سیانے (جو بیسویں صدی میں دانشور قرار پائے تھے اور اب اکیسویں صدی میں ''تجزیہ کار‘‘ کہلاتے ہیں) فرماتے ہیں کہ کوئی بھی معاشرہ جن چند باتوں سے پہچانا جاتا ہے اُن میں کھانے پینے کی عادات نمایاں ہیں۔ ویسے تو ہم سیانوں یا تجزیہ کاروں کی باتوں پر زیادہ یقین نہیں رکھتے مگر وہ بعض باتیں ایسی اظہر من الشّمس ٹائپ کی کر جاتے ہیں کہ نہ چاہتے بھی قبول اور نہ مانتے ہوئے بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ کھانے پینے کے معاملے میں بھی سیانوں نے جو کچھ کہا ہے وہ ایسا ہے کہ مانیے تو مصیبت اور نہ مانیے تو زیادہ مصیبت!
کچھ لوگ اپنی تحریروں میں جب پاکستان کے ماضی کی بات کرتے ہیں تو جذبات کی رَو میں بہتے ہوئے چند مضحکہ خیز دعوے کر جاتے ہیں۔ سینیارٹی کا پاس رکھتے ہوئے اُن کی رائے سے اتفاق کرنا ہی پڑتا ہے، جیسے اطالوی ہیئت دان گیلیلو گیلیلی کو عدالت میں کلیسا کے عمائدین کے رُو برُو (کچھ تو اُن کی بزرگی کے خیال سے اور کچھ اپنی جاں بخشی کی خاطر) اپنے اِس بیان سے رجوع کرنا پڑا تھا کہ زمین سُورج کے گِرد گھومتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس وقت گیلیلیو عدالت میں یہ بیان قلم بند کرا رہا تھا تب بھی زمین سُورج کے گِرد ہی گھوم رہی تھی! ہمارے حِصے میں آنے والے بعض نابغے تو ایسے ہیں کہ اُن کے سامنے خود کو گیلیلیو سمجھتے ہوئے سُورج کو زمین کے گِرد گھمانا ہی پڑتا ہے!
بات ہو رہی ہے سیانوں کے مضحکہ خیز دعووں کی۔ جنہوں نے اپنی بھرپور جوانی میں پاکستان کو منصۂ شہود پر نمودار ہوتے دیکھا وہ اِس مملکت خداداد کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ نشیب و فراز کے جن مراحل سے پاکستانی معاشرہ گزرا ہے اُنہیں اِن سے زیادہ کون جانتا ہوگا؟ یہ ''نابغے‘‘ جب پاکستانی معاشرے کی شناخت کے حوالے سے مختلف دعوے کرتے ہیں تو ہماری ہنسی چُھوٹ جاتی ہے۔ کوئی علم و حکمت کا حوالہ دیتا ہے تو کوئی ہُنر مندی اور مستعد افرادی قوت کا راگ الاپتا ہے۔ ہوسکتا ہے پاکستان زمین کے جس حصے میں واقع ہے وہ کبھی علم و دانش کے بُرج سے بھی گزرا ہو مگر ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے صرف عاداتِ خور و نوش کو نمایاں ترین قومی شناخت کے رُوپ میں دیکھا اور جھیلا ہے!
اُردو شاعری پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر شاعر کا ایک نہ ایک محبوب تو لازم ہے اور یہ بھی لازم ہے کہ اُس کا مُنہ بیشتر وقت پُھولا رہے۔ شاعری اور شاعروں کے محبوبوں کا تو ہمیں کچھ زیادہ پتا نہیں مگر ہاں، معاشرے پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بات بات پر ناراض ہونے کا ٹھیکہ یقیناً معدے نے لے رکھا ہے! اور معدے کو منانے کا تو پوری دُنیا میں ایک ہی طریقہ ہے۔ ؎
رُوٹھے ہوئے معدے کو منانا ہی پڑے گا
دُنیا میں ہم آئے ہیں تو ''کھانا‘‘ ہی پڑے گا!
ایک زمانے سے ہم نے کھانے پینے کو زندگی سمجھ رکھا ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جس میں بہت سے لوگ بعض عادات کو یُوں اپنائے ہوئے ہیں گویا ترک کریں گے تو زندہ رہنے کے حق سے محروم کردیئے جائیں گے! کھانے پینے کے شغل کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اِس شغل کے آگے زمانے بھر کے مشاغل ہیچ ہیں۔
مرزا تنقید بیگ بھی اصلی تے سَچّا پاکستانی ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے کھانے پینے کے غیر معمولی شوقین واقع ہوئے ہیں۔ اِس معاملے میں وہ از خود نوٹس کے تحت کارروائی ڈالنے کے زیادہ قائل ہیں یعنی کوئی رسمی طور پر مدعو نہ بھی کرے تو اِسے اُس کی یادداشت کی کمزوری پر محمول کرتے ہوئے شریکِ طعام ہو جاتے ہیں! رُوٹھے ہوئے معدے کو منانے کا یہ عمل اگر فریقِ ثانی کو ناراض کرتا ہے تو کرتا رہے۔ ہم نے جب بھی مرزا کو ٹوکا ہے تو وہ ہماری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے یُوں آگے بڑھ گئے ہیں جیسے ہمارے سیاست دان تڑپتی سِسکتی جمہوریت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ایوان ہائے اقتدار کی طرف بڑھ جاتے ہیں!
ہم نے مرزا کو کھانے پینے کے معاملے میں ایسا آزاد خیال پایا ہے کہ مغرب کی آزاد خیالی اُن کے پاؤں کی جُوتی معلوم ہوتی ہے! وہ کھانے پینے کی کوئی چیز ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بلکہ پہلی فرصت میں ہاتھ آگے بڑھاکر اُس کی راہ اور منزل بدل دیتے ہیں! گویا ع
جو آئے آئے کہ ہم مُنہ کُھلا ہی رکھتے ہیں!
میر تقی میرؔ کا یہ مطلع تو آپ نے سُنا ہی ہوگا۔ ؎
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
مرزا نے اِس شعر کو اپنے مزاج یعنی مرضی کے مطابق سمجھا ہے۔ جب بھی وہ دعوت کے بغیر شریکِ طعام ہوتے ہیں تو بہت تیزی سے ایسا بہت کچھ کر گزرتے ہیں کہ فریقِ ثانی کو تادیر بہت یاد رہتے ہیں!
بیشتر پاکستانیوں کی طرح مرزا بھی کسی اور معاملے میں کوئی فلسفہ رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں، کھانے پینے کے معاملے میں ایک باضابطہ ''فلاسفی‘‘ کے حامل ہیں اور اِس معاملے میں خود کو ''نظریاتی‘‘ قرار دینے سے بھی نہیں چُوکتے! مرزا فرماتے ہیں۔ ''ہوسکتا ہے دُنیا بھر میں لوگ زندہ رہنے کے لیے کھاتے ہوں۔ ہمیں اِس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اگر وہ اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے صرفِ نظر کرنا چاہیں تو اُن کی مرضی۔ فرانسیسی مفکر روسو نے کہا تھا کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے یعنی جس طرح چاہے زندگی بسر کرے۔ کوئی اگر اکیسویں صدی میں زندگی بسر کرتے ہوئے بھی 'روایتی‘ سوچ کا حامل ہو تو ہم کیا کریں! ہم محض دُنیا کا دِل رکھنے کے لیے ایسی گِھسی پِٹی سوچ کو گلے نہیں لگا سکتے! لوگ بے کھائے پیے بھی جیتے ہیں مگر صاحب، کوئی ہمیں تو ایسی رُوکھی پھیکی زندگی بسر کرنے پر نہ اُکسائے۔ زمین کا سینہ چیر کر منصۂ شہود پر نمودار ہونے والی نعمتوں سے ہم مستفید نہ ہوں تو کیا گائے بھینسوں کے لیے چھوڑ دیں!‘‘
ایک بار ہم نے تھوڑی سے ''شجاعت‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرزا کو کھانے پینے کے معاملے میں تھوڑا سا اجتناب برتنے کا مشورہ دیا تھا۔ اگلے ہی لمحے ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ مشورہ دراصل بارود کے ڈھیر کو جلتی ہوئی تیلی دِکھانے سے کم نہ تھا! مرزا نے کھانے پینے کے معاملے میں اپنی ''فلاسفی‘‘ بیان کرتے ہوئے کہا۔ ''بھائی! بات یہ ہے کہ تم جیسے لوگ تمدّن اور تہذیب کا پرچار کرنے کے نام پر صرف ایک کام کرسکتے ہو اور وہ ہے دوسروں کے کھانے پینے پر تنقید۔ ربّ العالمین نے بھی جو کچھ حلال و طیّب نعمتیں اُتاری ہیں اُن سے مستفید ہونے یعنی کھانے پینے کی تاکید کی ہے تو یہ خواہ مخواہ کی شرما حُضوری کیوں؟‘‘
ہم نے عرض کیا کہ جناب! اللہ نے کھانے پینے کی تاکید کی ہے مگر یہ تو نہیں کہا نا کہ بھرے پیٹ پر بھی کھاتے پیتے رہو۔ ہماری اِس بات پر مرزا نے پھڑک اور بھڑک کر کہا۔ ''اچھا، اب یہ بھی تم جیسے لوگ طے کریں گے کہ کسی کا پیٹ کب بھرتا ہے؟ سب کا اپنا اپنا پیٹ ہے، جب چاہے بھرے۔‘‘
مرزا کا جوابی سوال سُن کر ہم اپنا سا معدہ ... یعنی اپنا سا مُنہ لے کر رہ گئے! جب معاملات اِس نہج پر ہوں تو کوئی سمجھنے کی کوشش کب تک کرے اور کیا سمجھے؟ قوم دریائے مطبخ میں غرقاب ہوکر رہ گئی ہے ؎
اب سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ آخر کیا ہوا؟
کھا گئے کھانے کو ہم یا کھا گیا کھانا ہمیں!
وزیر اعظم محمد نواز شریف گزشتہ جمعہ کو کراچی آئے۔ دورے کا بنیادی مقصد ایک اہم اجلاس میں کراچی کے خراب حالات کا جائزہ لینا اور نئے اقدامات طے کرنا تھا۔ وزیر اعظم اسٹاک ایکسچینج بھی گئے۔ وہاں پُرتکلّف طعام کا اہتمام تھا۔ ملائی بوٹی، فنگر فش، باربی کیو، فروٹ ٹرائفل سبھی کچھ تھا۔ مگر وزیر اعظم مطمئن نہ ہوئے اور طعام کے کمزور ہونے کا ''آن دی اسپاٹ‘‘ شکوہ کیا! وزیر اعظم ماشاء اللہ خوش خوراک ہیں۔ مگر موقع کی نزاکت کے پیش نظر اُن کا یہ شکوہ خاصا odd تھا۔ جب اعلیٰ ترین منصب سے ایسا پیغام ملے تو عوام ساری لذّتیں ایک لذّتِ کام و دہن میں کیوں نہ ڈھونڈیں اور یہ دُعا حِرزِ جاں کیوں نہ ہو؟ ؎
اللہ کرے نہ ختم ہوں ''رغبت‘‘ کے رات دن
بیٹھے رہیں ''تصوّرِ کھانا‘‘ کئے ہوئے!