انداز ایسا کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جائیں۔ بنیادی شعبہ چونکہ علم الکلام ہے اِس لیے طرزِ کلام بھی کچھ ایسی ہے کہ اُس کے پُراثر ہونے میں کسی کو کچھ کلام نہیں۔ڈاکٹر طاہرالقادری کا اندازِ خطابت کچھ ایسا ہے کہ سُننے والے ہی نہیں خود الفاظ بھی پناہ مانگتے اور (اپنے) کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں! وہ بھی الفاظ کو کب چھوڑتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے حال ہی میں منائے جانے والے یومِ شہداء پر ایسا خطاب کیا کہ خطابت کے فن سے محفوظ ہونے کا ذوق و شوق رکھنے والوں کو شہید کر ڈالا۔ خطاب کے دوران اُن کا جوش و جذبہ (حسبِ معمول) ایسا تھا کہ سُننے اور دیکھنے والوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبالیں۔ جلال ایسا تھا کہ نظر ٹھہرتی نہ تھی۔ رگ و پے میں ایسی توانائی کہ حاضرین اور ناظرین دم بخود ہوکر سوچتے ہی رہ گئے کہ اُن کو دیکھیں یا اُن کی بات سُنیں!
خدا جانے وہ کون سی جادو نگری ہے جہاں پورے معاشرے کو پلٹنے، بدلنے اور سُدھارنے کی صلاحیت رکھنے والا ریڈی میڈی انقلاب ملتا ہے کہ بس لائیے اور نافذ یا برپا کردیجیے۔ کوئی بتائے کہ یہ کیسا انقلاب ہے کہ جس کی جڑ میں صرف خرابی ہے، تباہی ہے، بربادی ہے۔ یہ سارا ہنگامہ کیوں اور کس کے کہنے پر برپا کیا گیا ہے؟ کون ہے جو معاملات کو پُتلی تماشے کی طرح چلا رہا ہے؟ ڈاکٹر صاحب ہی کچھ فرمائیں کہ اُن کے تانے ہوئے پردۂ زنگاری میں کون سا معشوق چُھپا بیٹھا ہے! اہلِ پاکستان تو حیران ہیں۔ ؎
سوچیے تو خیال کے اطراف
دائرے گھومنے سے لگتے ہیں!
دوسری طرف خان صاحب ہیں جو ماننے کو تیار نہیں۔ اُن کے احتجاج کی بنیاد کیا ہے، یہ بھی کسی پر واضح نہیں ہوتا۔ حیرت اِس پر ہے کہ ایک صوبے کی حکومت اُن کے پاس ہے مگر وہ اُسے ڈھنگ سے چلانے کے بجائے وفاق کے فراق میں ہیں۔اب معاملہ یہ ہے کہ عمران کسی بھی طور ماننے کے لیے تیار نہیں۔ چار دن قبل جب وزیر اعظم نے مذاکرات کا عندیہ دیا تو عمران خان نے ملاقات یا رابطے سے انکار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ اب تو 14 اگست کے بعد ہی بات ہوگی۔ بات یہ ہے کہ عمران خان نے لانگ مارچ کے لیے لوگوں کو اس حد تک motivated کردیا ہے کہ اب اگر وہ پیچھے ہٹیں گے تو یہ اقدام پارٹی کے لیے پورس کا ہاتھی ثابت ہوگا! اِس نکتے پر غور کیا جاسکتا ہے کہ کیا وزیر اعظم نے جان بوجھ کر اِتنا وقت گزرنے دیا کہ عمران خان بلائے جانے پر بھی مذاکرات کی میز تک آنے کی پوزیشن میں نہ رہیں! مگر ساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عمران خان نے ایسی hype کیوں پروان چڑھائی جو خود اُن کے گلے کی ہَڈّی بن جائے۔ ایسی کون سی مجبوری تھی کہ وہ قدرے کمزور بنیاد پر حکومت مخالف تحریک کی عمارت قائم کرنے پر تُل گئے؟ کسی کے حکم کی تعمیل میں اُنہیں اِس حد تک کیوں جانا پڑا کہ اب واپسی کا راستہ بچا ہی نہیں!
ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات اُبھر رہے ہیں مگر کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ اہلِ وطن کی صدائیں دیواروں سے سَر ٹکراکر پلٹ آتی ہیں۔ کیا یہ سب کچھ ضمیر کی آواز پر کیا جارہا ہے؟ اور ہاں تو یہ کیسا ضمیر ہے جو صرف خرابی اور فساد کی کال دیتا ہے؟ کینیڈا کی انتہائی غیر آلودہ فضا میں ایسی آلودہ سوچ کیونکر پروان چڑھ سکتی ہے؟
12 اگست کی شب وزیر اعظم نواز شریف کے خطاب سے یاروں نے کیا کیا توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ عام خیال اور تاثر یہ تھا کہ وہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری سے مذاکرات کی بات کریں گے۔ مگر میاں صاحب نے وہی کہا جو عقل کا تقاضا تھا۔ انہوں نے اپنے تیسرے دورِ اقتدار کے 14 ماہ کی کار گزاری گنواتے ہوئے قوم سے سوال کیا کہ یہ ساری ہنگامہ آرائی کیوں ہے؟ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اِس فساد کی کوئی ایک وجہ تو بتائی جائے۔
مرزا تنقید بیگ کو وزیر اعظم کی تقریر بہت پسند آئی۔ تقریر کے ختم ہوتے ہی ہمارے گھر آ دھمکے اور فرمایا۔ ''وزیر اعظم کی حیثیت سے اُنہیں جو سوچ اپنانی چاہیے تھی وہی سوچ اُنہوں نے اپنائی۔‘‘
ہم نے عرض کیا کہ عمران خان اور طاہرالقادری سے بات کرنے میں ہرج کیا ہے؟ کچھ دن پہلے بھی تو اُنہوں نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے قوم سے باضابطہ خطاب میں بھی مذاکرات کا عندیہ دینے میں تکلف کیوں؟ مرزا نے جواب دیا۔ ''اگر وہ لانگ مارچ پر نکلنے والے ہر سیاست دان سے بات کرنے بیٹھ گئے تو لانگ مارچز کی لائن لگ جائے گی۔ اگر میاں صاحب عمران خان یا طاہرالقادری کو منانے کی کوشش کرتے تو رُوٹھنے والوں کا مجمع لگ جاتا۔‘‘
ہم معترض ہوئے کہ جمہوریت کو بچانے کی خاطر تھوڑی سی لچک دکھانے میں ہرج ہی کیا ہے۔ مرزا نے جھٹ جواب دیا۔ ''جب بھی جمہوریت بحال ہوتی ہے، کچھ لوگ ہنگامہ و فساد برپا کرنے کے لیے اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ گھر سے نکل آتے ہیں۔ یہ لوگ جمہوریت کے لیے خطرہ بن کر اُبھرتے ہیں اور پھر جمہوریت کو ٹھیس نہ پہنچانے کی قیمت وصول کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ میاں صاحب کا موقف درست ہے کہ اگر جمہوری حکومت کو ہاتھ پاؤں باندھ کر کام کرنے سے روک دیا جائے تو پھر ایسی جمہوری حکومت کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔‘‘
ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ احتجاج تو جمہوری حق ہے۔ مرزا کا استدلال تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری جب جمہوریت اور انتخابی نظام پر یقین ہی نہیں رکھتے تو اُنہیں احتجاج کا حق بھی کیوں دیا جائے؟ اور جب وہ پاکستان میں رہتے ہی نہیں تو اُن کا کسی بھی احتجاجی تحریک کی قیادت کا حق کیوں تسلیم کیا جائے؟ مرزا کی یہ بات سُن کر ہم اُسی طرح خاموش ہوگئے جس طرح قوم عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا احتجاجی تماشا دیکھ کر دم بخود ہے۔
آج ملک کے قیام کو 67 سال مکمل ہوگئے۔ قوم آزادی کا جشن منا رہی ہے۔ ایسے میں احتجاج کی فضاء پیدا کرنا کہاں کی حُب الوطنی ہے، یہ تو وہی لوگ بتا سکتے ہیں جو یہ فضاء پیدا کر رہے ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کو پُرامن رہ کر دکھانا ہے اور حکومت کو تصادم سے بچ کر دکھانا ہے۔ احتجاج روکنے کے لیے طاقت کے استعمال میں بھی توازن اور اعتدال درکار ہے۔ جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں منتخب حکومتوں کو گھر بھیجنا کوئی انوکھی بات نہیں۔ مگر اِس کی بنیاد تو ہونی چاہیے۔ آلۂ کار بننے والوں کو بھی تو کچھ سوچنا چاہیے۔ کسی بھی منتخب حکومت کے خلاف ہنگامہ برپا کرنے میں کوئی قباحت نہیں مگر اِس کی بھی کوئی بنیاد تو ہو۔