وبائیں تو اور بھی بہت ہیں جو مملکتِ خدادادِ پاکستان کی حدود میں ہر طرح کی قیود سے آزاد پھرا کرتی ہیں مگر چند ایک وباؤں نے سرزمین پاک کو اپنے شکنجے میں یُوں کَس رکھا ہے کہ سانس لینا بھی دوبھر ہوگیا ہے۔
بہت سے لوگ ہر وقت (بظاہر اس خوف کے تحت) بولتے رہتے ہیں جیسے خاموش رہنے پر جیل میں ڈال دیئے جائیں گے! یُوں وہ اپنی ''خوش گفتاری‘‘ سے ''بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ کو ''بول کہ لب 'آزار‘ ہیں تیرے‘‘ کی منزل تک پہنچاکر دم لیتے ہیں!
کسی کو کھانے کا ہَوکا ہے تو ایسی شدت کا کہ لوگ ہاتھ جوڑ کر تھک جاتے ہیں کہ حضور، بس کیجیے۔ کھاتے وقت بہتوں کی کیفیت کچھ ایسی ہوتی ہے برتن سلامت رہ جانے پر میزبان اللہ کا شکر ادا کرتے پائے جاتے ہیں!
یہی حال ہر معاملے میں خواہ مخواہ دلچسپی لینے کا بھی ہے۔ یہ وباء اس قدر زور اور جڑ پکڑ چکی ہے کہ اب اس سے گلو خلاصی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ لوگ ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھتے ہیں تو اپنی زندگی کے سِوا ہر معاملے میں بھرپور اور جامع دلچسپی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ گھر میں چاہے کھانے کو کچھ نہ ہو مگر پرائم ٹائم میں بجٹ پر مذاکرہ یا ٹاکرہ ضرور سُنیں گے۔ کوئی سمجھائے تو سمجھتے نہیں کہ ہم غریبوں کا اربوں، کھربوں کے معاملات سے کیا تعلق! ہمارا اپنا حال زار ہم سے کہتا ہے ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو!
مگر ہم کہاں باز آتے ہیں؟ جو باز آجائیں وہ ہم نہیں یا ہم میں سے نہیں!
ایک زمانہ تھا کہ لوگ بات بے بات مشوروں سے نوازنا اپنا پیدائشی اور منصبی فریضہ گردانتے تھے۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے، ''از خود نوٹس‘‘ کے تحت مشوروں کا دریا بہانا سبھی اپنی بنیادی ذمہ داری قرار دے لیتے تھے اور پھر اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے (دوسروں کے) سَر دھڑ کی بازی لگا دیتے تھے!
کسی کے ہاں کوئی تقریب ہوتی تھی تو لوگ فکر مند رہا کرتے تھے کہ مختلف معاملات کا انتظام کیسے ہوگا، ضروری اشیاء کہاں سے دستیاب ہوں گی اور تقریب کی رونق کس طور دوبالا کی جاسکے گی! بالخصوص شادی والے گھر میں تو مشوروں سے نوازنے والوں کی آمد و رفت لگی رہتی تھی۔ یہ کیفیت اب بھی پائی جاتی ہے مگر قدرے مختلف انداز سے کیونکہ زمانہ بدل گیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے دنیا بھر میں عام آدمی کو متاثر کیا ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ اس سے کئی قدم آگے جاچکا ہے۔ وہ زمانہ اب کہاں کہ لوگ خود کو مشیر کے منصب پر از خود کے تحت فائز کرلیتے تھے۔ اب تو ہم استادی کے دور سے گزر رہے ہیں۔
مشوروں سے نوازنے کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے کہ میں ایک رائے دوں اور آپ چاہیں تو قبول کرلیں اور نہ چاہیں تو قبول نہ کریں۔ لوگ اب اس تکلف کے قائل نہیں۔ یہ استادی کا زمانہ ہے۔ لوگوں نے اپنے طور پر ہی طے کرلیا ہے کہ اس دنیا سے رخصت ہونے سے قبل وہ بہت سوں کو بہت کچھ سکھاکر جائیں گے۔
بات سکھانے کی آجائے تو لوگ اپنے آپ پر جنون طاری کرلیتے ہیں۔ کوئی لاکھ سمجھائے کہ پہلے خود تو کچھ سیکھ لیجیے مگر ع
کون سنتا ہے فغان درویش
اور پھر ''قہرِ درویش بر جانِ درویش‘‘ کے مصداق جو کچھ بھی سکھایا جائے وہ سیکھنا ہی پڑتا ہے۔ آپ بھی کبھی کبھی تو حیران رہ جاتے ہوں گے کہ جنہیں کچھ نہیں آتا وہ ''رضا کارانہ‘‘ یعنی ''خود کارانہ‘‘ طور پر کچھ نہ کچھ سکھانا چاہتے ہیں۔ حیران نہ ہوں کہ یہی تو آج کل اس سرزمین کا اصل ''فن‘‘ ہے!
ویسے تو ہر میدان میں سکھانے والے موجود ہیں مگر چند شعبے ایسے ہیں جن میں ''مان نہ مان، میں تیرا استاد‘‘ کی چلتی پھرتی مثالیں اتنی ہیں کہ ان سے بچ کر چلنا مشکل ہوگیا ہے۔ صحافت ہی کی مثال لیجیے۔ جو اس شعبے میں تین عشروں سے زائد مدت گزار کر بھی برائے نام نیوز سینس پیدا نہیں کرپاتے اور ڈھنگ سے چند جملے بھی نہیں لکھ پاتے ان کا شمار ''استادانِ فن‘‘ میں ہوتا ہے! بعض اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں کہ لاکھ کوشش پر بھی بہتر لکھ نہیں پاتے اور لوگ ان کی ہر تحریر کو کسی نئی طرزِ نگارش کا حاصل سمجھ کر قبول اور ہضم کرتے ہیں! اور ستم بالائے ستم یہ کہ ایسے ''لکھاری‘‘ چاہتے ہیں کہ ان کی ''نگارشات‘‘ پڑھ کر کوئی کچھ لکھنا سیکھ لے! اب آپ ہی بتائیے کہ ناطقہ سر بہ گریباں نہ ہو تو اور کیا کرے!
گانے بجانے والوں کی دنیا کا بھی یہی حال ہے۔ جو نام نہاد گویّے دو تین عشروں کی ''ریاضت‘‘ کے بعد بھی اپنے سامعین کو ''ریاضت‘‘ کے مرحلے سے گزارتے رہیں وہ بضد رہتے ہیں کہ ان کے پیر چُھوکر ان سے کچھ سیکھا جائے! اور مزے کی بات یہ ہے کہ گانا نہ جاننے والوں کو لوگ استاد مان کر اس قدر احترام دیتے ہیں کہ ناطقہ مزید سر بہ گریباں ہوجاتا ہے، بلکہ ناطقے کی بولتی بند ہوجاتی ہے!
سب سے برا حال دنیائے شعر و سُخن کا ہے۔ اس دنیا میں ''جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے‘‘ کی مثالیں قدم قدم پر بکھری پڑی ہیں۔ گویّوں کی دنیا کی طرح دنیائے سُخن میں بھی ''بے پیر‘‘ رہنا بہت بڑا عیب سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے بہت سوں کو دیکھا ہے کہ کسی نہ کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کو بے تاب رہتے ہیں۔ جو کچھ ہم نے گائیکی اور شعر کی دنیا میں دیکھا ہے اُس کے پیش نظر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ لوگ جلد از جلد کسی کو استاد بنانا چاہتے ہیں تاکہ کوئی اگر فن میں عیب نکالے تو خواہ مخواہ شرمندگی نہ ہو یعنی ع
الزام کسی اور کے سَر جائے تو اچھا!
محترم طاہر عباس ہمارے ان احباب میں سے ہیں جن سے ملنے کے بعد اپنا ہی ایک شعر بے معنی سا لگتا ہے۔ شعر یہ ہے ؎
مرے احباب مجھ سے پوچھتے ہیں
جہاں میں کیا کوئی تیرا نہیں ہے!
مگر ہمیں طاہر عباس صاحب سے یہ شکایت ہے کہ وہ شعر گوئی کا فن سکھانے کے معاملے میں بہت سوں کے اچھے خاصے ''کمالِ فن‘‘ کو ''ان سیکھا‘‘ کرنے کے درپے رہتے ہیں! ان میں سکھانے کے حوالے سے ''خلوص‘‘ اس قدر پایا جاتا ہے کہ بعض مبتدی ''مان نہ مان، میں تیرا استاد‘‘ والی کیفیت محسوس کرتے ہوئے یا تو شعر گوئی سے تائب ہوجاتے ہیں یا پھر ''تارک الطاہر‘‘ ہونا پسند کرتے ہیں! ہمارے خیال میں یہ زیادتی ہے۔ فی زمانہ کوئی اگر تنقید بھی کرے تو غنیمت جانیے۔ اب تو لوگ دوسروں کے فن میں کیڑے نکالنے کے بھی پیسے لیتے ہیں! طاہر عباس صاحب کی انتہائے اخلاص یہ ہے کہ یہ کام مفت کرتے ہیں! چند ایک کمزوریاں تو ہر انسان میں پائی جاتی ہیں۔ طاہر عباس صاحب دو چار کمزوریوں کے ہوتے ہوئے بھی اِتنے مضبوط ہیں کہ ہم اُن کی دوستی کے کھونٹے سے بندھے رہنا پسند کریں گے۔ رہ گئی ''مان نہ مان، میرا تیرا استاد‘‘ والی بات تو جناب، اس معاشرے میں جہاں ہر طرف استاد ہی استاد پھر رہے ہیں، اگر ایک طاہر عباس صاحب بھی از خود نوٹس کے تحت ایسا کر رہے ہیں تو اس میں کون سی بری بات ہے۔ عمل کے نتیجے یعنی اثرات سے زیادہ سے نیت کے خلوص پر نظر رہنی چاہیے!