فرعون سے ٹرمپ تک‘ انسان نہیں بدلا۔ اسے طاقت ملتی ہے تو سرکش ہو جاتا ہے۔ سماجی ارتقا کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ شر کی 'اخلاقیات‘ عالمگیر ہیں۔
صدیوں سے ہمیں سمجھانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ اخلاقیات کا معاملہ موضوعی ہے۔ شاہراہ تہذیب پر فکر وفلسفے کے اَن گنت چراغ جل رہے ہیں‘ جن کی روشنی جب بھی انسان کے ذہنی افق پر پڑی‘ اسے یہی راستہ دکھایا کہ اخلاقیات کے باب میں کچھ 'آفاقی‘ نہیں۔ خیر وشر کے سب تصورات زمان ومکان کی حدود میں پیدا ہوتے اور ارتقا پذیر ہیں۔ تاریخ اس مقدمے کو رد کرنے پر ہمیشہ تلی رہتی ہے۔ قابیل کے جس کردار کو دیومالائی سمجھا جاتا ہے‘ اس نے ہر دور میں اپنے وجود کو ثابت کیا ہے۔ کبھی فرعون کے روپ میں‘ کبھی ٹرمپ کے لبادے میں۔ اس کی سرکشی قتل گاہیں آباد کرتی اور زبانِ حال سے اعلانِ عام کرتی ہے کہ انسان کی ایک ساخت ہے جو بنی نہیں‘ بنائی گئی ہے۔ وہ اسی کے زیرِ اثر عمل کرتا ہے۔ اس لیے قابیل کے ساتھ ہابیل کا ذکر بھی ہے۔ دونوں کی ساخت ایک ہے جس میں خیر وشر الہام کیے گئے ہیں۔ ایک نے قاتل بننا پسند کیا دوسرے نے مقتول۔ انسان کی ساری تاریخ یہی ہے۔
امریکہ کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ ایران پر حملہ آور ہو؟ کیا سلامتی کونسل نے کوئی قرارداد منظور کی تھی؟ کیا کسی ایک ملک نے بھی امریکہ کے اس اقدام کو درست کہا؟ کیا ایران کے خلاف مقدمہ کسی عدالت میں ثابت ہوا؟ افغانستان پر حملے کے وقت ایک جھوٹا سچا مقدمہ قائم کیا گیا۔ دنیا بھی امریکہ کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس بار یہ تکلف نہیں کیا گیا۔ یہ وہی سرکشی ہے جو فرعون میں تھی۔ اس کا اعلان تھا: ''کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے؟ اور یہ نہریں بھی کہ میرے (محلوں کے) نیچے بہہ رہی ہیں؟ پھر کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟‘‘ (الزخرف: 51)۔ ''تمہارا سب سے بڑا رب تو میں ہوں‘‘۔ (النازعات: 24)۔ یہ طاقت کی زبان ہے۔ فرعون اور ٹرمپ کے الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں‘ مفہوم میں ذرہ برابر فرق نہیں۔
صدر ٹرمپ اور فرعون میں مگر ایک فرق ہے: ٹرمپ نے بائبل پر حلف اٹھایا ہے۔ وہ ایک روایت پسند مسیحی ہیں۔ فرعون وموسیٰ کا ذکر تو عہدِ نامہ عتیق میں موجود ہے۔ معلوم ہوتا ہے جس طرح ہم مسلمان قرآن مجید کو نہیں پڑھتے اسی طرح ٹرمپ نے بھی کبھی بائبل کو نہیں پڑھا۔ اللہ کی کسی کتاب پر زبانی کلامی ایمان کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی اسے سمجھتا اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ ٹرمپ کا رویہ ایک مذہبی آدمی کا نہیں‘ ایک غیر مذہبی شخص کا ہے جو خدا اور پیغمبروں کا انکار کرتا ہے اور جس کی علامت فرعون ہے۔ صاحبانِ اقتدار جب اخلاقی قدروں سے آزاد ہوتے ہیں تو اسی طرح اپنے رب ہو نے کا اعلان کرتے ہیں۔ اقتدار کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن اہلِ اقتدارکا ہوتا ہے۔
امریکہ کا ایران پر حملہ بتا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ ایک قابلِ بھروسہ آدمی نہیں ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ایران پر حملے کو دو ہفتے کے لیے مؤخر کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا قول نہیں نبھایا۔ پاکستان سمیت کسی ملک کو یہ موقع نہیں دیا کہ وہ سفارت کاری سے معاملے کو حل کرے۔ کل کیا بھروسہ ہے وہ اپنی کسی بات پر قائم رہیں گے؟ پاکستان سمیت کوئی ملک کیسے ان کی مدد کرے گا؟ آثار موجود تھے کہ پاکستان کو اگر موقع دیا جاتا تو جنگ کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکتا تھا۔ اب یہ امکان بھی کم وبیش ختم ہو گیا ہے کہ کوئی ملک صدر ٹرمپ کی ضمانت دے سکے۔ تو کیا عالمی نظام اسی طرح چلے گا؟ کیا امریکی حکومت اور القاعدہ میں کوئی جوہری فرق باقی رہ گیا ہے؟
ریاستیں بھی معاہدات کی پابند ہوتی ہیں۔ اپنی جغرافیائی حدود سے تجاوز کرتے وقت انہیں ان معاہدات کی پاسداری کرنا پڑتی ہے۔ امریکہ اگر کسی دوسرے ملک پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس کے لیے جواز چاہیے۔ اگر افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کا کئی جواز نہ تھا تو ایران میں امریکی مداخلت کا کیا جواز ہے؟ یہ سب عقلی سوالات ہیں‘ جن کو اٹھانا اس وقت بے معنی ہو چکا۔ اس وقت تو طاقت خود فیصلہ کر رہی ہے اور بارِ دگر عرض ہے کہ طاقت اگر خوفِ خدا سے آزاد ہو تو 'انسانی اخلاقیات‘ اسے ظلم سے نہیں روک سکتے۔ اقوامِ متحدہ ہو یا کوئی دوسرا فورم‘ ان میں ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ امریکہ کو صرف طاقت روک سکتی ہے جس طرح سوویت یونین کو ایک دوسری طاقت نے روکا تھا۔
اگر ٹرمپ اس وقت امریکی صدر نہ ہو تے تو کیا امریکہ اس جنگ کا براہِ راست حصہ بن جاتا؟ صدر کلنٹن اس وقت اسرائیل کی غیر مشروط حمایت پر آمادہ نہیں۔ برنی سینڈرز نے نیتن یاہو کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اس مؤقف کے حاملین امریکہ میں موجود ہیں مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ سے بعید نہیں تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کے بغیر بھی یہی فیصلہ کرتی۔ ممکن ہے وہ بین الاقوامی حمایت کے حصول کی کوشش کرتے مگر نتیجہ یہی نکلتا۔ وجہ وہی طاقت کی نفسیات ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں ریاستی اور غیر ریاستی قوتوں کے لیے یکساں طور پر قانون بے معنی ہو جائے تو پھر کمزور ممالک کو اپنے دفاع کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ کیا یکطرفہ طور پر بھی ان قوانین کی پابندی کرنا ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے؟ یہ سوال مسلم ریاستوں کے لیے بطورِ خاص اہم ہے جن کی حکومت مسلمانوں کے پاس ہے اور جن کا عقیدہ ہے کہ انہیں اپنے اعمال کے لیے خدا کے حضور میں جواب دہ ہونا ہے۔
قرآن مجید سے ایک بات تو واضح ہے۔ اگر ایک فریق کسی معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو دوسرا اخلاقاً اس کا پابند نہیں رہتا۔ تاہم اسے یہ بات اعلانیہ بتانا ہوتی ہے کہ وہ معاہدے کو ختم کر رہا ہے۔ اس سے اہم تر سوال ایک اور ہے: اگر کمزور کے گرد محض طاقت کے زور پر گھیرا تنگ کر دیا جائے تو وہ کیا کرے؟ کیا وہ اپنے دفاع کے لیے خفیہ سرگرمی کر سکتا ہے؟ کیا وہ دنیا سے غلط بیانی کر سکتا ہے؟ میرا سوال عقلی نہیں‘ اخلاقی ہے۔ عقلی جواب تو یہی ہے کہ پہلے اسے طاقت حاصل کرنی چاہیے کہ دنیا اس کے خلاف اقدام کرتے وقت سو بار سوچے۔ میں اسی کے حق میں ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اس مطلوبہ طاقت کے حصول کے لیے‘ کیا وہ بین الاقوامی قانون اور ضابطے سے صرفِ نظر کر سکتا ہے؟ اور اگر نہیں کرتا اور اخلاقیات کی پابندی کرتا ہے تو کیا اس کے مادی وجود کی بقا کی کوئی ضمانت ہے؟ اسرائیل اور ایران ہی کی مثال دیکھ لیں۔ اسرائیل کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ ایٹمی قوت بنے۔ ایران کو مگر اس کی اجازت نہیں۔ ایران کے حکمران جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں‘ وہ کیا کریں؟
اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ دنیا میں اخلاق کبھی فیصلہ کن قوت بنے۔ اُس کی مانی جائے جو اخلاق میں برتر ہو۔ یہ اخلاقی نہیں‘ مادی طاقت ہے جو فیصلہ کن ہے۔ قابیل کی نسل باقی ہے اور وہ اسی پر قائم ہے۔ فرعون سے پہلے اور بعد‘ تاریخ اسی کی گواہی دے رہی ہے۔ اخلاقیات کی علمبردار قوتوں نے اگر کمزور کو بقا کا کوئی راستہ نہ دکھایا تو اس کی کیا ضمانت کہ دنیا میں اخلاق کی کوئی عملی افادیت اور معنویت باقی رہے؟ پوسٹ ماڈرنزم نے تو پہلے ہی اخلاق کو چیلنج کر رکھا ہے؟ افادیت ہی جب اصل قدر ہے تو اخلاق کا مستقبل کیا ہے؟ اخلاقی بقا اور مادی بقا کا بیک وقت اہتما م کیسے ممکن ہے؟ ذریتِ فرعون کا مقابلہ کیسے ہو جب کہ نبوت کا باب بھی بند ہو چکا؟ کوئی ہے جو جواب دے؟