"KDC" (space) message & send to 7575

قوم کی نگاہیں سپریم کورٹ پر

دو روز میں سپریم کورٹ کے دو جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں اور صدرِ مملکت نے دونوں افراد کے استعفے قبول بھی کر لیے ہیں۔دراصل جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں 10 شکایات زیر التوا تھیں جن میں اُن پر مس کنڈکٹ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر نقوی کو دو شوکاز نوٹس جاری کر چکی تھی جبکہ مظاہر نقوی نے کونسل کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا تھالیکن سپریم کورٹ نے نو جنوری کو جسٹس مظاہر نقوی کی کونسل کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی تھی۔جسٹس مظاہر نقوی کے استعفے کے ایک روز بعد منعقد ہونے والے سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں بھی جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات پر کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیاتھا۔ کونسل کے اجلاس میں چیئرمین کونسل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ 'یہ نہیں ہو سکتا کوئی جج پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر کے استعفیٰ دے جائے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں‘ پورا پاکستان ہماری طرف دیکھ رہا ہے‘ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ شکایات درست تھیں یا نہیں‘ کونسل نے اب کوئی نہ کوئی فائنڈنگ تو دینی ہے‘۔تاہم سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کا اجلاس انتخابات سے متعلق اہم معاملے کی وجہ سے 15فروری تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ استعفے کے بعد جسٹس مظاہر نقوی پنشن اور دیگر مراعات کے حقدار ہوسکتے ہیں‘ اگر سپریم جوڈیشل کونسل ان کو مس کنڈکٹ پر ہٹاتی تو انہیں پنشن اور دیگر مراعات سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے لیکن چونکہ ابھی اس کیس پر کارروائی جاری ہے اور اگر جسٹس مظاہر نقوی پر مس کنڈکٹ ثابت ہو جاتا ہے تو اُس صورت میں بھی وہ پنشن اور دیگر مراعات سے محروم ہو سکتے ہیں۔اس کارروائی کا تمام عدالتی اداروں پر گہرا اثر پڑے گا اور عدالتی نظام کے احتساب کے حوالے سے عوام کی جو شکایات ہیں‘ اس کا بھی کسی حد تک ازالہ ہو گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا استعفیٰ اس لیے حیرت کا باعث تھا کیونکہ وہ رواں سال اکتوبر میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر براجمان ہونے والے تھے۔اُنہوں نے اپنے استعفے میں اس کی کوئی وجہ بیان نہیں کی بلکہ لکھا ہے کہ 'میں نے لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں فرائض انجام دیے۔ میں مزید کام جاری نہیں رکھنا چاہتا۔ میں سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے مستعفی ہو رہا ہوں‘۔جسٹس اعجاز الاحسن سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن بھی تھے تاہم انہوں نے جمعرات کے روز سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں حصہ نہیں لیا تھا کیونکہ انہیں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ہونی والی کونسل کی کارروائی کے طریقہ کار پر اعتراض تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن کے بطور جج کندکٹ پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ شنید ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کے خلاف مبینہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوانے کی حکمت عملی تیار ہو چکی تھی اور اس مقصد کیلئے مختلف اداروں سے ضروری موادبھی حاصل کر لیا گیا تھا۔اس ریفرنس میں گواہی کیلئے اس وقت کے چیئرمین سی ڈی اے بھی تیار تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے لاہور کے ایک متنازع سی سی پی او غلام احمد ڈوگر کے ٹرانسفر کیس میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو بلاجواز سپریم کورٹ میں طلب کرکے اُن کی سرزنش کی تھی اور جب چیف الیکشن کمشنر نے آئین کے آرٹیکل 232 اور 220 کی روشنی میں اپنے آئینی اختیارات کا حوالہ دیا تو اس بحث کا رُخ موڑ دیا گیا۔
تحریک انصاف کی حکومت نے صدرِ مملکت کی وساطت سے سپریم جوڈیشل کونسل میں موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھجوایا تھا جسے اُس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے خارج کر دیا تھا۔پی ٹی آئی دور کے وفاقی وزیر قانون اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد خصوصی طور پر وفاقی حکومت کی طرف سے یہ کیس لڑ رہے تھے اور ان کی معاونت ایف بی آر کی ایک متحرک خاتون کمشنر کر رہی تھیں۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے دانش مندانہ فیصلے سے سپریم کورٹ کو تقسیم سے بچانے اورعدالتی رِٹ کو برقرار رکھنے کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اُنہی دنوں جب یہ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت تھا‘ میں نے انہی صفحات پر لکھا تھا صدرِ مملکت نے یہ ریفرنس بھجواتے ہوئے تمام قانونی پہلوؤں کو مد نظر نہیں رکھا تھا جب کہ ان کی لیگل ٹیم میں سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور بعد ازاں سابق جج سپریم کورٹ زاہد حسین بخاری بھی شامل تھے جو اس ریفرنس میں ان کی معاونت کر رہے تھے۔اس ریفرنس سے یہی تاثر اُبھرا تھا کہ حکومت نے یہ ریفرنس محض جسٹس فائز عیسیٰ پر دباؤ ڈالنے کے لیے بنوایا تھا۔ عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری نے بھی اس حوالے سے کافی اہم کردار ادا کیا تھاحالانکہ اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن نے اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ میرا مؤقف تب یہ تھا کہ اگر سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا تو صدرِ مملکت کو مستعفی بھی ہونا پڑ سکتا ہے۔ شنید ہے کہ ڈاکٹر فروغ نسیم نے جو ریکارڈ شہزاد اکبر اور ایف بی آر کی خاتون کمشنر سے حاصل کیا تھا‘ وہ اب بھی ان کے پاس موجود ہے اور وکلا کا ایک مخصوص گروپ ان سے یہ ریکارڈ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ڈاکٹر فروغ نسیم میرے انتہائی قریبی دوست ہیں‘ میں اُنہیں بہت اچھے سے جانتا ہوں‘ وہ یہ قیمتی ریکارڈ کسی کے حوالے نہیں کریں گے۔ ڈاکٹر فروغ نسیم اور منصور علی خان نے پرویز مشرف کا کیس انتہائی مشکل حالات میں لڑا تھا اور پشاور ہائی کورٹ کے مرحوم جج وقار سیٹھ کے فیصلے پربھرپور ردِعمل کا اظہار کیا تھا۔اب جبکہ پرویز مشرف کی سزا کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ اب ان کے وکلا کی کیا حکمت عملی ہوگی۔چیف جسٹس آف پاکستان عدالتی ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ 'یہ نہیں ہو سکتا کوئی جج پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر کے استعفیٰ دے جائے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں‘۔یہ پہلا موقع نہیں کہ جب کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل میں کارروائی شروع ہوئی اور وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گیا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں جسٹس شوکت علی کے خلاف بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہوا تھا ۔ان کے خلاف شکایت یہ تھی کہ وہ خاندان کی کسی کمپنی کے ڈائریکٹر تھے اور جج بننے کے بعد اس عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔جسٹس شوکت علی سپریم جوڈیشل کونسل میں اس ریفرنس پر کارروائی سے پہلے ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔
دوسری طرف اگر عام انتخابات کی بات کریں تو آج یعنی 13جنوری کو ریٹرننگ افسران کی طرف امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کیے جائیں گے۔ عام انتخابات کی تیاری زور و شور سے جاری ہے لیکن گزشتہ روز سینیٹ میں عام انتخابات کے التوا کے لیے ایک اور قرار جمع کروائی گئی ہے۔ آٹھ روز میں سینیٹ میں انتخابات کے التوا کیلئے دو قرار دادیں جمع ہو چکی ہیں۔لیکن چونکہ سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو چکا ہے اور یہ اجلاس صدرِ مملکت کی منظوری سے ہی طلب کیا جا سکتا ہے لہٰذا یہ قرارداد داخلِ دفتر ہی تصور کی جائے گی۔اُدھر الیکشن کمیشن کی بلے کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل پر سماعت جاری ہے اور تحریک انصاف کے حامیوں کی نظریں سپریم کورٹ کے فیصلے پر ٹِکی ہوئی ہیں۔ بلے کے انتخابی نشان کی واپسی سے تحریک انصاف کے ووٹ بینک پر کافی اثر پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں