور انقلاب کا فرق نہیں جان سکے۔ پہلے ان کی ہیجانی سیاست کا رُخ محارب سیاستدانوں کی طرف تھا‘ آج ریاستی اداروں کی طرف۔ اس پہ مستزاد یہ طرزِ سیاست کہ اہلِ سیاست سے بات نہیں ہو گی‘ ریاست سے ہو گی۔
بدقسمتی یہ ہے کہ آج دوسری طرف بیٹھے لوگ بھی اس حقیقت کا ادراک نہیں کر رہے کہ جب کسی کے حق میں سیاسی عصبیت پیدا ہو جاتی ہے تو اس کے خلاف طاقت کا استعمال تباہ کن ہوتا ہے۔ آج کسی کو یہ یاد نہیں کہ اگرتلہ سازش مقدمہ کیا تھا۔ سب کو وہ ملٹری آپریشن یاد ہے جس کا انجام سقوطِ ڈھاکہ تھا۔ ان کے کرنے کا جو کام تھا‘ وہ تساہل اور نااہلی کی نذر ہو گیا۔ وہ کوئی ایسا بیانیہ نہ دے سکے جو عوام کے ذہنوں کو متاثر کر سکتا۔ عدالتوں کو بھی مطمئن نہیں کر سکے۔ خان صاحب یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہے کہ ان کے خلاف بننے والا ہر مقدمہ سیاسی ہے۔ عدالتوں سے جس طرح انہیں ضمانتیں مل رہی ہیں‘ اس سے یہ تاثر مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
رؤف حسن صاحب پر حملے نے ہیجان خیز سیاسی ماحول کو مزید گرما دیا ہے اور اس واقعے کو اسی کشمکش کا شاخسانہ سمجھا جا رہا ہے جو تحریکِ انصاف اور ریاست کے مابین جاری ہے۔ سیاست میں یہ اہم نہیں ہوتا کہ کسی واقعے کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ اس میں اہم‘ تاثر ہے۔ بدقسمتی سے یہ تاثر خوشگوار نہیں۔ اسلام آباد میں سرِشام اگر کوئی واردات کے بعد بآسانی غائب ہو جائے تو سوال اٹھتے ہیں‘ چاہے وہ ہیجڑا ہی کیوں نہ ہو۔ جو انتظامیہ ہیجڑوں کو نہ پکڑ سکے‘ اس کے بارے میں یہ حسنِ ظن باقی نہیں رہتا کہ وہ 'مَردوں‘ کے مقابلے میں عوام کے جان و مال کا تحفظ کرے گی۔
اہلِ سیاست سے توقع تھی کہ وہ اس واقعے کی بآوازِ بلند مذمت کریں گے اور منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کریں گے۔ افسوس کہ یہ توقع پوری نہ ہو سکی۔ اہلِ اقتدار یا تو خاموش رہے یا ان کی آواز اتنی مدھم تھی کہ کسی کو سنائی نہیں دی۔ یہ ہماری سیاست کی بدقسمتی ہے کہ کوئی سیاستدان اخلاقی پیمانے کو اہمیت نہیں دیتا۔ یہ بے بصیرتی کی بھی انتہا ہے کہ ایسے واقعات کو وسیع تر سیاسی کلچر کے تناظر میں نہیں دیکھا جاتا۔ اخلاق اور بصیرت کا یہ زوال اچھا شگون نہیں۔
ہیجان اب سیاسی کلچر بن چکا۔ اقتدار کے کھیل میں شریک سب لوگ اس میں مبتلا ہیں۔ نفرت کا یہ عالم کہ مخالفین کو شیطان سے کم نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ محبت کی یہ سطح کہ سیاستدانوں کو مرشد بنایا جا رہا ہے۔ مرشد کی ترکیب بتاتی ہے کہ جس سیاسی شعور کا چرچا ہے‘ اس نے نئی نسل کو مرید کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ مرید ہونے کی پہلی شرط اپنی سوچ اور عقل سے دستبرداری ہے۔ کاش لوگوں کو یہ بات سمجھائی جا سکے کہ یہ مذہب ہو یا سیاست‘ انتہاپسندی کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔