سوشل میڈیا کی توپوں کا رُخ ان دنوں تبلیغی جماعت کی طرف ہے۔ کہتے ہیں ڈائن بھی آٹھ گھر چھوڑ دیتی ہے۔ سوشل میڈیا کے لیے شایدکوئی گھر آٹھواں گھر نہیں۔
تبلیغی جماعت کے تصورِ دین سے مجھے بھی شکایت ہے۔ دین کے اجتماعی تقاضوں کا اس کی دعوت میں کہیں گزر نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ضعیف اور موضوع روایات کی سند سے دین بیان کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا خطرناک رجحان ہے جس نے دین کو رطب و یابس کا مجموعہ بنا دیا ہے۔ اس تساہل کی وجہ سے وہ باتیں عوام کے دینی شعور کا حصہ بن گئی ہیں جن کی تائید قرآن کرتا ہے نہ سنت۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں‘ لوگ مچھر چھاننے ا ور اونٹ نگلنے لگے ہیں۔ یہ محدثین کے فقید المثال کام پر خطِ تنسیخ کھینچنا ہے جنہوں نے جواہر کو سنگریزوں سے الگ کرنے میں عمر لگا دی۔ تبلیغی جماعت کے بزرگوں نے اس ڈھیر کو پھر سے اکٹھا کر دیا۔ اس تنقید کے باوصف‘ کیا ہم اس جماعت کے مثبت پہلوئوں سے صرفِ نظر کر لیں؟
اختلاف تو ہمیں 'سیاسی اسلام‘ سے بھی ہے۔ دین کی اس تعبیر نے اسلامی ریاست کے قیام کو دینی فریضہ قرار دیا تو دین میں ترجیحات اور مقصود ومطلوب کی ترتیب بری طرح متاثر ہوئی۔ حاشیہ متن بن گیا اور متن حاشیہ۔ سب کچھ موجود ہوتے ہوئے بھی سب کا مقام بدل گیا۔ اس پہلو کو نمایاں کرنے کا مطلب کیا یہ ہے کہ اس تعبیر کی کوکھ سے جنم لینے والی تحریکِ اسلامی کے محاسن اور مثبت کردار کو نظر انداز کر دیا جائے؟ کون سا صاحبِ علم ہوگا جو سید ابو الاعلیٰ مودودی کو مسلم فکر کی روایت سے خارج کرنے کی جسارت کرے؟ جو مولانا کی ان مساعی کا انکار کر دے جو انہوں نے اشتراکی فکر اور الحاد کے سامنے بند باندھنے کیلئے کیں اور مسلمانوں کو اس سیلابِ بلا سے فی الجملہ محفوظ بنایا؟ کون ہے جو سید قطب کی عزیمت کا منکر ہو؟ جو امام حسن البنا کی قربانیوں اور عظمت کا معترف نہ ہو؟
یہی معاملہ تبلیغی جماعت کا بھی ہے۔ اس تحریک نے مسلمانوں کو ان کی دینی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنے کیلئے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ دین کو فرد کی زندگی کا ایک مسئلہ بنایا اور اس اہم پہلو کو نمایاں کیا کہ ہر فرد کو انفرادی طور پر خدا کے حضور میں جواب دہ ہونا ہے‘ اس لیے اس کی سب سے زیادہ توجہ اپنی اصلاح پر ہونی چاہیے۔ یہی تبلیغی جماعت ہے جس نے امتِ مسلمہ کو یہ پیغام دیا کہ وہ اصلاً امتِ دعوت ہے۔ اس کا کام لوگوں (الناس) تک دین کی دعوت کو پہنچانا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ مقدمہ ہے‘ سوشل میڈیا نے جسے بازیچہ اطفال بنا دیا۔ اس کیلئے ہر وہ شے جنسِ بازار ہے جس سے نفع کشید کیا جا سکے۔ اب تبلیغی جماعت بھی اس کی دکان پر برائے فروخت ہے۔
حالیہ دنوں میں تبلیغی حلقوں میں بدقسمتی سے کچھ ایسے واقعات ہوئے جو تبلیغی جماعت کے مزاج اور کام سے ہم آہنگ نہیں تھے۔ یہ واقعات پاکستان میں ہوئے اور بنگلہ دیش میں بھی۔ اس جماعت کے لوگ بالعموم دین کیلئے جس طرح بے لوث ہو کر کام کرتے ہیں وہ قابلِ رشک ہے۔ یہاں کوئی لیڈر نہیں ہوتا‘ سب داعی ہوتے ہیں۔ عام آدمی کو برسوں کی وابستگی کے باوجود‘ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس جماعت کا امیر کون ہے۔ حج کے بعد‘ مسلم تاریخ کے سب سے بڑے اجتماعات یہ جماعت کرتی ہے۔ لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں مگر ٹریفک رواں دواں رہتی ہے۔ کبھی بھگدڑ نہیں مچتی کہ لوگ کچلے جائیں۔ سب کو کھانا ملتا ہے اور ہر کوئی اپنے قیام وطعام کا خود بندوبست کرتا ہے۔ اس شہرت کی حامل جماعت میں جب اختلافات کے قصے سامنے آئے اور یہ تاثر ابھرا کہ یہاں بھی معاملات دوسرے سیاسی اور مذہبی اداروں جیسے ہیں تو لوگوں کو حیرت ہوئی اور سوشل میڈیا کو ایک موضوع مل گیا۔ اس نے اسے گلی بازار کا موضوع بنا دیا۔
تبلیغی جماعت کو جن عوامل نے مقبول بنایا ہے‘ ان میں مولانا محمد الیاس کا اخلاص بھی شامل ہے۔ مسلمانوں کے لیے دردِ دل کے باب میں دو افراد کا کوئی ثانی نہیں۔ ایک سرسیّد اور دوسرے مولانا الیاس۔ سرسیّد کو مسلمانوں کی دنیا کی فکر تھی اور مولانا کو مسلمانوں کی آخرت کی۔ تبلیغی جماعت نے دعوت کو لوگوں کے لیے عذاب نہیں بنایا۔ یہ شعوری کوشش کی گئی کہ دین ہی لوگوں کا اوڑھنا بچھونا بنے۔ یہ پہلو متقاضی ہے کہ اسے ٹھٹھا مذاق نہ بنایا جائے۔ ان غیر ضروری اختلافات کو نہ ابھارا جائے جن سے دین کی دعوت کو نقصان پہنچتا ہو۔ تبلیغی جماعت کے بزرگوں کو بھی اس کا احساس ہونا چاہیے کہ لوگوں کو ایسا موقع نہ ملے جو اس تحریک کے بارے میں غلط تاثر کو ہوا دینے میں معاون بنے اور دین کی دعوت کو نقصان اٹھانا پڑے۔ اس کی صفوں میں ایسے لوگوں کے لیے جگہ نہیں ہونی چاہیے جو گروہ بندی کریں اور جن کا مقصد دعوت کے بجائے کچھ اور ہو۔
تبلیغی جماعت کے بعض خیر خواہ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ اس جماعت کو بھی جدید ذرائع ابلاغ سے اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔ میرا احساس یہ ہے کہ اس جماعت کی فکری سادگی کو برقرار رہنا چاہیے۔ یہی اس کا امتیاز ہے اور یہی اس کے مقبول ہونے کی وجہ بھی۔ دوسری مذہبی جماعتیں‘ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی‘ جدید ذرائع کے استعمال میں بہت فعال ہیں۔ یہ جائز ناجائز کی بحث نہیں‘ محض حکمتِ عملی کا سوال ہے۔ اچھا ہے کہ ایک جماعت روایتی اسلوب کے ساتھ کام کرے اور اس کا ایک مظہر سماج میں موجود رہے۔ اس جماعت کی حکمتِ عملی میں بنیادی تبدیلی اس کے فطری حسن کو متاثر کرے گی۔
انسانی سماج کا ایک حسن یہ ہے کہ اس میں رنگا رنگی ہے۔ سارے انسان ایک طرح کے نہیں ہوتے۔ جس مزاج کو جماعت اسلامی متاثرکر سکتی ہے‘ ممکن ہے کہ تبلیغی جماعت اس کے لیے باعثِ کشش نہ ہو۔ اسی طرح جس کے لیے تبلیغی جماعت قابلِ توجہ ہے‘ یہ ہو سکتا ہے کہ جاوید احمد غامدی صاحب اس کو متاثر نہ کریں۔ ہم اپنے فہم کے مطابق دوسروں پر تنقید کا حق رکھتے ہیں مگر شائستگی کے ساتھ۔ اگر مسئلہ عقیدے یا ضروریات ِدین کے انکارکا نہیں ہے تو پھر اس تنوع کو سماج میں قبول کرنا چاہیے۔ جہاں عقیدے کا اختلاف ہے وہاں بھی اپنی بات دعوت کے نبوی اسلوب میں کہنا چاہیے جس میں نرمی اور شائستگی پہلی شرط ہے۔ بدقسمتی سے دین کے نام پر کچھ اسے لوگ متحرک ہو جاتے ہیں جو استہزا کی زبان استعمال کرتے اور فروعی اختلاف پر دوسروں کے کفر اور نفاق کا فیصلہ سناتے ہیں۔ یہ لوگ دین کو مذاق بنانے میں معاون کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی لوگ سوشل میڈیا کو مواد فراہم کرتے ہیں کہ وہ تبلیغی جماعت جیسی جماعتوں کو منفی تاثر کے ساتھ موضوع بنائے۔
سماج میں فکری تنوع رہے گا اور عملی بھی۔ اسے واقعہ سمجھ کر قبول کرناچاہیے۔ تبلیغی جماعت سمیت میں ہر اس گروہ کو بحیثیت مجموعی خیر کی علامت سمجھتا ہوں جو لوگوں کو آخرت کی یاد دہانی کراتا ہے۔ انسانی کام میں کمزوریوں کا پایا جانا فطری ہے۔ ہم کسی کو بھی ان کمزویوں کی طرف شائستگی کے ساتھ توجہ دلا سکتے ہیں۔ تاہم ہمارے طرزِ عمل سے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک خیر خواہ کی تنقید ہے‘ کسی د شمن یا تماش بین کی نہیں۔ تبلیغی جماعت پر مولانا مودودی کا ایک مضمون‘ اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ اسی طرح کا ایک کتابچہ مولانا وحید الدین خاں نے بھی لکھا ہے۔ سوشل میڈیا کو بھی یہی انداز اپنانا چاہیے۔ اُس کے پاس پیسے کمانے کے لیے بہت سے موضوعات ہیں۔ درخواست یہی ہے کہ تبلیغی جماعت جیسی کاوشوں کو معاف رکھا جائے۔ آٹھ گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے۔