"KNC" (space) message & send to 7575

چند سوالات

چند سوالات ہیں‘ جن کے جوابات میں کبھی تلاش نہیں کر پایا:
٭ جب بجٹ اسمبلی میں پیش ہوتا ہے تو اس کی حیثیت ایک تجویز کی ہوتی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ اسے یکم جولائی سے نافذ العمل ہونا ہے۔ اس سے پہلے یہ اسمبلی سے منظور ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ بجٹ پیش ہونے کے بعد اس پربحث ہوتی ہے اور مجوزہ بجٹ میں ترامیم تجویز کی جاتی ہیں جن میں سے بعض کو قبول کر لیا جاتا ہے۔ عملاً معاملہ کچھ یوں ہے کہ جیسے ہی بجٹ پیش ہوتا ہے‘ بازار میں اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ یہ قیمتیں کیوں بڑھتی ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟
٭ آئین کے مطابق نیا ٹیکس عائد کرنے کا اختیار صرف اسمبلی کے پاس ہے۔ اسمبلی سال میں ایک بار بجٹ کے موقع پر ٹیکس عائد کرتی ہے۔ تجربہ یہ ہے کہ سارا سال قیمتیں مسلسل بڑھتی رہتی ہیں۔ یہ قیمتیں کیوں بڑھتی ہیں؟ پٹرول کی قیمتوں کے بڑھنے سے یا روپے کی قیمت گھٹنے سے مہنگائی میں اضافہ ہو تو یہ قابلِ فہم ہے۔ روپے اور پٹرول کی قیمت مستحکم ہوتی ہے تو اس کے باوجود قیمتوں میں استحکام نہیں ہوتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
٭ پٹرول کی قیمت میں اضافے سے مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ لازم ہے کہ گھٹنے سے کم ہو۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ اس کا سبب کیا ہے؟
٭ خبر آتی ہے کہ چینی کی پیداوار ضرورت سے بڑھ گئی ہے‘ اس لیے اسے برآمد کیا جا رہا ہے۔ چند ماہ بعد خبر آتی ہے کہ ملک میں چینی کی کمی واقع ہو گئی ہے لہٰذا اب چینی درآمد کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے جو لوگ اس کاروبار میں شریک ہیں‘ وہی اس پالیسی میں بھی شریک ہیں۔ یہ عمران خان صاحب کے دور میں ہوا اور اب بھی ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے اور یہ بار بار کیوں ہوتا ہے؟ کیا آج تک کسی ذمہ دار کو کوئی سزا ملی؟
٭ اسلام آباد میں وسیع وعریض فارم ہاؤسز ہیں۔ یہ اس شرط پر لوگوں کو دیے گئے کہ وہ یہاں پھل سبزیاں اگائیں گے اور شہر کو فراہم کریں گے۔ اس کے ایک محدود حصے پر تعمیراتی کام ہو سکتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہاں سے شہر کو ایک دانہ تک نہیں ملتا اور یہاں بڑی بڑی عمارتیں کھڑی ہیں۔ یہ ہاؤسز اشرافیہ کی پُرتعیش زندگی کی علامت ہیں۔ اس صریح لاقانونیت کا ذمہ دار کون ہے اور کیا اس کی روک تھام ممکن ہے؟
٭ اسلام آباد میں پہاڑ اور درخت کٹ رہے ہیں۔ شہر کا فطری حسن خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر اس کی روک تھام نہ ہوئی تو یہ شہر اپنی انفرادیت کھو دے گا۔ مجھے یہ دیکھ کر شدید کوفت ہوئی کہ سری نگر ہائی وے پر بسوں کا اڈا بنایا جا رہا ہے۔ میں سوچتا رہا کہ کوئی خوش ذوق کیسے یہ گوارا کر سکتا ہے۔ سادہ بات یہ ہے کہ درخت کاٹ کر سڑکیں بنانے کے بجائے‘ اس کی آبادی اور جغرافیے کو محدود رکھنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ کیا اسلام آباد کے فطری حسن کو باقی رکھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی منصوبہ موجود ہے؟
٭ شہر میں نئی سڑک بنتی ہے۔ ماہ دو ماہ بعد‘ کبھی بجلی والے‘ کبھی گیس والے‘ کبھی فون والے اور کبھی کوئی اور آ کر اسے کھود ڈ التے ہیں۔ یوں نئی سڑک محض دو ماہ میں اجڑے دیار کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ محکموں کے درمیان کیا کوئی اشتراکِ عمل ممکن نہیں؟ کیا ایک علاقے کی منصوبہ بندی مل کر نہیں کی جا سکتی؟ اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے اور کیا کبھی اس کا تعین کیا گیا؟
٭ چند ماہ پہلے اسلام آباد میں دو بڑے تعمیراتی منصوبے مکمل ہوئے۔ شہر میں دو بڑے پُل بنائے گئے تاکہ ٹریفک کو رواں رکھا جا سکے۔ یہ ایک نیک منصوبہ تھا۔ ہوا یوں کہ پہلی بارش ہی اس سڑک کے ایک حصے کو بہا لے گئی۔ سوشل میڈیا پہ شور ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیا اس کی تحقیقات ہوں گی اور کیا عوام کو اس بارے میں بتایا جائے گا؟
٭ سڑکوں پر پروٹوکول کے نام پر لاقانونیت ہوتی ہے۔ پروٹوکول کی گاڑیاں اس طرح گزرتی ہیں کہ دوسری گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کو کچل ہی ڈالیں گی۔ اس سے عام شہری میں توہین کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ سادہ طرزِ زندگی کے فروغ کو ایک قومی ادارے 'قومی رحمۃ للعالمین وخاتم النبیین اتھارٹی‘ کی ذمہ داریوں میں شامل کیا گیا ہے جو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے وجود میں آیا ہے۔ اگر برسرِ اقتدار طبقہ اپنے بنائے ہوئے قوانین کا احترام نہیں کرے گا تو پھر عام شہری سے کیا امید کی جائے گی؟ اس کلچر کے خاتمے کے لیے کیا کوئی عملی قدم اٹھایا گیا ہے؟
٭ ہر برسات میں شہریوں کی زندگی خطرات میں گھر جاتی ہے۔ دو دن پہلے راولپنڈی میں ایک سڑک پر کھڑی گاڑی پہ بجلی کا ایک کھمبا آ گرا۔ اس نے میاں بیوی کی جان لے لی۔ شہروں کے نالے بھر جاتے ہیں اور پانی لوگوں کے گھروں میں جا گھستا ہے۔ برسات اچانک نہیں آتی۔ برسات سے پہلے ان نالوں کی صفائی کیوں نہیں ہوتی اور بجلی کے نظام پر کیوں نگاہ نہیں رہتی؟ نالوں کی صفائی انتظامیہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کا اہتمام کیوں نہیں ہوتا؟
٭ میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ دریائے سوات میں آنے والا پانی کا ریلا اٹھارہ سیاحوں کو بہا لے گیا جو تفریح کے لیے یہاں آئے تھے اور دریا کے کنارے ناشتہ کر رہے تھے۔ یہ انتظامی نااہلی اور سماجی تربیت کے فقدان کا تکلیف دہ مظاہرہ ہے۔ انتظامیہ نے اس بات کا جائزہ کیوں نہیں لیا کہ یہ ہوٹل کتنے محفوظ ہیں؟ خطرات سے باخبر کرنے والا کوئی نظام کیوں موجود نہیں تھا؟ سیاحوں نے اس موسم کا انتخاب کیوں کیا جب دریاؤں میں طغیانی ہوتی ہے؟ مری میں بھی سیاحوں کی آمد کے ساتھ مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ ہر سال ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے کوئی نظام کیوں وضع نہیں کیا جاتا؟
یہ سب سوالات وہ ہیں جن کا تعلق عام مشاہدے سے ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ مذہبی ہے نہ سیاسی۔ میں یہ سمجھ نہیں سکا کہ ایسے مسائل کے حل کے لیے ہماری اسمبلیوں میں اتفاقِ رائے کیوں تلاش نہیں کیا جاتا؟ حکومت یا اپوزیشن کے اراکین ان مسائل کو کیوں نہیں اٹھاتے؟ سیاسی جماعتیں ان مسائل پر احتجاج کیوں نہیں کرتیں؟ یہ مسائل جمعہ کے خطبے کا موضوع کیوں نہیں بنتے؟ ہم فلسطین کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل ایران جنگ کا روز تجزیہ کرتے ہیں۔ امریکی عزائم کے راستے میں دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں لیکن پیش پا افتادہ مسائل پر نظر نہیں ڈالتے۔ وہ مسائل جنہیں حل کرنا ہمارے لیے ممکن ہے۔
ان سادہ سوالات کے جواب مجھے کبھی نہیں مل سکے۔ ان مسائل کے لاینحل ہونے کا بڑا سبب انتظامی اکائی کا بڑا ہونا ہے۔ جب تک اختیارات کو تقسیم نہیں کیا جاتا‘ یہ مسائل حل طلب رہیں گے۔ لازم ہے کہ شہر اور قصبے کی سطح پر عوام کی شمولیت سے انتظامی اکائیاں بنیں اور ان مسائل کو مقامی سطح پر حل کیا جائے۔ اس کے ساتھ احتساب کا کوئی مؤثر نظام بھی ہو۔ عدالتوں میں ایسے مقدمات برسوں پڑے رہتے ہیں۔ ذمہ دار ریٹائر ہو کر گھر چلے جاتے ہیں اور فیصلے نہیں ہوتے۔ ان انتظامی امور سے متعلق‘ آئینی امور کی طرز پر الگ سے عدالتی نظم ہونا چاہیے تاکہ عوام کو سرعت کے ساتھ انصاف مل سکے۔ اس کے ساتھ سیاسی جماعتوں اور عوامی نمائندوں میں یہ شعور ہونا چاہیے کہ روز مرہ کے قابلِ حل مسائل سیاسی وابستگیوں سے آزاد ہو کر حل کیے جائیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں