کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال نے بہتوں پر قیامت ڈھادی ہے۔ جعلی ڈگری میں کئی سابق ارکان اسمبلی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جاچکا ہے۔ کوئی نا اہل قرار پاکر کونا پکڑ چکا ہے۔ کِسی کو اعتراضات کی سُوئیاں چُبھ رہی ہیں۔ جن کے معاملات زیر التواء ہیں وہ سہمے ہوئے ہیں۔ کِس نے سوچا تھا کہ اب کے اسکروٹنی ایسی ’’کُٹنی‘‘ ثابت ہوگی! نفسیات کے ماہرین نے ایک ایسی کیفیت پر بھی بحث کی ہے کہ بہت سے لوگ زندگی بھر کامیابی کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں مگر نیم دِلانہ انداز سے۔ خوف یہ ہوتا ہے کہ کہیں کامیاب نہ ہو جائیں کیونکہ اُنہیں اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ کامیابی کے حصول کے لیے جو محنت کرنی پڑ رہی ہے اُس سے کہیں زیادہ محنت کامیابی کو برقرار رکھنے کے لیے کرنی پڑے گی! ہم بھی اِس وقت ایک ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ بہار کی دُعائیں مانگ مانگ کر ہم تھک چُکے اور اب بہار آئی ہے تو یہ خوف دامن گیر ہے کہ کہیں خزاں ہمیشہ کے لیے ہاتھ سے نہ جاتی رہے! سیدھی سی بات ہے، خزاں کے ہم عادی ہیں اور وہ ہماری نفسیاتی ساخت کا حصہ ہے! انتخابی عمل اپنے ساتھ کئی پیچیدگیاں لایا ہے۔ یہ پیچیدگیاں اُمیدواروں اور اُن کی جماعتوں کے لیے ہیں۔ عوام کے من کی مُراد تھوڑی بہت تو پوری ہو رہی ہے۔ جو لوگ جھوٹ بول کر، دھوکا دے کر اسمبلیوں تک پہنچے اُن کا کِسی حد تک تو محاسبہ ہوا ہے اور جن کی غلط بیانی ثابت ہوگئی اُنہیں جیل کی ہوا کھانی پڑی ہے۔ کیا یہ سب عوام کی اُمنگوں کے مطابق نہیں؟ کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران ریٹرننگ افسران نے اُمیدواروں سے جو سوالات پوچھے اُن کے عجیب و غریب اور شرم ناک جواب سامنے آئے۔ عوام حیران ہیں کہ جو لوگ اُن کی نمائندگی کے لیے میدان میں اُترے ہیں اُن کی معلومات کِس قدر ناقص ہیں! بے ڈھنگے جواب دے کر اپنے آپ کو تماشا بنانے والوں کے طرف دار کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کو تماشا بنا ڈالا ہے! یہ بھی خوب رہی۔ جو پانچ سال تک قوم کے سیاہ و سفید کے مالک بننا چاہتے ہیں اُن کی قابلیت کو پرکھا بھی نہ جائے؟ پاکستان میں آمریت اور جمہوریت کے درمیان میوزیکل چیئرز کا کھیل ہوتا رہا ہے۔ آپ چاہیں تو اِسے چوہے بلی کا کھیل بھی قرار دے سکتے ہیں۔ اب شاید باری طے کردی گئی ہے۔ یعنی جب ایک فریق تھک جائے تو دوسرا آجائے۔ اور جب وہ تھک جائے تو پہلا والا پھر آجائے۔ چہروں اور انداز کی تبدیلی سے کوئی حقیقی تبدیلی رُونما نہیں ہو رہی۔ مُلک مسلسل ترقی کر رہا ہے مگر افسوس کہ یہ ترقّیٔ معکوس ہے! کئی عشروں سے یہ قوم اِس تماشے کو ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنی دیکھ رہی ہے۔ عوامی سطح پر وقفے وقفے سے نیم دِلانہ احتجاج بھی ہوتا رہا ہے مگر باری والوں کو کچھ احساس نہیں۔ دُعائیں شاید کچھ رنگ لا رہی ہیں، مُرادیں کِسی حد تک پوری ہونے کو ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بالا ہی بالا کچھ طے ہوا ہے جس کے تحت سیاست کے تالاب سے گندی مچھلیوں کو نکالا جارہا ہے۔ کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل سخت بناکر پہلا جال پھینکا گیا ہے۔ جن کی صداقت شعاری اور امانت داری دونوں ہی مشکوک ہیں وہ (ظاہر ہے اپنے) سَر پکڑے بیٹھے ہیں۔ جسٹس (ر) طارق محمود کہتے ہیں کہ انتخابی عمل اِسی طور جاری رہا تو انتخابات ہوچکے۔ اور یہ کہ بنگلہ دیش ماڈل کِسی نہ کِسی پتلی گلی سے پاکستان میں داخل ہو رہا ہے! جنہیں عوام پورے سیاسی خشوع و خضوع سے منتخب کرتے ہیں اُن کا حافظہ بھی کمال کا ہے، ایوان ہائے اقتدار میں پہنچتے ہی لاپتہ ہو جاتا ہے! اُنہیں کچھ یاد نہیں رہتا کہ اِن ایوانوں سے باہر ایک قوم رہتی ہے جس نے چند اُمیدیں پال رکھی ہیں، کچھ آس لگا رکھی ہے۔ اگر کچھ یاد رہتا ہے تو بس اپنی تجوری اور مفادات۔ مفادات کا تحفظ یقینی بناکر اپنی تجوری بھرنے کے بعد وہ بھول جاتے ہیں کہ مینڈیٹ کے تحت ووٹرز کے لیے بھی کچھ کرنا تھا۔ اب بہت کچھ ٹٹولا اور کھنگالا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن چند اختیارات کے ساتھ میدان میں آیا ہے۔ جو لوگ منتخب ہوکر قوم کو بھول بھال جاتے ہیں اور بدعنوان عناصر کا محاسبہ کرنے کے بجائے اُن سے مُک مُکا کرلیتے ہیں اُن کی گردن دبوچنے کا اور کون سا طریقہ ہوسکتا ہے؟ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تو کچھ کر نہیں پاتی اور پارلیمانی کمیٹیاں بھی نُمائشی اقدامات یعنی ’’نشستند و گفتند و برخاستند‘‘ تک محدود رہتی ہیں۔ قومی مفادات اور بہبودِ عامہ کے معاملات صرف بحث کی نذر ہوتے رہتے ہیں اور ارکان کے مُشاہرے اور مراعات میں اِضافے سے متعلق قرارداد روشنی کی رفتار جیسی تیزی سے منظور کرلی جاتی ہے! جب جمہوری فلم کی کہانی کا ہر ’’ٹوئسٹ‘‘ قوم کے خلاف جارہا ہے تو نیا اسکرپٹ لِکھنے کے بارے میں کیوں نہ سوچا جائے؟ جن سیاسی اداکاروں، بلکہ نوٹنکی بازوں نے قوم کا ناطقہ بند اور جینا حرام کردیا ہے اُنہیں گُدّی سے پکڑ کر ایک طرف کیوں نہ ہٹا دیا جائے؟ جو قوم کی خون پسینے کی کمائی کو شیر مادر سمجھ کر پی گئے ہیں اُن کے حلق میں اُنگلی ڈال کر قے کیوں نہ کرائی جائے؟ جب گھی سیدھی اُنگلی سے نکل ہی نہیں پا رہا تو اُنگلی تھوڑی سی ٹیڑھی کیوں نہ کی جائے؟ جہاں سبھی کچھ الُٹا پَلٹا ہے وہاں تھوڑی سی کجی اپنانے میں کیا مضائقہ ہے؟ بنگلہ دیش ماڈل ہو یا ترک ماڈل، جو قوم کی ضرورت ہے وہ تو متعارف ہونا ہی چاہیے۔ ہم زمانے بھر کے فیشن اور نظریات اپناتے رہتے ہیں تو کِسی کامیاب سیاسی ماڈل کو انٹری دینے میں کیا ہرج ہے؟ بنگلہ دیش میں جب بہت کچھ بگڑ گیا تھا تو عدلیہ نے ٹیکنوکریٹس کے ساتھ مل کر حکمرانی (یا معاملات کی دُرستی) کا متبادل انداز متعارف کرایا تھا۔ سپریم کورٹ نے سیاسی عمل کو بائی پاس کرکے ایک عبوری حکومت قائم کی جس نے گند صاف کرنے کی اپنی سی کوشش کی اور وہ کوشش بہت حد تک کامیاب رہی۔ اِس اقدام کے نتائج پر بحث ہوسکتی ہے مگر کیا پاکستان میں بھی معاملات دُرست کرنے کے لیے مُہم جوئی کا وقت نہیں آگیا؟ ممکن ہے کہ بنگلہ دیش ماڈل جیسی مُہم جوئی پسندیدہ نہ ٹھہرے مگر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اِس کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں کچھ سیکھیں اور اصلاح پر مائل ہوں۔ جو لوگ منتخب ہوکر صرف اپنے مفادات کے تحفظ کو جمہوریت کے تسلسل کا نام دینے پر تُلے ہیں اُن کے لیے کوئی تو تازیانہ ہونا چاہیے۔ اگر کوئی متبادل سیٹ اپ تیار ہو رہا ہے اور کِسی پتلی گلی سے آ رہا ہے تو کیا قباحت ہے؟ کم از کم چور دروازے سے تو نہیں آرہا! پتلی گلی صرف چوروں کے نِکل بھاگنے کے لیے تو نہیں ہونی چاہیے۔ کبھی کبھی کِسی پتلی گلی سے کوئی کام کی چیز بھی ہمارے آنگنوں تک آ نکلے تو اِس میں ہرج ہی کیا ہے؟