کِتنی بڑی نعمت ہے اور کِس قدر شُکر کی بات ہے کہ قدرت نے ہر رات کے مُقدّر میں خاتمہ اور اُس کے بعد سویرا لِکھا ہے۔ قدرت کے در سے کوئی نامُراد نہیں لوٹتا۔ بخیلی و رزّاقی کی بحث رہنے دیجیے۔ پیاسے کو سمندر سے اور کچھ نہ سہی، شبنم تو مِل ہی جاتی ہے! اچھی خاصی خرابی کے بعد تھوڑی بہت اچھائی کے بھی دَرشن ہو ہی جاتے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی بھی اِس کُلیے سے مستثنا نہیں۔ جس طرح آمریت کی ہر رات جمہوریت کے اُجالے پر منتج ہوتی ہے بالکل اُسی طرح وہ رحیم و کریم ذات جمہور کو ہر جمہوری دور کی اِبتلا سے بھی بچاتی ہے! اللہ کا ایک خاص کرم یہ بھی ہے کہ ہر منتخب حکومت کی ایک میعاد مقرر ہے! دِل کو یقین رہتا ہے کہ سِتم کی رات ڈھلے گی وہ دِن بھی آئے گا! جمہوریت کے نام پر مچائے جانے والے اندھیر کے بعد کِسی نہ کِسی طرح پھر کوئی طالع آزما اُبھرتا ہے اور عوام کے مُرجھائے ہوئے دِل کِھل اُٹھتے ہیں! اُمید بھی کیا نعمت ہے۔ جب کبھی ہم آمریت سے بیزار ہو اُٹھتے ہیں، جیسے تیسے جمہوریت نصیب ہو ہی جاتی ہے۔ اور جب جمہوریت کے جھنڈے گاڑنے والے عوام کی اُمیدوں کے سینوں میں اپنی بُری نیت کے نیزے اُتارنے لگتے ہیں تب آمریت کے لیے مانگی جانے والی دُعائیں رنگ لے آتی ہیں! کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ جو مُلک کے سیاہ و سفید پر کامل اختیار رکھتے ہیں اُنہیں کِس قدر قطعیت کے ساتھ معلوم ہے کہ جمہوریت کو کب کب لانا ہے اور کب اُسے پردہ کرانا ہے! جمہوریت اور پاکستانیوں کا تعلق خاصا کھٹّا میٹھا رہا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اِس میں کھٹّے کی مِقدار اِتنی زیادہ ہے کہ میٹھے کو تو لوگ بُھول بھال گئے ہیں! اِس تعلق کو برسوں، بلکہ عشروں قبل مُلکۂ ترنّم نور جہاں نے اپنے ایک گیت میں یوں بیان کیا تھا ؎ نہ مہرباں، نہ اجنبی، نہ دوستی، نہ دُشمنی نہ جانے پھر بھی کیوں ہمیں اُسی کا انتظار ہے! جب گڑبڑ بڑھ جاتی ہے تو کچھ لوگ تحریک چلانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ معاملات دُرست ہو جائیں، سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلنے لگے۔ مگر جب معاملات دُرست ہونے لگتے ہیں تو پھر ایک تحریک چلتی ہے! بیشتر بڑے اداروں میں آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ افراد سال ڈیڑھ سال کوئی نیا سِسٹم متعارف کراتے ہیں۔ یعنی جب بھی لوگ کِسی سِسٹم کے عادی ہو جاتے ہیں تو اُسے بدلنے کا وقت آ جاتا ہے! آئی ٹی والے اِسی طور اپنی نوکری بچاتے ہیں کیونکہ کوئی ایک سِسٹم ڈھنگ سے چلتا رہے تو اُنہیں کون پوچھے گا! اب اِس اُصول کا اطلاق مُلک پر بھی کردیا گیا ہے! پاکستان کو ہم نے اللہ کے نظام کے تحت چلانے کا وعدہ کیا تھا مگر اِس وعدے کو بھول بیٹھے۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اب تک کوئی نظام طے نہیں ہوسکا۔ جمہوریت اور آمریت اِس مُلک کو گدھا سمجھ کر باری باری سواری کرتے ہیں، قربانی کا بکرا سمجھ کر ذبح کرتے ہیں اور باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر کھا پی جاتے ہیں! نظام کو بدلنے کی بڑھک مارنے والے موقع ملتے ہی نظام کا حصہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ عوام کے حقوق کی بات کرنے والے طاقت پاکر فِسطائیت کی بدترین شکل میں سامنے آتے ہیں! جو لوگ جاگیر داری کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی بات کرتے ہیں ذرا سا اختیار ملنے پر وہ خود جاگیر دار بن بیٹھتے ہیں! جو بھی نمک کی کان میں پہنچا، نمک ہوا! آمریت کے سوا آٹھ سالہ دور میں جمہوریت کا راگ الاپتے رہنے والے جب اقتدار میں آئے تو لوگوں کی آنکھوں میں اُمید کی چمک ایک بار پھر پیدا ہوئی۔ یقین سا تھا کہ تمام معاملات دُرست ہو جائیں گے، سارے پَرنالے اپنے اپنے حقیقی مقام پر بہنے لگیں گے۔ مگر اِس بار بھی اُمیدیں بار آور ثابت نہ ہوسکیں۔ اے بسا آرزو کہ خاک شُدہ! پانچ برسوں میں لوگوں نے قدم قدم پر (اب تک کی) آخری آمریت کو یاد کیا ہے! اور کیوں نہ کریں؟ عوام نے جن سے بہتری کی آس لگائی وہ مزید خرابیاں پیدا کرنے پر تُل گئے۔ قوم چاہتی تھی کہ زخموں پر مرہم رکھا جائے، درد کا علاج ہو۔ مگر ہوا کیا؟ جنہیں چارہ گر سَمجھ لیا گیا تھا وہ مَرض کی شِدّت میں اضافے کا باعث بن گئے! کوئی دوا نہ دے سکے، مشورۂ دُعا دیا چارہ گروں نے اور بھی درد کا دِل بڑھادیا! جمہوریت کے نام پر اِتنے اور ایسے تماشے ہوئے کہ عوام کے لیے ڈھنگ سے صبح کو شام کرنا جُوئے شیر کا لانا ٹھہرا! اُنہوں نے ایک بار پھر دیکھا کہ قومی وسائل کو شیرِ مادر سمجھ کر کِس طرح پیا اور ڈکارا جاتا ہے! سیاست دان کہتے ہیں کہ طالع آزما قومی وسائل کھا جاتے ہیں۔ یہ شِکوہ بھی بجا۔ آمریت میں بھی بہتوں کو کما کھانے کا موقع ملتا ہے۔ وسائل پر چند لوگوں یا ایک گروہ کا اختیار ہوتا ہے‘ مگر اُن کے کرتوتوں میں کچھ ترتیب دِکھائی دیتی ہے۔ تھوڑا بہت نظم و ضبط (نظم اُن کا اور ضبط ہمارا!) نظر آتا ہے۔ کچھ نہ کچھ نِشانات تو بچتے ہیں جن کی مدد سے خرابی کی جڑ تک پہنچا جاسکتا ہے۔ جمہوری طالع آزما تو ایسا اندھیر مچاتے ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دیتا۔ جمہوریت کے علم بردار جب مینڈیٹ کے مطابق تمام اختیارات کے ساتھ خوب کھا پی کر، مُدت پوری کرکے چل دیتے ہیں تو اِدارے اور عوام احتساب کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ احتساب تو تب ہو جب کچھ اتا پتا معلوم ہو۔ ؎ نشاں بھی کوئی نہ چھوڑا کہ دِل کو سمجھائیں تِری تلاش میں جائیں تو ہم کہاں جائیں! عوام کو پیٹ بھر سبز باغ دِکھانے والے بہت آرام سے ایسے اُڑن چُھو ہو جاتے ہیں کہ ہاتھ آنے کا نام نہیں لیتے۔ جاتے جاتے بھی وہ جمہوریت سے جی بھر کے کِھلواڑ کرتے ہیں۔ اور پھر یہ کہتے ہوئے رختِ سفر باندھتے ہیں۔ تُو کہاں جائے گی، کچھ اپنا ٹھکانہ کرلے! باری کا نظام بھی کیا خوب تماشا ہے۔ کل تو ہم یہ سمجھ کر خوش تھے کہ چلو، باری طے ہوگئی۔ کچھ مُدّت کے لیے جمہوریت ہوگی اور پھر طالع آزمائی کا دور چلے گا۔ اب شُنید ہے کہ جمہوریت کے دو بڑوں نے باری طے کرلی ہے! بہتر زندگی تو کیا گزارنے دیتی، مفاہمت کی سیاست نے عوام کو ڈھنگ سے سانس لینے کے قابل بھی نہ چھوڑا! اب پھر انتخابات کے نام پر عوام کو قیادت چُننے کی زحمت دی جارہی ہے۔ بد امنی، مہنگائی اور بے یقینی کی چَکّی میں پسنے والے غریب یہ سوچ کر حیران ہیں کہ وہ کِسی کو ووٹ دیں یا نہ دیں، اِس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ نظریات اور منشور کی بنیاد پر منتخب ہونے والے کل کو نظام چلتا رکھنے کے نام پر ایک ہو بیٹھیں تو عوام کو کیا مِلے گا؟ اگر اقتدار میں آنے والوں کو قومی وسائل لوٹنے ہی ہیں تو پھر عوام کو بیچ لاکر مزید دُکھی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بھیڑوں کو اپنے آخری لمحات میں کم از کم یہ اطمینان تو ہونا ہی چاہیے کہ بھیڑیوں کے انتخاب کا گناہ اُن سے سرزد نہیں ہوا۔