"KNC" (space) message & send to 7575

خاندان کا ادارہ۔ چند قابلِ غور پہلو

شادی کی عمر کے باب میں‘ ہمارے ہاں جو بحث اٹھی‘ اس نے خاندان کی ہیئت اور تہذیبی اہمیت کے بارے سماج کی بالعموم اور مذہبی طبقے کی بالخصوص‘ افسوسناک بے خبری کومنکشف کیا ہے۔ عام شہری اور اہلِ مذہب اس ادارے کے سماجی پہلو سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ اسے محض جنسی تسکین کے پہلو سے دیکھ رہے ہیں اور وہ بھی صرف مرد کے حوالے سے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب تک یہ تناظر درست نہیں ہوگا‘ مشیتِ الٰہی سمجھ میں آئے گی نہ سماج کے ساتھ خاندان کا تعلق واضح ہو گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لبرل طبقہ بھی اسے جسمانی سرگرمی کے ایک مظہر کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
لبرل طبقے کا نقطہ نظرتو سمجھ میں آتا ہے کہ اس کے نزدیک سماجی بُنت میں خاندان کی مروجہ صورت ثانوی اہمیت رکھتی ہے۔ لبرل نظامِ فکر کی اساس انسان کی مطلق آزادی پر ہے۔ اس لیے وہ خاندان کے ادارے یا مرد عورت کے باہمی تعلقات کو اسی پس منظرمیں دیکھ رہا ہے۔ اخلاقی قدریں اور خدا کی قائم کردہ حدود کی پاسداری اس کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس لیے اگر وہ شادی کی عمر اور خاندان کے ادارے کو فرد کی آزادی کے واحد حوالے کے طور پر دیکھ رہا ہے تو اس کی بات کی تفہیم ممکن ہے۔ مسئلہ تو مذہبی ذہن کا ہے جو خیال کرتا ہے کہ لبرل اقدار پر مبنی تہذیب پر اگر اسے کوئی قابلِ فخر برتری حاصل ہے تو یہ خاندان کا ادارہ ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس ادارے کا وجود سماج کو بکھرنے سے روکے ہوئے ہے اور اس کی عدم موجودگی ہی نے مغربی سماج کو منتشر کر دیا ہے۔ یہ مقدمہ نظری طور پر کتنا درست ہے‘ اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ یہ تہذیبی برتری شدید خطرات کی زد میں ہے اور اس کا سبب ہمارا تصورِ خاندان ہے۔
اس مروجہ تصورِ خاندان کی دو اساسات ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا محور ومرکز مرد ہے۔ مرد کی جنسی ضروریات اور گھر بسانے کی خواہش اصل ہے‘ باقی سب فروعات ہیں۔ اس میں عورت کہیں موجود نہیں۔ اس کی ضروریات‘ اس کی پسند‘ اس کی ترجیحات‘ یہ سب باتیں ثانوی ہیں۔ ہمارامعاشرہ ابھی تک عورت کو مکمل شخصیت ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری سماجی روایات اور ہمارے مذہبی خیالات اسی سوچ کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک بے جوڑ تعلق سے خاندان کے ادارے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ مرد اور عورت میں کوئی مطابقت نہیں ہوتی۔ عورت جس فیصلے میں شریک نہیں ہوتی‘ وہ اس کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتی۔ وہ ایک معاہدے کا حصہ ہوتی ہے مگر بادلِ نخواستہ۔ وہ سماجی مجبوری کے تحت اس ذمہ داری کو نبھاتی ہے مگر خاندان کی تشکیل میں اس کا دل شامل نہیں ہوتا۔ اس کی ایک قیمت ہے جو گھر اور بچے ادا کرتے ہیں۔
ہماراعفت اور غیرت کا تصور بھی عورت سے وابستہ ہے۔ مرد کی پاک دامنی کہیں زیرِ بحث نہیں۔ کم عمری کی شادی کے حق میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جنسی جذبات غلبہ کریں تو مرد کیا کرے؟ اس کا علاج یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ اس کی فوراً شادی کرا دینی چاہیے۔ اس بحث میں فریقِ ثانی کا کہیں ذکر نہیں۔ ہمارے ہاں یہ سوال صرف مرد کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے۔ کیا ہم نے یہ سوال عورت کے لیے بھی اٹھایا ہے؟ قرآن مجید بدکاری کی سزا میں مرد اور عورت میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا۔ گویا اللہ کی نظر میں پاک دامنی اور عفت کا یہ تصور صنفی نہیں‘ انسانی ہے۔ اللہ دونوں کو پاک دامن دیکھنا چاہتا ہے۔ یکساں سزا اسی وقت منصفانہ ہو گی جب سماجی حالات یکساں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کے مقابلے میں لونڈیوں کی سزا آدھی رکھی کیونکہ دونوں کے سماجی حالات یکساں نہیں تھے۔ ہمارے سماجی تصورات میں عورت مرد کے تابع ایک مخلوق ہے اور اسی کو ہم مذہب کی تعلیم بھی سمجھتے ہیں۔ اس ذہن کے ساتھ جس خاندان کی بنیاد رکھی جائے گی‘ اس میں خرابی کے امکانات ابتدا ہی سے شاملِ حال ہوں گے۔
خاندان کی تفہیم میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسے دو افراد کے بجائے‘ دو خاندانوں کا عقد سمجھتے ہیں۔ ہمارے سماجی پس منظر میں یہ بات کچھ ایسی غلط نہیں ہے‘ مگر مسئلہ ترجیح کا ہے۔ پہلی ترجیح تو فریقین کی خواہش‘ مطابقت اور ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ ہے۔ ثانوی درجے میں خاندانوں کی مناسبت اہم ہے۔ والدین فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم نے بھائی یا بہن کے بیٹے یا بیٹی سے اپنی اولاد کو بیاہنا ہے۔ اطاعتِ والدین کے نام پر لڑکے اور لڑکی کو مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ اس فیصلے کو قبول کریں۔ دو افراد جن پر خاندان کے ادارے کی بقا ہے‘ جب ان کا کردار ثانوی ہو گا تو پھر یہ ادارہ کیسے کامیابی کے ساتھ چل سکے گا؟ عدم مطابقت سے جو اخلاقی مفاسد پیدا ہوتے ہیں‘ اس کا لوگوں کو اندازہ نہیں۔ ہمارے ہاں غیر ازواجی تعلقات کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ خاندان کو کسی انتشار سے بچانے کے لیے سماج کے فیصلے کو برقرار رکھا جاتا ہے اور اس دائرے سے باہر من پسند دنیا آباد کر لی جاتی ہے۔ مرد کی پاک دامنی کی حفاظت کرتے کرتے‘ نہیں معلوم کتنے دامن داغ دار ہو جا تے ہیں۔
خاندان کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ اسے مضبوط بنیادیں فراہم کی جائیں۔ اس کے لیے اس ادارے کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے۔ یہ جاننا چاہیے کہ شادی بچوں کا کھیل نہیں۔ ہمارے ہاں سماجی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں۔ سماجی سطح پر نہ تعلیمی اداروں میں۔ محض قانون سے سماج نہیں بدلتا۔ اگر ایسا ہوتا تو 1961ء کے بعد کسی سولہ برس سے کم عمر لڑکی کی شادی نہ ہوتی۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ دروازہ بند نہیں ہو سکا۔ یہ سماجی تعلیم سے ہو گا۔ انڈونیشیا کی سب سے بڑی مذہبی جماعت نہضۃ العلما کے شعبہ خواتین نے ان مسلم بچیوں کے لیے ایک تربیتی کورس کا اہتمام کر رکھا ہے جو شادی کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ شادی سے کیا مراد ہے؟ اور یہ کہ کیسے ان کی زندگی میں ایک نئے دور کا آغازہو گا۔ اس کے نفسیاتی‘ قانونی اور سماجی پہلو کون کون سے ہیں۔ اس طرح جب وہ ایک خاندان کی بنیاد رکھتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کردار اب کتنا ذمہ دارانہ ہو گا۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی اسی طرح کی تربیت کا اہتمام ہو۔ ہماری بچیوں کے لیے شادی خلا میں چھلانگ ہے۔ اس کی وجہ سے وہ ایک ایسی دنیا میں جا قدم رکھتی ہیں جو ان کے لیے انجان ہوتی ہے۔ اس طرح خاندان جیسا ادارہ مسائل میں گھر جاتا ہے۔
مسلم معاشرت کے فروغ کے لیے خاندان کی اہمیت کسی دلیل کی محتاج نہیں۔ ہم نے اگر اسے مضبوط بنانا ہے تو اس کو ایک سماجی ادارے کے طور پر سمجھنا ہو گا۔ ہم اسے ایک مذہبی ادارہ سمجھتے ہیں۔ مذہب پر بھی فقہی ذہن کا غلبہ ہے جو ہر معاملے کو قانون کی نظر سے دیکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خاندن ایک سماجی ادارہ ہے جس کے بارے میں مذہب نے ہدایات دی ہیں۔ چونکہ یہ ایک معاہدہ ہے‘ اس لیے اس کا ایک قانونی پہلو بھی ہے۔ فقہ اور قانون کی بحث کو اسی دائرے میں رکھنا چاہیے۔ خاندان کی تفہیم کے لیے اس کا مطالعہ ایک سماجی ادارے کے طور پر کیا جانا چاہیے اور سماج ارتقا پذیر ہے۔ زرعی اور صنعتی معاشروں کے سماجی مطالبات یکساں نہیں ہو سکتے۔ اللہ کے قانون میں اس ارتقا اور تنوع کی رعایت رکھی گئی ہے اور ہمیں اس کو سمجھنا چاہیے۔ اگر ہم اس کا اہتمام کر سکیں تو بہت سی ایسی بحثیں پیدا نہ ہوں جن میں ہم الجھے رہتے ہیں۔ ان میں ایک مسئلہ شادی کی عمر کا بھی ہے۔ اس کو ہم قانونی کے بجائے سماجی پہلو سے دیکھیں گے تو صحیح رائے تک پہنچیں گے۔ لبرل اور مذہبی ذہن‘ دونوں اس سے صرفِ نظر کر رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں