اس ملاقات کے کئی زاویے ہیں۔ انحصار آپ پر ہے کہ اسے کس زاویے سے دیکھتے ہیں۔
ایک زاویہ تو یہ ہے کہ یہ ملاقات پروٹوکول کے مروجہ آداب سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ امریکہ کی طرف سے اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ وہ پاکستان میں کسے سیاسی قوت کا مرکز سمجھتا ہے۔ چونکہ یہ رویہ جمہوری اقدار سے مناسبت نہیں رکھتا‘ اس لیے اپنے جلو میں شکوک وشبہات کو لیے ہوئے ہے۔ یہ اُس قدیم داستان کا نیا باب لکھا جا رہا ہے جس کا پہلا باب جنرل ایوب خان تھے۔ پس منظر میں یہ مفروضہ ہے کہ امریکہ نے جب بھی کسی پاکستانی جرنیل سے معاملہ کیا‘ پاکستان کے مفادات کو زد پہنچی۔
یہ زاویہ نظر محلِ نظر ہے۔ سیاست ہمیشہ حقیقت پسند ہوتی ہے۔ صدر ٹرمپ اس معاملے میں روایتی سیاستدانوں اور حکمرانوں سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ قدیم حکمران نظر کی شرم رکھتے تھے‘ ٹرمپ اس کے زیادہ قائل نہیں۔ صدر کلنٹن پاکستان آئے تو انہوں نے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف سے ہاتھ نہیں ملایا۔ یہ علامتی اظہار تھا کہ امریکہ پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ کو درست نہیں سمجھتا۔ یہ اظہار مگر علامت سے آگے نہیں بڑھا۔ امریکہ نے مشرف صاحب سے آٹھ برس معاملہ کیا اور خوب کیا۔ موجودہ امریکی صدر ایسے کسی تکلف کے قائل نہیں۔ سچ یہ ہے کہ پروٹوکول سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ پاکستان میں ایک ہائبرڈ نظام چل رہا ہے جس کا اعتراف خواجہ آصف صاحب بھی کر رہے ہیں۔ اس ہائبرڈ نظام میں پلڑا کس جانب جھکتا ہے‘ یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ صدر ٹرمپ کا طرزِ عمل اس کے مطابق ہے۔ اس پر اخلاقی اعتراض ہو سکتا ہے جو طاقت کی سیاست میں بے معنی ہے۔
اقتدار کی سیاست داخلی ہو یا خارجی‘ زمینی حقائق کے تابع ہوتی ہے۔ طاقت کی اپنی اخلاقیات ہیں۔ یہ امرِواقعہ کا بیان ہے کسی خواہش کا اظہار نہیں۔ لوگ دو باتوں میں فرق نہیں کرتے۔ ایک یہ کہ طاقت کیا کرتی ہے؟ دوسرا یہ کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بتاتے ہیں کہ طاقت کا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے۔ اس سے مراد اس کی تائید نہیں ہوتی۔ استاذ جاوید احمد غامدی صاحب نے یہی بات کہی تو یار لوگ الفاظ کے تیر وتفنگ لے کر اُن پر پل پڑے۔ جب ان سے پوچھا جائے گا کہ طاقت کو کیا کرنا چاہیے تو ظاہر ہے کہ ان کا جواب دوسرا ہو گا۔ سیاست کی اتنی سمجھ بوجھ تو صدیوں پہلے ملکہ سبا کو بھی تھی۔ جب اسے سیدنا سلیمان علیہ السلام کا خط ملا اور اس نے اپنی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس بلایا توان کی بات سننے کے بعد: ''ملکہ نے کہا: بادشاہ لوگ جب کسی بستی (کو فتح کرکے اُس) میں داخل ہوتے ہیں تو اُس کو درہم برہم اور اُس کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور یہ لوگ بھی یہی کریں گے‘‘۔ (النمل: 34)۔ اُس وقت تک وہ خدا کے حکم سے قائم ہونے والی حکومت اور انسانوں کی حکومت کے مابین فرق سے بے خبر تھی۔ اس کا تبصرہ اُس سیاسی طاقت پر تھا جو خدا کے خوف سے آزاد ہے اور وہ یہی کرتی ہے۔ ٹرمپ صاحب کی بھی اپنی اخلاقیات ہیں اور وہ اسی کے تحت فیصلے کریں گے۔ وہ جسے چاہیں پروٹوکول دیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟
اب آئیے ایک اور زاویے کی طرف۔ یہ بھی محض مفروضہ ہے کہ فوجی حکمران امریکہ سے معاملہ کرے تو مشکوک ہے اور سیاستدان کرے تو شفاف۔ پاکستان کے جمہوری حکمرانوں کے بارے میں بھی یہی رائے رہی ہے۔ کیا بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے بارے میں یہی تاثر نہیں قائم کیا گیا؟ بینظیر صاحبہ کے بارے میں کہا گیا کہ انہیں امریکہ اقتدار میں لایا ہے۔ نواز شریف صاحب نے کارگل کے معاملے میں صدر کلنٹن سے ملاقات کی تو کہا گیا کہ انہوں نے کشمیر بیچ دیا۔ ایک تقریب میں‘ جنرل (ر) حمید گل مرحوم نے کہا کہ نواز شریف پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ وزیراعظم واجپائی کی آمد پر لاہور میں کیا ہوا؟ صدر ٹرمپ سے عمران خان صاحب کی ملاقات بھی قیاس آرائیوں کی زد میں رہی۔ یہ کہا گیا کہ بھارت نے اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کے بارے میں جو اقدام کیا‘ اس کے بارے میں اسی ملاقات میں پاکستان کو اعتماد میں لیا گیا۔ غرض جتنے منہ‘ اتنی باتیں اور اس میں جمہوری یا غیر جمہوری حکمرانوں میں کوئی امتیاز نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ واقعات کیا ان مفروضوں کی تائیدکرتے ہیں؟ زیرِ بحث ملاقات کے بارے میں اس وقت کچھ کہنا ممکن نہیں کہ اس کے بعد کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔
میرا تاثر یہ ہے کہ اس ملاقات میں جو اصل مسئلہ زیرِ بحث آیا ہو گا‘ وہ ایران اسرائیل جنگ ہے۔ امریکہ کو اس وقت پاکستان کی مدد چاہیے۔ صدر ٹرمپ اس دیوانگی میں بھی جانتے ہیں کہ امریکہ اگر اس جنگ کا براہِ راست حصہ بنتا ہے تو اس کے اثرات کو سمیٹنا ان کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ ان کی خواہش ہو گی کہ ایران کو کسی طرح بین الاقوامی نظم کا حصہ بنایا جائے۔ بیانات اپنی جگہ مگر ایران بھی جانتا ہے کہ جنگ کی طوالت اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس وقت پاکستان اور ایران میں اعتماد کا ایک رشتہ قائم ہے۔ یہ بات صدر ٹرمپ کو معلوم ہے۔ اسی لیے انہوں نے کہا کہ ایران کو پاکستان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اگر پاکستان امریکہ کو کسی ندامت سے محفوظ رکھنے میں اس کی معاونت کرے تو وہ اس کا محسن ہو گا۔ اندازہ ہے کہ پاکستان اس کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ ہے۔
اگر یہ بات درست ہے تو یہ ملاقات نہ صرف پاکستان بلکہ عالمِ اسلام اور خطے کے لیے بھی امن کی نوید بن سکتی ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب بھارت عالمی سیاست میں غیر متعلق ہے‘ ایک عالمی تنازع میں پاکستان کے کردار اور اہمیت کا اعتراف ایک بڑی سفارتی پیش رفت ہے۔ اس سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان امریکہ کو یہ باور کرا سکتا ہے کہ اسرائیل کی ایک حد سے زیادہ پشت پناہی اس کے مفادات کے لیے ضرر رساں ہے۔ اگر پاکستان جنگ بندی میں کوئی کردار ادا کرتا ہے تو چین بھی اس کو سراہے گا۔ اس لیے پاکستان کے لیے اس ملاقات میں ان شاء اللہ خیر ہی خیر ہے۔
رہا یہ مفروضہ کہ پاکستان کا حکمران طبقہ امریکی خوشنودی کے لیے ذاتی مفادات کے عوض قومی مفاد کو گروی رکھ دیتا ہے تو یہ تحقیق طلب ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے حکمران‘ جمہوری ہوں یا غیر جمہوری‘ اپنے اقتدار کے تسلسل کے لیے امریکہ کی طرف دیکھتے رہے ہیں مگر اس کے شواہد موجود نہیں کہ اس کے لیے انہوں نے قومی مفادات کو پسِ پشت ڈالا۔ ہم سب جو اعتراضات کرتے ہیں وہ نقطہ نظر کا اختلاف ہے جسے ہم حسبِ عادت قومی مفادات کے منافی قرار دے دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنرل ضیا الحق کی افغان پالیسی پر بہت سے اعتراضات ہیں۔ میری تفہیم بھی یہ ہے کہ اس سے پاکستان کے سماج ا ور ریاست‘ دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ تاہم اس ملک میں اکثریت اس پالیسی کو درست سمجھتی ہے۔ اس لیے میں اسے غلط تو کہوں گا لیکن یہ کہنے کے لیے میرے پاس شواہد نہیں کہ جنرل ضیا الحق نے جان بوجھ کر‘ صرف امریکی خوشنودی کے لیے قومی مفادات سے صرفِ نظر کیا۔
زیرِ بحث ملاقات کے بارے میں بھی خوش گمان رہنا چاہیے‘ الّا یہ کہ کسی کے پاس اس کے خلاف کوئی شہادت موجود ہو۔ ابھی تک یہ محض گمان ہے جسے بدگمانی بھی کہا جا سکتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ ہونا کیا چاہیے‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سب کچھ شفاف ہو‘ عوامی نمائندوں کے ہاتھوں ہو اور پارلیمان کے سامنے ہو۔