"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی نشان اب بھی واپس لیا جا سکتا ہے؟

پشاور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور پارٹی کا انتخابی نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ معطل کر دیا ہے اور تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اگلی سماعت 9جنوری 2024ء تک مؤخر کر دی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں انتخابی نشان کی واپسی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار اب پارٹی سے اپنی وابستگی ظاہر کر سکتے ہیں۔ وہ کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران بھی تحریک انصاف کے امیدوار کی حیثیت سے اپنا مؤقف پیش کرنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ عبوری حیثیت کا حامل ہے‘ اس کیس کا حتمی فیصلہ اگلی سماعت میں ہوگا۔ اگر اگلی سماعت میں دو رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کر دیا تو تحریک انصاف کے پاس سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق محفوظ ہے۔ اگر تحریک انصاف کا کیس سپریم کورٹ تک پہنچتا ہے تو پھر دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشنز کا آڈٹ کرانے کا مطالبہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔ اس صورت میں الیکشن کمیشن سے دیگر سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشنز کا ریکارڈ بھی طلب کیے جانے کے امکان ہے کیونکہ پشاور ہائی کورٹ کے معزز جج کامران حیات نے بھی اپنے ریمارکس میں نکتہ اٹھایا ہے کہ دیگر سیاسی پارٹیوں کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے جانچ پڑتال کرتے ہوئے کیا طریقہ اختیار کیا تھا۔ تحریری فیصلے میں معزز جج صاحب نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کر نا اس کے ووٹرز کی حق تلفی ہے‘ فریقین کے تفصیلی دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا جاتا ہے۔ اس فیصلے میں الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر ڈالنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ میرے نزدیک الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیم دلی سے اس کیس کی پیروی کرتے رہے‘ ان کی طرف سے پشاور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کو وہ آئینی و قانونی معاونت فراہم نہیں کی گئی جو کی جانی چاہیے تھی۔
الیکشن کمیشن کے پاس پاکستان تحریک انصاف کا ممنوعہ فنڈنگ کیس بھی زیر سماعت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پر اگست میں ممنوعہ فنڈنگ کا الزام ثابت ہو چکا ہے‘ اس کیس میں الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204کے تحت ممنوعہ فنڈنگ ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کا انتخابی نشان بھی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215کے تحت واپس لینے کا قانونی حق رکھتا ہے۔ رواں برس ستمبر سے یہ کیس ڈی لسٹ ہے لیکن اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ کیس کے حتمی فیصلے کے بعد تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لے لیا جا سکتا ہے۔الیکشن کمیشن توہینِ الیکشن کمیشن کیس کا اہم فیصلہ بھی کرنے والا ہے۔ اس کیس میں الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10کے تحت عمران خان‘ فواد چوہدری اور دیگر کے خلاف فوجداری مقدمہ کے تحت تادیبی کارروائی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ عمران خان پر توہین الیکشن کمیشن ثابت ہونے پر انہیں تین سال کی سزا بھی ہو سکتی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 204کے تحت ہائی کورٹ کے مساوی اختیارات حاصل ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد توہینِ الیکشن کمیشن اور ممنوعہ فنڈنگ کیسوں پر کارروائی تیز کر دے۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے اب تک جو شواہد اکٹھے کر چکا ہے‘ انہیں مد نظر رکھا جائے گا اور ان شواہد کے پیش نظر الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204کے تحت اہم فیصلہ کرے گا۔
عام انتخابات کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرواتے ہوئے ہونے والی چھینا جھپٹی کی بات کریں تو کاغذاتِ نامزدگی داخل کرتے ہوئے امیدوار کا ریٹرننگ افسر کے سامنے پیش ہونا ضروری نہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 62کے مطابق امیدوار کا کاغذاتِ نامزدگی کی سکروٹنی کے وقت بھی موجود ہونا ضروری نہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے جون 2002ء میں جو الیکشن آرڈر 2002ء جاری کیا تھا اس کے مطابق امیدوار کا کاغذاتِ نامزدگی داخل کراتے وقت خود موجود ہونا لازمی تھا۔ پرویز مشرف کی طرف سے جاری کردہ الیکشن آرڈر2002ء بدنیتی پر مبنی تھا‘ اس کا مقصد محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو ٹارگٹ کرتے ہوئے ان کی الیکشن کی راہ میں روڑے اٹکانا تھا تاکہ وہ ریٹرننگ افسر کے سامنے پیش نہ ہو سکیں۔ 2007ء میں جب این آر او دیا گیا تھا اُس وقت پرویز مشرف نے یہ شق حذف کردی تھی جس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے اور ان کی جانچ پڑتال کے وقت بذاتِ خود ریٹرننگ افسر کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 62 کے تحت کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے وقت امیدوار کے تجویز کنندہ ایک انتخابی ایجنٹ اور ایک حامی کے علاوہ وہ ایک ووٹر جس نے کاغذاتِ نامزدگی کے خلاف اعتراض درج کروایا ہے‘ ریٹرننگ افسر کے سامنے پیش ہوں گے۔ ریٹرننگ افسر انہیں سیکشن 62کے تحت داخل کرائے گئے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کا مناسب موقع فراہم کرے گا۔ اس سیکشن میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرواتے یا جانچ پڑتال کرواتے وقت امیدوار کا ریٹرننگ افسر کے روبرو موجود ہونا لازمی ہے۔ یہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے جسے ہر امیدوار کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عام انتخابات 2024ء کے لیے ملک بھر میں لگ بھگ 29ہزار کاغذاتِ نامزدگی جمع ہوئے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس سے تحریک انصاف کے امیدواروں سے کاغذاتِ نامزدگی چھیننے کی قیاس آرائیاں بھی بے اثر ہو گئی ہیں۔عام انتخابات کی آمد آمد ہے لیکن اس کے باوجود ملک سے سیاسی آلودگی ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی جس کی وجہ سے عام انتخابات کے انعقاد کے بعد بھی ملک سیاسی استحکام کی جانب گامزن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ عام انتخابات سے پیشتر سیاسی جماعتوں میں مفاہمت ہونا بہت ضروری ہے۔ اس ضمن میں دو اور چھ جنوری 2024ء کو سپریم کورٹ میں جو اہم فیصلے ہونے جا رہے ہیں ان کا ملک کی سیاسی‘ معاشی‘ انتخابی اور آئینی تاریخ پر گہرا اثر پڑے گا۔
الیکشن کمیشن نے آج‘ 28دسمبر کو نگراں وفاقی وزیر فواد حسن فواد کو وزارت سے ہٹانے سے متعلق اہم فیصلہ کرنا ہے۔ اس فیصلے سے الیکشن کمیشن کا ملک کی ایڈمنسٹریشن پر کنٹرول مزید بڑھے گا۔ اُدھر نگران حکومت کو اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل پولیس اور ڈپٹی کمشنر کی ٹرانسفر میں رکاوٹ ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے۔ دوسری طرف پولنگ سٹاف کی تعیناتی اور ٹریننگ کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق فیصلہ برقرار رہتا ہے تو انتخابی نشان بلّے سے محرومی کے بعد تحریک انصاف خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے بھی محروم ہو جائے گی۔ قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستیں 60اور اقلیتی نشستیں 18ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں 68 مخصوص نشستیں‘ بلوچستان میں 14 مخصوص نشستیں‘ خیبر پختونخوا میں 30 مخصوص نشستیں اور سندھ میں 34 مخصوص نشستیں ہیں جن کیلئے تحریک انصاف اپنے امیدوار نامزد نہیں کر سکے گی۔ اسی طرح تحریک انصاف سینیٹ کی 52 نشستوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی جن پر مارچ کے پہلے ہفتے میں الیکشن ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وہ امیدوار جو آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن جیتیں گے وہ سینیٹ میں کسی بھی امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں لیکن پی ٹی آئی سینیٹ میں اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کر سکے گی۔پی ٹی آئی اگر الیکشن کمیشن کی رجسٹریشن اور پارٹی کا انتخابی نشان حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 204‘ 209 اور 215 کے مطابق اپنی رجسٹریشن سے محرومی کے بعد کسی دوسری جماعت سے الحاق یا اتحاد بھی نہیں کر سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں