اب تو ہم، آپ ... سبھی کہانیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہم بھی کہانیاں سُنا کرتے تھے اور داستان گوئی سے لطف کشید کیا کرتے تھے۔ تب کی بات ہے کہ ہم نے اُس عجیب دیو کی کہانی سُنی جو فراغت پاتے ہی تباہی کا بازار گرم کردیتا تھا، قیامت ڈھانے پر تُل جاتا تھا۔ اُس کے شَر سے بچنے کی ایک ہی صورت تھی ... اُسے زیادہ سے زیادہ یعنی ہر وقت مصروف رکھا جائے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے نے پوری قوم کو کہانی والا دیو سمجھ رکھا ہے اِس لیے ہر وقت کسی نہ کسی مسئلے سے دوچار رکھتا ہے، کہیں نہ کہیں اُلجھائے رکھنے پر تُلا رہتا ہے۔ یعنی یہ خوف دامن گیر ہے کہ قوم فارغ بیٹھے گی تو قیامت ڈھانے پر تُل جائے گی، سب کچھ تہس نہس کر ڈالے گی۔ اور کبھی کبھی ایسا ہوا بھی ہے۔ ذرا سی فُرصت ملتے ہی لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، کچھ کے کچھ دکھائی دینے لگتے ہیں۔ عُرفِ عام میں اِسے پیٹ بھرے کی مَستی کہتے ہیں!
میڈیا کے جُغادری کہتے ہیں کہ اشرافیہ یعنی حُکمراں طبقے نے قوم کو جکڑ رکھا ہے، اُس کے گرد شکنجہ کَسا ہوا ہے۔ ہمارا خیال اِس کے برعکس ہے۔ جیسی تیسی عقل کو بروئے کار لاکر بہت غور و فکر کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قوم اپنے مزاج کے ہاتھوں اِس حال کو پہنچی ہے۔ حُکمراں طبقہ تو بے چارا معصوم و مظلوم ہے۔ وہ اِس خوف سے کانپتا رہتا ہے کہ فراغت سے ہمکنار ہوتے ہی یہ قوم کہیں اُس کا تیاپانچا نہ کردے! اگر ایسا ہوا تو تباہی کا بازار گرم ہوگا۔ یعنی یہ کہ قوم کا فارغ بیٹھ رہنا بہت سوں کو فارغ کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسے میں بہتر اور قرین عقل یہی ہے کہ قوم کو کسی نہ کسی ٹرک کی بَتّی کے پیچھے لگائے رکھو۔ ٹرک چلتا رہے گا، قوم مصروف رہے گی۔ اِس دوڑ کو قوم کا سفر بھی کہا جائے تو کچھ ہرج نہیں، ورنہ یہ suffer تو ہے ہی!
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں ناکامی نے حکمرانوں کی نا اہلی ثابت کی ہے۔ ذہن پر ذرا سا زور ڈالیے تو یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ قوم کو بنیادی سہولتوں کے حصول میں اُلجھاکر اُن کے لیے دائمی اور سدابہار قسم کی مصروف کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لگے رہو مُنّا بھائی! بس یُوں سمجھ لیجیے کہ ع
لہو ''سرد‘‘ رکھنے کا ہے اِک بہانہ
مرزا تنقید بیگ کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو حُکمراں طبقے کی سازشوں کو غچہ دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ چاہتے ہیں کہ قوم کو سوچنے کی فُرصت اور مہلت نہ ملے، وہ غور و فکر کی طرف جا ہی نہ سکے۔ مگر مرزا کا دَم دیکھیے کہ وہ بہت سی اُلجھنوں کے باوجود اب تک سوچ بچار کے لیے وقت نکال ہی لیتے ہیں! مگر خیر، مرزا کی ''مشق فکر‘‘ سے ملک و قوم کے سیاہ و سفید کے مالک محفوظ رہتے ہیں اور ع
برق گِرتی ہے تو بے چار مسلمانوں پر
کے مِصداق مرزا کا سوچا ہوا ہمی کو بھگتنا پڑتا ہے! اگر کبھی مرزا سے شکایت کیجیے کہ اُن کے ''افکارِ عالیہ‘‘ سُن سُن کر ہمارے کان اور دماغ دونوں انتہائی قابل رحم حالت کو پہنچ چکے ہیں تو فرماتے ہیں کہ دوستوں کا آخر کوئی تو مصرف ہو! یہ سُن کر کبھی کبھی ہم جل بُھن کر کباب ہوجاتے ہیں مگر پھر یہ سوچ کر دِل کو سُکون ملتا ہے کہ ہمارا بھی کچھ تو مصرف ہے، دُنیا میں آنا بے کار نہیں گیا!
مرزا کی خوبی یہ ہے کہ بہت کچھ سوچتے ہیں اور اِس سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جو کچھ سوچتے ہیں اُس کی کوالٹی کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے! گویا خالص پاکستانی واقع ہوئے ہیں! نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ وہ سوچنے سے تھکتے ہیں نہ باز آتے ہیں۔ مرزا کے ذہن میں پیدا ہونے والے بے ہنگم ارتعاش یعنی خیالات کو ہضم کرتے رہنے کی مشق نے ہمیں سُلوک کی کئی منزلوں سے گزار دیا ہے! کبھی کبھی ہم اپنے آپ کو بہت ''پہنچا ہوا‘‘ سمجھتے ہیں کیونکہ مرزا نے ہمارے حواس کو تباہی کے دہانے تک تو پہنچا ہی دیا ہے! اب ہم میں اِتنی ''روحانی بالیدگی‘‘ پیدا ہوچکی ہے کہ لفافہ دیکھتے ہی خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ مرزا کو ایک نظر دیکھتے ہی ہم اندازہ لگا لیتے ہیں کہ ہمارے دِل و دِماغ کو تازگی نصیب ہوگی یا اُن کی واٹ لگنے والی ہے! لفافہ دیکھ کر خط کا مضموں بھانپ لینے کی صلاحیت نے ہمیں کئی بار مرزا کے شر سے محفوظ رکھا ہے یعنی اُنہیں دُور ہی سے دیکھ کر ہم پتلی گلی سے نکل لیے ہیں اور پھر دیر تک خود کو شاباش دی ہے!
مرزا کا استدلال ہے کہ قوم کی صلاحیتوں کو دبوچ کر رکھنے کے لیے بہت سے مسائل صرف پیدا نہیں کئے گئے بلکہ برقرار رکھنے پر بھی خاصی محنت کی گئی ہے۔ علامہ اقبال نے اُمّت کے روایات اور خرافات میں کھو جانے کا بہت رونا رویا ہے۔ شُکر ہے کہ سُخن گوئی کے ابتدائی دور میں داغؔ دہلوی کے رنگِ سُخن سے متاثر ہوکر اُنہوں نے چند ایک شوخ غزلیں بھی کہہ ڈالیں ورنہ ہم تو اُن کے کلام میں جا بجا برپا ہونے والے اُمتِ بیضہ کے ماتم کی نذر ہوجاتے! حُکمرانوں نے علامہ سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا ہے۔ جامع منصوبہ بندی کے ذریعے اِس قوم کی حقیقت کو بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی سہولتوں کے حُصول کی خرافات میں گم کردیا گیا ہے۔ ہر طرف سے زور لگایا جارہا ہے، بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ قوم کو ذرا بھی فراغت میسر نہ ہو۔ حکمرانوں کے اِس خوف کا گراف نیچے ہی نہیں آتا کہ قوم کہیں بُنیادی مسائل کو پچھاڑ کر فارغ ہوگئی تو افسانوی دیو کی طرح چڑھ دوڑے گی، سب کچھ روند ڈالے گی، تہس نہس کردے گی!
جو قوم اپنی مظلومیت اور محرومیوں کا رونا روتی ہے وہ کبھی اپنی ''اداؤں‘‘ پر بھی تو غور کرے! جو لوگ قوم کے نفع و نقصان کے بارے میں سوچنے کا خود ساختہ فریضہ انجام دے رہے ہیں اُن پر تو خود اِس قوم نے امکانات و خدشات کا عذاب مَسلّط کر رکھا ہے! اِس قوم نے اپنے بھرپور جوش و جذبے سے اپنے سر پر آسمان خود گرایا ہے۔ قوم نے اپنے لیے دم بہ دم ع
لو، آپ اپنے دام میں صَیّاد آگیا
والی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔جب کرنے کو کچھ نہ ہو تو جوش و جذبہ ہر حد سے گزر جاتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، جوش و جذبہ جب بروئے کار لایا ہی نہیں جائے گا تو اُس کا حجم تو بڑھتا ہی جائے گا۔ یہ کیفیت اِتنی پُختہ اور ایسی توانا ہوچکی ہے کہ اب ہم سرسری جائزہ لینے پر بھی انتہائی خطرناک دکھائی دیتے ہیں۔ حُکمراں طبقہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر اُس کی تان اِس خوف پر آکر ٹوٹتی ہے کہ اِس قوم کے جوش و جذبے کا کیا کرے! جنہیں مُلک چلانا ہے اُن کا بیشتر وقت تو قوم کے ''ولولے‘‘ کو ''کیپ‘‘ کرنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہوئے ضائع ہوجاتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اِس مُلک کے اربابِِ بست و کشاد قوم کی ''بھلائی‘‘ کا سوچنے کی فُرصت کہاں سے پائیں گے؟ قوم کو بھی چاہیے کہ جوش و جذبے کے معاملے میں ہاتھ ذرا ہلکا رکھے۔ یعنی اپنی طرزِ عمل سے ایسی خطرناک دکھائی نہ دے کہ اربابِ اختیار دیکھیں تو اُنہیں اپنے اختیارات خطرے میں دکھائی دیں!