"MIK" (space) message & send to 7575

زندہ لاشیں

منگولیا کے شہر اولن بیٹر میں 200 سال پرانی لاش ملی ہے۔ یہ لاش مراقبے کی حالت میں ہے۔ ماہرین طے نہیں کر پارہے کہ اسے مردہ قرار دیں یا نہ دیں۔ بدھ ازم کی روایات کے مطابق اگر کوئی شخص مراقبے کی حالت میں دم توڑ دے تو وہ مردہ نہیں کہلائے گا بلکہ اس کا شمار زندوں ہی میں ہوگا۔ 
منگولیا انسٹی ٹیوٹ آف بدھسٹ آرٹ کا کہنا ہے کہ لاش جس حالت میں ملی ہے اس کی روشنی میں مذکورہ شخص کو زندہ ہی خیال کیا جائے گا۔ وہ ''تکدام‘‘ یعنی مکمل ''دھیان‘‘ کی حالت میں پایا گیا ہے۔ مکمل ''دھیان‘‘ کی حالت میں ہونا یعنی اپنے اور کائنات کے رشتے پر غور کرتے ہوئے استغراق کی حالت میں چلے جانا بدھ ازم کی روایات کی روشنی میں زندگی ہی کہلاتا ہے۔ جہاں جہاں بھی بدھ ازم کے پیرو رہے ہیں وہاں مختلف ادوار میں ایسی لاشیں ملتی رہی ہیں۔ بھارت میں بھی ایک زمانے تک بدھ ازم کا غلغلہ رہا۔ بھارت کے طول و عرض میں بھی مکمل استغراق کی حالت میں مر جانے والوں کی لاشیں ملتی رہی ہیں۔ 
جب بھی کوئی حنوط شدہ لاش ملتی ہے تو دنیا اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ جسے دنیا سے رخصت ہوئے صدیاں بیت گئی ہوں اس کی باقیات بھی شہرت بٹورتی ہیں۔ اور اگر کوئی مراقبے، دھیان یا استغراق کی حالت میں ہاتھ آئے تو ماہرین طے نہیں کر پاتے کہ وہ مردہ ہے یا نہیں۔ کیا زمانہ آگیا ہے کہ جو ہلنے جلنے کے قابل بھی نہیں اس پر توجہ دی جارہی ہے اور چلتی پھرتی ''کنفرمڈ زندہ لاشوں‘‘ پر توجہ دینے کا وقت کسی کے پاس نہیں! 
قصوں کہانیوں میں ہم آپ زندہ لاشوں کے بارے میں پڑھتے آئے ہیں۔ سَر کٹے انسانوں کے بارے میں بھی آپ نے سُنا ہی ہوگا۔ دیکھا کسی نے نہیں، بس سُنا ہی سُنا ہے۔ مگر اب تو دیکھنے کی بھی گنجائش پیدا ہوچکی ہے۔ 
اکیسویں صدی کا انسان چلتی پھرتی لاش نہیں تو اور کیا ہے؟ سانس بھی آ اور جارہی ہے۔ سینوں میں دل بھی دھڑک رہے ہیں۔ گردن پر مٹکوں کی طرح دھرے ہوئے سَروں میں دماغ بھی فعال ہیں مگر ہائے رے انسان کی مجبوریاں! یہ سب کچھ ہے مگر انسان کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ گزرے ہوئے زمانوں میں انسانوں کو محفوظ کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ تھا کہ مر جائے تو لاش کو مسالے لگاکر محفوظ کرلیا جائے۔ موسٰی علیہ السلام جس سے نبرد آزما ہوئے تھے اُس فرعون کی محفوظ لاش آج بھی عبرت کا نشان اور سامان بنی ہوئی ہے۔ اور بھی بہت سی محفوظ لاشیں دنیا بھر میں بکھری ہوئی ہیں۔ عجائب گھروں میں رکھی ہوئی یہ لاشیں ہمیں گزرے ہوئے زمانوں میں لے جاتی ہیں۔ اس دور کی کوئی بات تو ہمیں ان لاشوں کے ذریعے معلوم نہیں ہو پاتی مگر ہاں ان کے ذریعے سے ان گزرے ہوئے زمانوں سے ہمارا تعلق یا ربط ضرور قائم ہوجاتا ہے۔ کسی بھی حنوط شدہ لاش کو دیکھ کر ہم کچھ دیر کے لیے ''مینٹل ٹائم ٹریول‘‘ کرتے ہیں یعنی ذہن گزرے ہوئے زمانوں کی سیر کرنے لگتا ہے۔ 
مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں کہ گزرے ہوئے زمانوں کی لاشیں بظاہر کسی کام کی نہیں۔ یہ لاشیں دیکھنے، سُننے اور چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔ ان لاشوں کو اب جدید دور کے انسان سے مقابلہ درپیش ہے۔ مرزا مزید کہتے ہیں کہ لاش کی تعریف یہ ہے کہ وہ دیکھنے، سُننے، سوچنے، ہاتھ ہلانے، چلنے پھرنے یعنی ماحول کا حصہ بننے سے قاصر ہو۔ سادہ الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ جب روح پرواز کر جائے یعنی دم نکل جائے تو جسم اس دنیا کے لیے یکسر بے تعلق سا ہوکر رہ جاتا ہے۔ یعنی لاش بے فیض ہوتی ہے۔ اس کے ہونے نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ انگریزی میں زندہ انسان کو human being کہا جاتا ہے اور جب روح پرواز کر جائے تو باقی رہ جانے والی چیز کو body کہتے ہیں۔ یعنی روح کے بغیر انسان محض جسم ہے، اور کچھ نہیں! اس تعریف کی رُو سے ہم سبھی لاشوں کے زُمرے میں آتے ہیں! 
مرزا درست کہتے ہیں۔ ہم بھی تو اپنے ماحول اور اس دنیا کے لیے یکسر بے تعلق اور بے فیض سے ہوکر رہ گئے ہیں۔ آنکھیں ہیں مگر دکھائی نہیں دیتا۔ کان سُننے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ ذہن فعال تو ہے مگر جس کام کے لیے اِسے خلق کیا گیا ہے وہی کام اب اِس سے نہیں ہو پاتا۔ ہاتھوں میں جنبش ہے مگر کسی کام کی نہیں۔ حیوانات کی سطح پر جو تحرک درکار ہوتا ہے وہی ہم میں پایا جارہا ہے۔ ٹانگیں بھی فعال ہیں مگر ہم صرف متحرک رہتے ہیں، کسی بھی معاملے میں صراطِ مستقیم پر چلنا نصیب نہیں ہو رہا۔ آج کے انسان کی اِس سے بڑی بدنصیبی کیا ہوگی کہ اللہ نے بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے جتنی بھی صلاحیتیں خلق ہیں وہ پائی تو جاتی ہیں مگر ان سے کام لینا دور کی بات رہی، کام لینے کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی! 
آج کے انسان کی بات ہو یا تین چار ہزار سال پہلے انسان کی، فرائض یکساں رہے ہیں۔ ہر دور کے انسان کو کچھ ایسا کرکے جانا تھا کہ آنے والے زمانوں میں اُسے قدر اور احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔ کچھ ایجاد یا دریافت کرنے والوں کو سیکڑوں برس گزرنے پر بھی غیر معمولی احترام دیا جارہا ہے۔ ساری دنیا ان کا احسان مانتی ہے۔ اور کیوں نہ مانے؟ جس نے دوسروں کے لیے بہت کچھ یا کچھ نہ کچھ کیا ہو اُس کی بھرپور تکریم کی ہی جانی چاہیے۔ ہزاروں برس کے عمل میں مختلف ادوار کے انسانوں نے اِس دنیا کو زیادہ سے زیادہ باسہولت بنانے کے لیے ہزاروں جتن کئے ہیں۔ دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کرنے کی غرض سے بہت سوں نے مرتے دم تک مشکلات اور پریشانیوں کو حرزِ جاں بنائے رکھا۔ آج اُن کی ہڈیاں بھی دستیاب نہیں مگر نام زندہ ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے اِس سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتا ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے اور پھر یہ کہ صدیاں گزر جانے پر بھی دنیا اُسے یاد رکھے! 
سمجھ میں نہیں آتا کہ حنوط شدہ لاشوں کے مقابلے میں ہم اپنے کو یعنی آج کے انسان کو کیا درجہ دیں؟ صدیوں پرانی لاشیں بھی کچھ نہ کچھ اہمیت رکھتی ہیں۔ اور کچھ نہ سہی، ان کے حصے میں شہرت تو آئی ہے۔ اِدھر ہم ہیں کہ زندہ ہوکر بھی بے نام ہیں۔ زیادہ سے زیادہ آسانیوں سے ہم کنار رہنے کی خواہش نے انسان کو ایسا الجھا دیا ہے کہ زندگی دشوار سے دشواتر ہوتی جارہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سانوں کی آمد و رفت، دل کی دھڑکن اور نبض کی حرکت کے سوا زندگی کا کوئی نشان نہیں بچا۔ زندگی بس نام کو باقی بچی ہے۔ ہارر فلموں میں زومبی یعنی زندہ انسانوں کا خون پینے اور ان کی بوٹیاں نوچ کر کھانے والی زندہ لاشوں کا تصور پیش کیا جاتا رہا ہے۔ شاید اب اس موضوع پر فلمیں بنانے کی ضرورت نہیں رہی۔ آج کے زندہ انسان بھی یہی کچھ تو کر رہے ہیں۔ زندگی کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں اس حوالے سے ذرا بھی سوچے بغیر آج کے انسان محض جیے جارہے ہیں اور سانس کو چلتا، دل کو دھڑکتا رکھنے میں کامیابی کو زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ وہ زمانہ جا بھی چکا جب سوچ کی پستی کا رونا روکر دل کا بوجھ ہلکا کرلیا جاتا تھا۔ اب تو خیر سے سوچ ہی نہیں رہی۔ ذہنوں میں اتنا کچھ بھرگیا ہے کہ انہیں سوچنے کی طرف مائل ہونے کی فرصت ہی نصیب نہیں ہوتی۔ 
گزرے ہوئے زمانوں میں زندہ اور مردہ کا فرق نمایاں تھا اس لیے مردوں کو محفوظ کرنے پر دھیان دیا جاتا تھا تاکہ لوگوں کو گئے وقتوں کے بے گڑے مردے دیکھ کر یاد رہے کہ زندوں کو زندگی کے حقوق ادا کرتے رہنا ہے۔ آج کا انسان مُردوں کو محفوظ رکھنے کے جھنجھٹ سے اپنے آپ کو آزاد کرچکا ہے کہ اب وہ خود چلتی پھرتی لاش ہے! آج کے انسان کو قدم قدم نصیب ہونے والی آسانیوں کی بدولت ہاتھ آنے والی ایسا فقید المثال ''عروج‘‘ مبارک! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں