"MIK" (space) message & send to 7575

علم کہاں سے بیچ میں آگیا؟

ہر دور میں یہی ہوا اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ کیا؟ یہی کہ جن کے پاس علم ہو اُن کے پاس دولت کا ہونا لازم نہیں ہوتا۔ اور جن کا علم سے دور کا بھی تعلق نہ ہو وہ اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ دولت کمانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ یہ بات نہ تو حیرت انگیز ہے نہ افسوس ناک۔ کسی بھی اُصول یا فلسفے کی مدد سے دولت کے حصول کا علم سے کوئی براہِ راست تعلق ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ 
دولت صرف اُس کے پاس آتی ہے جو اُس کے حصول کا سوچتا ہے۔ یہی اُصول علم کے معاملے میں بھی اطلاق پذیر رہا ہے۔ وہی لوگ زیادہ علم حاصل کر پاتے ہیں جو زیادہ علم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دولت کا زیادہ حصول ممکن بنانے کے لیے انسان کچھ بھی کرسکتا ہے اور کر گزرتا ہے۔ جو لوگ جائز طریقے اختیار کرتے ہیں اُنہیں بھی دولت ملتی ہے اور جو کچھ بھی کر گزرنے پر یقین رکھتے ہیں اُن کے پاس بھی دولت کی فراوانی دکھائی دیتی ہے۔ 
گزشتہ دنوں امریکی ادارے ''اپرووڈ انڈیکس‘‘ نے دنیا کی 100 امیر ترین شخصیات کے کوائف کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ اِن میں صرف 12 کے پاس بزنس کی ڈگری ہے۔ اور 32 ایسے ہیں جن کے پاس کوئی ڈگری ہی نہیں! ادارے کی ڈائریکٹر ایمی کیٹلو کا کہنا ہے کہ جائزہ لینے سے اندازہ ہوا کہ بھرپور کامیابی اور دولت کے حصول کے لیے کسی بھی ڈگری کا ہونا لازم نہیں۔ 
ایمی کیٹلو نے کامیاب ترین شخصیات کے کوائف اور حالاتِ زندگی کا جائزہ لینے کے حوالے سے مرتب کردہ رپورٹ میں ایک عجیب بات بھی کہی۔ اُن کا کہنا تھا، ''ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ روایتی تعلیم سے محروم افراد کو اعلیٰ ملازمتوں سے محروم رکھ کر ہم کوئی بڑی غلطی تو نہیں کر رہے!‘‘ 
تحقیق کرنے والوں کی مَت کب اور کہاں ماری جاتی ہے، اِس پر بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے! پہلی بات تو یہ کہ دولت کے حصول کا علم یا ڈگری کے حصول سے کوئی تعلق نہیں۔ دنیا بھر میں اعلیٰ درجے کی تعلیم کبھی دولت کے حصول پر زور نہیں دیتی۔ تعلیم اِنسان کو معیار اور کردار سے آشنا کرتی ہے۔ اگر کسی شعبے میں اُس کی کارکردگی کا معیار بلند ہو جائے تو بہت خوب۔ اور اگر اِس کے ساتھ دولت بھی آجائے تو کیا کہنے۔ دولت اور علم کو جوڑنا کسی طور درست نہیں۔ 
ایمی کیٹلو کو اِس بات پر حیرت ہے کہ کوئی ڈگری نہ رکھنے والے بھی بے حساب دولت کمانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اِس بات پر حیرت ہے کہ ایمی کیٹلو کو اِس بات پر حیرت کیوں ہے! دولت کا بنیادی تعلق محنت سے ہے۔ دوسرے نمبر پر موقع شناسی ہے‘ یعنی معلوم ہونا چاہیے کہ دولت کہاں سے اور کب حاصل ہوسکتی ہے۔ تیسرے نمبر پر فنکاری ہے۔ یعنی اِنسان کو کسی بھی موقع سے فائدہ اٹھاکر دولت کمانے کا ہنر آتا ہو۔ تعلقاتِ عامہ کا فن بھی بھرپور کامیابی یعنی دولت کے حصول کے لیے انتہائی ناگزیر ہوا کرتا ہے۔ ذرا سا اور آگے بڑھیے تو چند ناپسندیدہ سرگرمیوں کا ذکر بھی کرنا پڑے گا۔ مثلاً جو لوگ دولت کے حصول کو زندگی کا نصب العین بناتے ہیں وہ اخلاقی اُصولوں کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ ضمیر، احساس، اخلاق، رواداری، مَروّت ... یہ سب کچھ دولت کے حصول کی راہ میں بڑی رکاوٹوں کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ اِن ''رکاوٹوں‘‘ کو ہٹائے بغیر کوئی بھی اپنی خواہش کے مطابق دولت نہیں پاسکتا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اِس پورے کھیل میں علم کہاں کھڑا ہے؟ 
تاریخ کے ہر دور میں علم والوں کا دولت کمانے سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ جو علم کی طرف جاتا ہے وہ دولت کے بارے میں کم کم ہی سوچتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ علم اور حکمت رکھنے والوں کے ذہن میں دولت کہیں دور کسی کونے میں پڑی ہوتی ہے۔ وہ بالعموم ابتدائی چار پانچ ترجیحات میں دولت کو رکھتے ہی نہیں۔ 
جو لوگ دولت کو ہر شے پر ترجیح دیتے ہیں اُن کے لیے دولت کا حصول ہر معاملے سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ ایسے لوگ کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ کمانے کی دُھن میں مگن رہتے ہیں۔ سوال جائز یا ناجائز ذرائع کا نہیں بلکہ دولت کمانے کی دُھن کا ہے۔ جن کے ذہنوں پر دولت سوار ہوتی ہے وہ کسی بھی دوسری چیز کو ترجیح نہیں دیتے۔ اور علم و حکمت سے تو وہ بہت دور رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ دانائی پر مبنی باتیں ضرورت سے بہت زیادہ دولت کے حصول کی خواہش کو جڑ سے ختم کرنے پر تُلی رہتی ہیں! آج بھی جو لوگ علم اور حکمت کو زندگی کی بنیاد سمجھتے ہیں اُن کے نزدیک دولت کی وقعت گندے پانی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ آپ سوچیں گے یہ انتہائی رویّہ ہے‘ مگر حقیقت ہے۔ اور یہ کچھ آج کے دور کی بات نہیں۔ ہر دور میں حکمت سے بہرہ مند ہونے والوں نے دولت کو کسی بھی اعتبار سے اہمیت نہیں دی۔ 
مغرب کے لوگ بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ انسان انگشت بہ دنداں رہ جائے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ایک زمانے سے مغربی دنیا میں دولت کے حصول کے لیے اعلٰی تعلیم یا کسی معتبر ڈگری کا حصول لازم نہیں سمجھا جارہا مگر اُنہیں تحقیق کرنے کی اب سُوجھی ہے۔ ڈیڑھ دو سو سال سے اہلِ مغرب نے یہ طے کر رکھا ہے کہ کسی بھی قیمت پر زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرنی ہے اور زندگی کا معیار بلندکرتے رہنا ہے۔ اور کامیابی اِس کے سِوا کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جائے۔ یہ اہلِ مغرب ہی ہیں جنہوں نے دولت کے حصول کے لیے کسی بھی حد سے گزر جانے کا فلسفہ دیا ہے۔ ایک طرف تو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ مغرب نے تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دے کر تہذیب کے میدان میں نئے جھنڈے گاڑے ہیں اور دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ مغرب ہی نے یہ تصور دیا ہے کہ جب بات دولت کے حصول کی آ جائے تو علم و حکمت کو گولی مارو اور تہذیب کے سارے پرچم لپیٹ کر ایک طرف رکھ دو! 
مغربی دنیا کی فقید المثال ترقی عُلوم اور فُنون کے میدان میں بے مثال پیش رفت کی بھی مرہونِ منت ہے مگر اِس حقیقت سے خود اہلِ مغرب بھی انکار نہیں کرسکتے کہ اُن کی بھرپور کامیابی دراصل زیادہ سے زیادہ کامیابی کے حصول کی خواہش کا ثمر ہے۔ ڈھائی سو سال سے بھی زائد مدت کے دوران مغربی قوتوں نے کامیابی اور دولت کے لیے طاقت میں اضافہ کرتے رہنے کی روش اپنائی ہے اور ہر کمزور کو دبوچ کر اُس سے سب کچھ چھین لینے کی روش پر چل کر دکھایا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ امریکا کے علاوہ یورپ کے کئی ممالک کی پالیسیوں سے یہی بات جھلکتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ طاقت استعمال کرکے دوسروں کے وسائل پر قبضہ کرنا کسی بھی اعتبار سے غلط نہیں۔ ہاں، کوئی اور خطہ کرے تو غلط ہے! یعنی بقول جارج آرویل ''سب جانور برابر ہیں اور کچھ جانور زیادہ برابر ہیں!‘‘ 
ایمی کیٹلو کہتی ہیں کہ جو لوگ روایتی تعلیم یعنی رسمی ڈگری حاصل نہیں کر پاتے اُنہیں بہتر ملازمتوں سے دور رکھنا شاید دانش مندی نہیں۔ چلیے، ہم اُنہیں بتائے دیتے ہیں کہ یہ احمقانہ رسم بھی مغرب ہی میں ہے کہ جو اعلیٰ ڈگری رکھتا ہو اُسی کو اعلیٰ ملازمت دی جائے۔ اگر ایمی کیٹلو کچھ مدت کے لیے پاکستان تشریف لائیں تو یہ دیکھ کر سُکون کا سانس لیں گی کہ ہم نے رسمی تعلیم رکھنے والوں کو کھڈے لین لگانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ اور جنہوں نے رسمی تعلیم کے میدان میں انتہائی پھسڈّی پن کا مظاہرہ کیا ہے اُنہیں سَر آنکھوں پر بٹھا رکھا ہے! ہمیں یقین ہے کہ جو لوگ تعلیم میں پیچھے رہ جانے پر بھی اعلیٰ ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں اُن کے دِل پر اب کوئی بوجھ نہیں رہے گا۔ دِل میں جو تھوڑی بہت خلش تھی وہ ایمی کیٹلو کے بیان نے دور کردی ہوگی! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں