محبت بلندی کا سفر ہے۔ یہ بلندی جذبات کی بھی ہوتی ہے اور رُوح کی بھی۔ جو محبت کی راہ پر گامزن ہونے کا تہیّہ کرلیں وہ کہاں کسی کی سُنتے، کب کسی کو خاطر میں لاتے ہیں۔ اُن کے سامنے صرف ایک منزل ہوتی ہے ... محبت!
نیپال میں زلزلہ آیا تو بہت کچھ زمین پر آرہا۔ نیپالی دارالحکومت کٹھمنڈو کا اصل نام ''کاٹھمنڈو‘‘ ہے۔ یہ قدیم شہر ہے جس کی بیشتر عمارتیں ''کاٹھ‘‘ یعنی لکڑی سے بنائی گئی ہیں۔ اِس خوبصورت شہر میں لکڑی کی بنی ہوئی بہت سی شاندار اور یادگار عمارتیں زلزلے کے ہاتھوں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئیں‘ اور ملبے کے اِس ڈھیر میں ہزاروں جیتے جاگتے اِنسان بھی ملکِ عدم کے راہی ہوئے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ ایک قیامت تھی جو نیپال کے باشندوں پر گزر گئی۔ یہ ایسی دُکھ بھری داستان ہے جسے سُن اور دیکھ کر دُنیا بھر میں کروڑوں آنکھیں پُرنم ہوگئیں۔ نیپال کے زلزلہ زدگان کے لیے اہلِ جہاں نے دِل کھول کر امداد بھی دی ہے۔ ابھی سے تعمیرِ نو کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ ہزاروں بچے یتیم ہوئے ہیں جن کی بہتر پرورش اور معیاری تعلیم و تربیت یقینی بنانے کے لیے سوچا جارہا ہے۔
بات محبت سے شروع ہوئی تھی۔ عجیب سا لگتا ہے کہ کہاں زلزلہ اور کہاں محبت! نیپال کے زلزلے کا تذکرہ اَدھورا ہی رہے گا اگر محبت کی گرم بازاری کا ذکر نہ ہو۔
کٹھمنڈو میں زلزلے نے دَھرہرا ٹاور کو بھی خاک چٹادی۔ یہ ٹاور بھیم سین ٹاور بھی کہلاتا تھا کیونکہ اِسے نیپال کے پہلے بادشاہ بھیم سین نے تعمیر کرایا تھا۔ دَھرہرا ٹاور محبت کرنے والوں کے لیے مرکزِ اُمّید تھا۔ اِس ٹاور پر چڑھنے کے لیے 330 سیڑھیاں تھیں۔ اِن سیڑھیوں پر محبت کرنے والے گھنٹوں بیٹھ کر ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔ فلموں کے ڈائریکٹر جو ماحول ہیرو اور ہیروئن کے ذریعے سِلور اسکرین پر پیدا کرتے ہیں کچھ کچھ ویسا ہی محبت بھرا ماحول دَھرہرا ٹاور کی سیڑھیوں اور جھروکوں پر بھی دکھائی دیتا تھا۔
گھومتی ہوئی سیڑھیوں کی دیواروں پر محبت کرنے والے اپنے نام بھی لکھا کرتے تھے اور کوئی نہ کوئی نشانی بھی چھوڑا کرتے تھے تاکہ بعد میں آکر اُس کا جائزہ لیں اور گزرے ہوئے حسین لمحات کو یاد کرکے دِل کی تسکین کا کچھ سامان کرسکیں۔
نیپالی دارالحکومت کے علاوہ قرب و جوار کے علاقوں سے بھی پریمی جوڑے دَھرہرا ٹاور کا رُخ کرتے تھے۔ وہ یہاں گھنٹوں بیٹھے ایک دوسرے کو دِل کی باتیں سُنایا کرتے تھے۔ زلزلے کے وقت بھی دَھرہرا ٹاور درجنوں محبت کرنے والوں کو اپنی آغوش میں سَموئے ہوئے تھا۔ لاکھوں جنم ساتھ نِبھانے کی قسمیں کھائی جارہی تھیں۔ کسی بھی حالت میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑنے کے عہد و پیمان کئے جارہے تھے۔ دِلوں کے دِلوں سے رابطے تھے، فضاء میں اپنائیت تھی، صہبائے وفا کے گھونٹ پی کر سبھی مَدہوش تھے۔ ایسے میں زمین تَھرّا اُٹھی۔ جب غیظ و غضب میں ڈوبی ہوئی دَھرتی نے ''اظہارِ محبت‘‘ کیا تو ماحول کچھ کا کچھ ہوگیا۔ کٹھمنڈو کی دوسری بہت سی عمارتوں کی طرح دَھرہرا ٹاور کی بنیادیں بھی ہل گئیں۔ آن کی آن میں فضا یوں بدلی کہ کچھ نہ رہا، کچھ نہ بچا۔ محبت کی راہوں میں سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ رکھنے والوں کو اپنی آغوش میں سموئے دَھرہرا ٹاور اپنی رفعت سے دست بردار ہوکر زمین پر آرہا۔ اِس ٹاور کی سیڑھیوں پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے جوڑے اِسی حالت میں موت کے سَفّاک جبڑوں کے لیے لُقمۂ تر میں تبدیل ہوگئے۔
موت کِتنی سَفّاک اور بے حِس حقیقت ہے کہ محبت کرنے والوں کا بھی کچھ خیال نہ کیا۔ دَھرہرا ٹاور کی سیڑھیوں پر روہت اور آرتی، سُپریا اور مہرجن، سُورج اور سُنِچّھا اور نانو اور مہرجن سمیت پانچ درجن سے زائد جوڑے براجمان تھے۔ اِن سب کو ساتھ جینے کا موقع تو نہ مل پایا، ہاں ساتھ مرنے کا ''اعزاز‘‘ ضرور نصیب ہوگیا! چلیے، محبت اِس ایک معاملے میں تو ناکام نہیں رہی۔
دَھرہرا ٹاور کسی عمارت کا نام نہ تھا۔ پتھر، مٹی، لوہے اور لکڑی کے ملغوبے سے کہیں بڑھ کر یہ تو محبت کرنے والوں کا نشیمن تھا۔ اِس عمارت میں نئی نسل کا دِل دھڑکتا تھا۔ اِس کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر محبت کرنے والے جب اِن سیڑھیوں پر چلتے تھے تو خود کو لا محدود بلندی کی طرف بڑھتا ہوا محسوس کرتے تھے۔ یہ ٹاور گِرا تو لاکھوں جواں سال لڑکوں اور لڑکیوں کی یادیں بھی زمین پر آرہیں۔ مختلف ادوار میں جن لڑکوں اور لڑکیوں نے اِس عمارت کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر محبت کی قسمیں کھائی تھیں وہ زلزلے کے بعد اِس کے ملبے کی طرف دوڑے۔ اُن کے نام بھی اِس ٹاور کی دیواروں پر لکھے اور کُھدے ہوئے تھے۔ پتھر اور مٹی کے ڈھیر میں اُنہوں نے دیوانہ وار اپنی اپنی محبت کی نشانیاں تلاش کرنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ کئی دن سے جاری ہے۔
زلزلے کے وقت دَھرہرا ٹاور کی سیڑھیوں پر جتنے بھی جوڑے بیٹھے زندگی بھر ساتھ نِبھانے کے عہد و پیمان کر رہے تھے‘ موت کی سیڑھی چڑھ کر ابدی محبت کی وادی میں اُتر گئے۔ جو محفوظ رہے وہ ٹاور کے ملبے میں اپنی محبت کی نشانیاں تلاش کر رہے ہیں تاکہ باقی زندگی اُن نشانیوں کو سینے سے لگائے اپنی محبت کو پروان چڑھاتے رہیں۔
زندگی کے بھی کتنے اور کیسے عجیب رنگ ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے تک نیپال میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ کوئی ایسی ویسی بات نہ تھی۔ پھر یہ ہوا کہ زمین نے کروٹ بدلی اور ایک معصوم سے ملک کو ملیا میٹ کرگئی۔ اموات تو نیپال میں اور بھی ہزاروں ہوئی ہیں مگر دَھرہرا ٹاور سے ملنے والی محبت کرنے والوں کی لاشیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ نیپال میں زلزلے کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترنے والے ہزاروں افراد میں سے چند درجن لڑکے اور لڑکیاں ہی تھے جو محبت کی باتیں کرتے کرتے موت کو حاصل ہوئے! موت سے سبھی بھاگتے ہیں جبکہ اُسے تو آنا ہے۔ غالبؔ نے خُوب کہا ہے ؎
موت کی راہ نہ دیکھوں؟ کہ بِن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آؤ تو بُلائے نہ بنے!
نیپال کے یہ محبت کرنے والے موت کی نذر ہونے کے حوالے سے بدنصیب کہلاسکتے ہیں مگر اِن کی خوش نصیبی بھی تو ملاحظہ فرمائیے کہ جنہیں دِل میں بسا رکھا تھا وہی آنکھوں کے سامنے تھے کہ موت آگئی! موت اپنا وار تو کرگئی مگر دَھرہرا ٹاور کی سیڑھیوں پر ایک دوسرے کی دِل جُوئی کرنے والوں کو ہمیشہ کے لیے ایک بھی کرگئی۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے وہ موت کی نذر ہوئے اور دیکھنے والوں کو یادگار موت کا تحفہ دے گئے!
موت کا ہر رُوپ ہم میں سے بہت سوں کو لے جاتا ہے مگر ہمیں کچھ نہ کچھ دے کر بھی تو جاتا ہے۔ زندگی اپنے ہر رنگ میں کائنات کی ارفع ترین نعمتوں میں سے ہے۔ جو پَل موت کے بے رحم جبڑوں سے محفوظ رہیں وہ ہمارے لیے اللہ کے انعام کے سِوا کچھ نہیں۔ ہر قُدرتی آفت ہمیں کچھ نہ کچھ سِکھاکر جاتی ہے۔ نیپال کا زلزلہ اِس اعتبار سے منفرد رہا کہ محبت کرنے والوں کی سانسوں میں بسی ہوئی ایک یادگار عمارت بھی خاک کا رزق ہوئی۔ اور اِس خاک میں مِلنے والے بھی مُدّتوں یاد رہیں گے۔ ایک دوسرے سے محبت کا دَم بھرنے والوں کے لیے اِس سے بڑا اور منفرد اعزاز کیا ہوسکتا ہے کہ جب موت اُنہیں گلے لگائے تو وہ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے ہوئے ہوں! نیپال کا زلزلہ تو کچھ عرصے کے بعد ذہنوں کے پَردے سے غائب ہوجائے گا مگر دَھرہرا ٹاور کی سیڑھیوں پر موت کے آغوش میں جانے والے تادیر حافظوں کا حصہ رہیں گے۔ گویا ع
...کہانی محبت کی زندہ رہے گی!