شادی کی عمر کے تعین میں چار سوال بنیادی ہیں:
ماہ وسال کے پیمانے سے کیا قرآن وسنت نے شادی کی کوئی عمر طے کی ہے؟
اسلا م کی نظر میں نکاح کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا یہ محض مرد کی جنسی تسکین کے لیے قائم ہونے والا ادارہ ہے جس کے لیے جسمانی بلوغت کفایت کرتی ہے؟ اس کے علاوہ مرد میں کسی اور خصوصیت کا پایا جانا لازم نہیں؟کیا شادی میں خاتون کا کردار صرف مفعولانہ کا ہے؟ محض ماہواری کا آنا‘ کیا عورت کو بیوی کا کردارادا کرنے کے قابل بنا دیتاہے؟
حکومت کو کیا اختیار حاصل ہے کہ عائلی معاملات کی تنظیم کے لیے قانون سازی کرے؟
عالمِ اسلام میں کیا اس حوالے سے کوئی قانون سازی کی گئی ہے؟
اسلام نے شادی کی کوئی عمر متعین نہیں کی۔ تاہم اسلام کا تصورِ خاندان اسی وقت مشہود ہو سکتا ہے جب شوہر اور بیوی جسمانی اور ذہنی طور پر بالغ اور عاقل ہوں۔ اگر اس ادارے کی باگ کم سن اور کم عقل افراد کے ہاتھوں میں دے دی جائے تو اسلام کے وہ مقاصد مجروح ہوتے ہیں جن کے لیے خاندان کا ادارہ وجود میں آتا ہے۔ اسلام کی نظر میں خاندان ایک حساس ادارہ ہے۔ اس حساسیت کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو جسمانی اور ذہنی طور پر بالغ ہوں۔ انسانی سماج کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو سکیم بنائی ہے‘ اس کی بنیاد مرد اور عورت کے باہمی تعلق پر ہے۔ اگر یہ تعلق مضبوط نہیں ہو گا تو یہ سکیم پوری نہیں ہو گی۔ اگر میاں بیوی کے مابین مودت ومحبت کا تعلق نہ ہو تو ان کا باہمی رشتہ مستحکم نہیں ہو سکتا۔ اسلام نکاح ہی کو مرد وزن کے باہمی تعلق کی واحد صورت تسلیم کرتا ہے۔ اس تعلق کو‘ اسلام چاہتا ہے کہ باہمی محبت والفت کی اساس پر قائم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس میں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس کے لیے اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی‘‘۔ (الروم: 21)۔ مرد اور عورت کے درمیان محبت اور کشش فطری ہے اور عالم کا پروردگار یہ کہہ رہا ہے کہ یہ محبت ایک سوچی سمجھی سکیم کا حصہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے سکون اور تسکین کا باعث ہوں۔ دونوں ایثار کرنے والے ہوں جو محبت کا نا گزیر نتیجہ ہے۔ اس سے وہ حقیقی اور مضبوط بنیاد میسر آ سکے گی جو ان کے باہمی بندھن کو مستحکم کرے گی۔ یہ باہمی تعلق ایک ایسے مضبوط خاندان کی بنیاد بنتا ہے جو نسلوں کو ایک دوسرے سے وابستہ رکھتا اور مسلم طرزِ معاشرت کی بقا اور سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔ چونکہ نکاح ایک سماجی معاہدہ بھی ہے‘ اس لیے اگر فریقین کے مابین قانونی سطح پرحقوق وفرائض طے نہ ہوں تو یہ امکان رہتا ہے کہ طاقتور فریق کمزور فریق کے حقوق کو غصب کرے اور اس کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے۔ اس لیے قر آن مجید نے اس تعلق کی قانونی اساس بھی بیان کی ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ نکاح وطلاق کو دستاویزی صورت دی جانی چاہیے۔
اسلام چونکہ خاندان کو بچوں کا کھیل یا محض جسمانی مطالبات کا جواب نہیں سمجھتا‘ بلکہ اس ادارے کی بنیاد پر ایک مستحکم معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے‘ اس لیے وہ شوہر اور بیوی کے حقوق وفرائض کا تعین کرتا ہے۔ سورۃ النساء میں بتا دیا ہے کہ خاوند گھر کا سربراہ ہے جو معاشی ذمہ داریاں اٹھاتا ہے۔ بیوی گھر کے رازوں کی حفاظت کرتی اور گھر کے نظام کوفرمانبرداری کے ساتھ قائم رکھتی ہے۔ کیا کم عمر لڑکے لڑکیاں کفالت اور رازوں کی حفاظت جیسی بڑی ذمہ داریاں اٹھا سکتے ہیں؟ قرآن مجید نے شوہر اور بیوی کے جو فرائض اور ذمہ داریاں بیان کی ہیں‘ ان سے صاف ظاہر ہے کہ ایک کم سن ان ذمہ داریوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس سے خود بخود عمر کا تعین ہو جاتا ہے۔ بات کہنے کے دو انداز معروف ہیں۔ ایک براہِ راست اور دوسرا بالواسطہ۔ مثال کے طور پر اگر کسی دفتر کو پڑھے لکھے ملازم کے لیے اشتہار دینا ہے تو اس کی ذمہ داریاں دو طرح بیان کی جا سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو لکھنا پڑھنا جانتا ہو۔ یہ بات کہنے کا براہِ راست انداز ہے۔ دوسرا یہ کہ دفترکو ایسے ملازم کی ضرورت ہے جو موصولہ شکایات کے جواب لکھ سکے۔ اس جملے میں واضح الفاظ میں تعلیمی قابلیت کا ذکر نہیں لیکن ہر آدمی سمجھ جاتا ہے کہ اس ملازمت کے لیے وہی درخواست دے جو لکھنا پڑھنا جانتا ہو۔ یہ بات کہنے کا بالواسطہ انداز ہے۔ قرآن مجید نے میاں بیوی کے فرائض کے حوالے سے دوسرا انداز اختیار کیا ہے۔
قرآن مجید ذمہ داریوں کے ادائیگی کے لیے بلوغت کے ساتھ 'رشد‘ کا بھی ذکر کرتا ہے۔ یتیموں کے سرپرستوں کو ہدایت کی گئی: ''اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو‘ یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں۔ پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو‘‘ (النساء: 6)۔ مولانا مودودی نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے: ''مال ان کے حوالے کرنے کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں: ایک بلوغ‘ دوسری رشد‘ یعنی مال کے صحیح استعمال کی اہلیت‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ جلد اوّل‘ صفحہ: 323)۔ گویا محض جسمانی بلوغت کافی نہیں بلکہ لازم ہے کہ وہ عقلی طور پر بھی بالغ ہوں۔ قرآن مجید کی اس آیت سے یہ راہنمائی ملتی ہے کہ اگر یتیم کا مال ا س کے حوالے کرنے کیلئے ذہنی بلوغت لازم ہے تو پھر شادی کے لیے یہ شرط اس سے زیادہ ضروری ہو گی کیونکہ شادی کی ذمہ داریاں مال کی حفاظت سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔
قرآن مجید اور رسالت مآبﷺ کے اسوہ سے یہ واضح ہے کہ خاندان کا ادارہ محض جنسی تسکین کے لیے قائم نہیں ہوا کہ اس کے لیے جسمانی بلوغت کفالت کرتی ہو۔ یہ مرد اور عورت کا سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔ اس میں مرد کے ساتھ عورت پوری طرح شریک ہے۔ یہ ادارہ دونوں کی فطری مطالبات کا جواب ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ایک خاندان کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ خاوند جانتا ہو کہ اس نے اب ایک گھر کی کفالت کرنی ہے۔ عورت کو بھی باخبر ہونا چاہیے کہ کل اس کے آغوش میں وہ افراد پرورش پائیں گے جنہوں نے سماج کے خیر وشر میں حصہ ڈالنا ہے۔ ماں باپ کا کام بچوں کوصرف زندگی کی آسائشیں دینا نہیں‘ ان کو اچھا انسان بنانا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ خود کو اور اہلِ خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ یہ کام حسنِ تربیت ہی سے ہو سکتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ سماج اور نظمِ اجتماعی اس کا اہتمام کرے کہ یہ ادارہ اہل ہاتھوں میں ہو۔ یہ اسی وقت ہوگا جب اسے جنسی تسکین کے ایک ذریعے سے بڑھ کر‘ ایک سماجی ادارے کے طور پر دیکھا جائے۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ خاندان کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی جائے تاکہ شادی گڈے گڈی کا کھیل نہ بن جائے۔ لہٰذا ضروری کہ ریاست اور معاشرہ دونوں قانون اور تربیت وآگاہی کی سطح پر ایسے اقدامات کریں کہ شادی کی اجازت صرف اسی کو دی جائے جو ہر طرح سے اپنے ازدواجی فرائض ادا کرنے کا اہل ہو۔ اس سے واضح ہے کہ خاندان کی تشکیل میں عورت کا کردار مفعولانہ نہیں‘ مرد کی طرح فاعلانہ ہے۔
عالمِ اسلام کے کم از کم چودہ ممالک میں شادی کی عمر طے کر دی گئی ہے جو اٹھارہ سے اکیس سال کے درمیان ہے۔ ان ممالک میں سعودی عرب‘ ترکیہ‘ مصر اور مراکش شامل ہیں۔ اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ کی رائے کے مطابق‘ اولو الامر (اربابِ اختیار) کو یہ حق حاصل ہے کہ قاضی کی اجازت سے کمسن لڑکیوں کے لیے شادی کی مناسب عمر کا تعین کر سکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے علما سے بھی یہی گزارش ہے کہ وہ شادی کی عمرکو اسلامی تصورِ خاندان کے وسیع تر تناظرمیں دیکھیں۔ اگر کم عمری کے سماجی ونفسیاتی نتائج کو سامنے رکھا جائے تو اس کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ خصوصی حالات کے لیے البتہ عدالت اس میں استثنا پیدا کر سکتی ہے۔